ریپ کے شکار بچے
بلوچستان کے دارالحکومت میں بے گھر بچوں کے انٹرویو کیے گئے، جن میں انہوں نے کئی چشم کشا حقائق سامنے آئے۔
01 : ہوٹل اور بازار
13 سالہ نذیر اکثر کوئٹہ کے لیاقت بازار جاتا ہے جو موبائل فون، کپڑوں اور مقامی طور پر تیار شدہ زیورات کے لیے مشہور ہے۔ افغانستان سے بھاگنے کے بعد اس کم عمر کا خاندان اس شہر میں آکر بسا تھا۔
نذیر کا کہنا ہے کہ اس نے پیسوں کے لیے کئی مردوں کے ساتھ جنسی عمل کیا ہے اور اسے اس مصروف بازار میں کئی بے تاب 'کلائنٹس' مل جاتے ہیں۔
نذیر کو 'قیمت' طے کرنے کے بعد ایک مقامی ہوٹل میں دکاندار نیک محمد سے ملنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ وہ شخص شروع میں نذیر کو 100 روپے کی پیشکش کرتا ہے مگر وقت نے نذیر کو سکھا دیا ہے کہ بحث کرنے سے اکثر زیادہ پیسے مل جاتے ہیں۔ 150 روپے میں لڑکے کی رضامندی خرید لی جاتی ہے۔
ایک بڑی فوجی چھاؤنی رکھنے والے اس شہر میں انٹرویوز کم عمر بچوں کے جنسی استحصال کی پریشان کن داستانوں سے پردہ اٹھاتے ہیں۔
یہ استحصال اکثر ورکشاپ میں یا بدنام ہوٹل یا اسی ہی کسی جگہ پر ہوتا ہے، یہ جگہ مردوں کو فی گھنٹہ نہایت کم نرخ پر دستیاب ہوتی ہے۔
کوئٹہ کا ستار روڈ اس طرح کے ہوٹلوں سے بھرا پڑا ہے، جن میں سے کچھ اس 'تجارت' میں ملوث لڑکوں اور شکاریوں کے زیرِ استعمال رہتے ہیں۔
نذیر کا پہلی مرتبہ جنسی استحصال 7 کلومیٹر طویل سبزل روڈ پر رہنے والے ایک پڑوسی کے ہاتھوں تب ہوا، جب وہ صرف 9 سال کا تھا۔
نذیر اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ "وہ کہتا تھا کہ وہ مجھے پیسے دے گا، وہ میرے ساتھ زیادتی کرتا رہا مگر مجھے ایک پیسہ نہیں دیا۔ مجھے اس وقت سمجھ بھی نہیں تھی کہ اس وقت میرے ساتھ کیا کیا گیا، میرے گھر والوں کو اس بات کا علم نہیں ہے، وہ سمجھتے ہیں کہ میں بازار میں کام کرتا ہوں"۔
29 سالہ سمیع پاک ایران بارڈر پر واقع شہر تفتان کے قریب کام کرتا ہے، اور ہر 2 ماہ میں ایک مرتبہ شہر کے خستہ حال 'فور سیزنز' ہوٹل آتا ہے۔ ہوٹل میں ایک رات کا کرایہ 1000 روپے ہے، جبکہ 1000 روپے مزید دے کر 'اسپیشل سروس' حاصل کی جا سکتی ہے۔
2 بچوں کے والد 30 سالہ سمیع کا کہنا تھا کہ وہ اسکول کے زمانے سے بچوں کو جنسی عمل کے لیے مجبور کرتے رہے ہیں۔
سمیع کو بظاہر اس بات پر کوئی شرم نہیں ہے، اپنا صرف پہلا نام شائع کرنے کی درخواست کرتے ہوئے سمیع کہتے ہیں کہ میں اس عادت سے جان نہیں چُھڑا سکتا، میں نے بہت کوشش کی ہے مگر سب بے سود رہا۔
لیاقت بازار کے 72 سالہ درزی استاد عبید کی بھی ایسی ہی کہانی ہے، اپنی سلائی مشین پر جھکے ہوئے عبید سے جب پوچھا گیا کہ کیا وہ بچوں کے ساتھ جنسی عمل میں ملوث رہے ہیں، تو وہ کام کرتے کرتے رک جاتے ہیں، ان سے پہلے کے لوگوں کی طرح ان سے بھی اعتراف کروانا مشکل نہیں ہے۔ وہ بلا جھجھک کہتے ہیں، "میں بچوں کا جنسی استحصال کرتا تھا، اور اب بھی کرتا ہوں"۔
عبید تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے کم عمر لڑکوں کو اپنے ساتھ جنسی عمل کے لیے مجبور کیا۔ "کچھ کے پاس پیسے نہیں ہوتے، تو وہ پیسوں کے عوض ایسا کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں، اور کچھ بازار کے ماحول کی وجہ سے اس سب کے عادی ہوجاتے ہیں"۔
