روایتی سیاستدان اور سرداروں سے جدا، میر ہزار خان بجارانی
سیاست اور سرداری میر ہزار خان بجارانی کو وراثت میں ملی تھی، ان کے والد شیر محمد خان بومبے کاؤنسل کے ممبر تھے اور دادا ویسٹ پاکستان کاؤنسل کے رکن تھے۔ وہ پیپلز پارٹی کی ونگ ’سپاف‘ کے بانیوں میں سے تھے۔ انہیں بلوچ قبائلی روایات کا امین سمجھا جاتا تھا۔ بجارانی، کنرانی، نندوانی، جعفری سمیت 7 بلوچ ذاتوں کے سردار تھے بلکہ مقامی طور پر انہیں 7 کلہاڑیوں کا سردار کہا جاتا تھا۔ ان کا اثر صرف سندھ میں ہی نہیں بلکہ بلوچستان میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔
بجارانی نے ساری عمر یا تو سیاست کی یا پھر اپنی ذات، برادری اور خاندان کے تنازعات ختم کرانے، جرگے اور نجی سطح پر فیصلے کرنے میں گزاردی، لیکن جو دوسروں کے مسائل حل کرنے میں مہارت رکھتا تھا، وہ اپنا مسئلہ حل نہیں کرسکا اور تنازعات کا ایسے شکار ہوا کہ بند کمرے سے لاش ملی اور دوسرے دن پولیس نے اعلان کردیا کہ میر ہزار خان بجارانی نے بیوی کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کی ہے۔ بجارانی سندھ کے شاید پہلے سردار تھے جنہوں نے گھریلو تنازع کی وجہ سے خودکشی کی ہو۔
غیرت کے نام پر قتل، ونی، زن، زر و زمین کے تنازعات، خون کے بدلے خون، پھر اس پر جرگے، راضی نامے اور جرگے کے فیصلوں کی خلاف ورزی پر پھر سے نئے جھگڑے پورے ملک کا مسئلہ ہے، بس فرق یہ ہے کہ