بعد میں عبید انکشاف کرتے ہیں کہ 14 سال کی عمر میں ان کا ریپ کیا گیا تھا، وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے لڑکوں کا جنسی استحصال "بدلے" کے طور پر شروع کیا تھا، اور پھر انہیں اس کی "عادت پڑ گئی"۔
اس کام میں ملوث چند لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ بچوں کا ریپ "انہیں سبق سکھانے کے لیے کرتے ہیں"۔
30 سالہ جبار کا کہنا تھا کہ وہ لڑکوں کا جنسی استحصال صرف انہیں "شرم" دلانے کے لیے کرتے ہیں، جب وہ بڑے ہوجائیں، تو انہیں بھولنا نہیں چاہیے کہ میں نے ان کا استحصال کیا تھا، جب یہ لڑکے ڈاکٹر، انجینیئر یا افسر بن جاتے ہیں تو یہ ہماری جانب دیکھتے بھی نہیں، یہ ان کے لیے بہترین سبق ہوتا ہے اور ساری زندگی انہیں اس بات کی شرم رہتی ہے۔
02 : رضا مند ہونے پر 2000 روپے ’تحفہ‘
غربت اور احساسِ محرومی اکثر بلوچستان کے کم عمر لڑکوں کو جسم فروشی میں دھکیل دیتی ہے۔
ضلع چمن سے تعلق رکھنے والے 25 سالہ یوسف بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ ہچکچاتے ہوئے اس کام میں اترے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسکول کے دنوں میں میرے والدین بہت سخت تھے اور وہ کبھی بھی مجھے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دیتے تھے، وہ مجھے کبھی بھی پیسے نہیں دیتے تھے۔
یوسف نے مزید کہا کہ کچھ سال قبل میں ایک اور شہر میں ایک شادی میں شرکت کے لیے گیا، وہاں میری 5 یا 6 سال بڑے 2 مردوں سے دوستی ہوئی، میرے وہاں قیام کے دوران انہوں نے مجھے 2000 روپے بطور تحفہ دیئے، اگلے دن انہوں نے 'تحفے' کے بدلے جنسی عمل کا مطالبہ کیا، وہ مجھے بلیک میل کرتے رہے، ایک کے بعد ایک ان کے دوستوں نے بھی میرا استحصال کیا، اس طرح یہ چیز چلتی رہی، میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔
یوسف نے اعتراف کیا کہ اگر وہ ان سے پیسے نہ لیتے، تو انہیں یہ مشکل نہ اٹھانی پڑتی، ’مگر میرے والدین بھی تو مجھے پیسے نہیں دیتے تھے، اس وقت 2000 روپے ایک شاہانہ رقم تھی، میں نے یہ سوچے سمجھے بغیر رقم لے لی کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے‘۔
03 : تصاویر اور دھمکیاں
سریاب روڈ کے رہائشی 26 سالہ باسط کو 4 افراد نے ایک دہائی قبل گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔ باسط اسکول جا رہے تھے جب انہیں ظفر* اور سعداللہ* نے زبردستی گاڑی میں ڈالا، باسط بے ہوش ہوگئے اور ایک اور شخص نے ان کے سر پر پستول تان لی۔
پھر انہیں کوئٹہ کے نواحی علاقے کلی لے جایا گیا، جہاں ان سے اجتماعی زیادتی کی گئی، ان کی برہنہ تصاویر بنانے کے بعد ان افراد کا کہنا تھا کہ وہ باسط کے والد کو 2 لاکھ روپے کے لیے بلیک میل کریں گے، وہ ابھی دوسرے کمرے میں اس بات پر بحث ہی کر رہے تھے کہ باسط کو بھاگ نکلنے کا موقع مل گیا۔
بھاگتے وقت ایک شخص نے باسط پر فائر کیا، دو نے موٹرسائیکل پر ان کا پیچھا کیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں لیکن وہ باحفاظت گھر پہنچ گئے، انہوں نے مقدمہ درج کرایا لیکن ان کا کیس اب بھی سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377 کے مطابق کوئی بھی غیر فطری جرائم چاہے وہ رضامندی سے فطرت کے خلاف کسی مرد، عورت یا جانور کے ساتھ کیا گیا ہو، اس پر عمر قید کی سزا یا ایسی سزا جو کم سے کم دو سال اور زیادہ سے زیادہ دس تک کی ہوگی جبکہ جرم کا ارتکاب کرنے والے پر جرمانہ بھی عائد ہوگا۔
عدالتی ریکارڈز کے ایک سرسری جائزے میں "غیر فطری جرائم" کے 12 مقدمات نظر آتے ہیں، عمران بلوچ نامی وکیل کے مطابق اس طرح کے مقدمات زیادہ تر جونیئر وکلاء لڑتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ کم معاوضے کے سبب وکلا ریپ کے مقدمات نہیں لیتے، اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ وکلا یہ سوچ کر اس طرح کے مقدمات ٹھکرا دیتے ہیں کہ ان سے پیشے کی بدنامی ہوتی ہے۔
04 : بچے ہر جگہ غیر محفوظ
انسانی حقوق کے کارکن عبدالستار بلوچستان میں بچوں کے جنسی استحصال کے عام ہونے کی وجہ بچوں کی اصلاحی جیل اور جووینائل کورٹس کی عدم موجودگی بھی بتاتے ہیں۔
عبدالستار کہتے ہیں کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے منظور ہونے کی وجہ سے بہتری کی امید ہے جبکہ اس معاملے پر ایک کمیشن بھی متوقع ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بچوں کے جنسی استحصال کا مسئلہ کثیر رخی ہے، زیادہ تر لوگ اس بات کو اپنی 'عزت' بچانے کی خاطر سامنے نہیں لاتے، اسی وجہ سے زیادہ تر مقدمات دن کی روشنی نہیں دیکھ پاتے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس مسئلے کے دیگر عوامل میں چائلڈ لیبر، تعلیم اور خاندانی رشتے بھی شامل ہیں۔
ستار کہتے ہیں کہ عام ہونے کے باوجود اس طرح کے واقعات شاذ و نادر ہی رپورٹ کیے جاتے ہیں، خاندان تب تک اس طرح کے واقعات کی رپورٹ نہیں کرتے جب تک کہ جسمانی نقصان نہ پہنچا ہو یا بات پھیل نہ گئی ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات رپورٹ کرنے کا مرحلہ نہایت پیچیدہ اور طویل ہوتا ہے، کیوں کہ پولیس اور صحت کا نظام مضبوط نہیں ہے، یہ واقعات تب تک رپورٹ نہیں ہوتے جب تک کہ بچے کو شدید چوٹیں نہ پہنچی ہوں۔
ستار کہتے ہیں کہ اگر اتفاق سے کوئی مقدمہ درج ہو بھی جائے، تو ایک بڑی رکاوٹ میڈیکولیگل مرحلہ ہوتا ہے، قانون کے مطابق نشانہ بننے والے کو طبی معائنے سے گزرنا ہوتا ہے، جس میں اپنی الگ مشکلات ہیں۔
ستار یہ بھی بتاتے ہیں کہ مثال کے طور پر اگر استحصال کے 24 گھنٹے کے اندر اندر طبی معائنہ نہ کروایا جائے، تو زیادتی کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔"
ان کے مطابق اسی طرح ابتدائی 48 گھنٹے کپڑے مقدمہ ثابت کرنے کے لیے اہم ہوتے ہیں۔
ستار بتاتے ہیں کہ اس طرح کے زیادہ تر مقدمات واقعے کے 2 سے 3 دن بعد رپورٹ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے زیادتی کے الزامات کی تصدیق کرنے میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔
ستار ریپ کیسز میں رپورٹ بنانے کا اختیار رکھنے والے میڈیکل افسران کی عدم دستیابی کا بھی رونا روتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس وقت کوئٹہ میں ایسے (صرف) دو یا تین افسر ہیں۔ بلوچستان بھر میں ان کی بروقت دستیابی ناممکن نہیں ہے۔ چنانچہ بچوں کے استحصال کے زیادہ تر معاملات کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔"
- تحفظ کے پیش نظر لوگوں کے حقیقی نام نہیں لکھے گئے
- رپورٹر: محمد اکبر نوتزئی — ترجمہ: بلال کریم مغل — ایڈیٹر: وقار محمد خان
تبصرے (5) بند ہیں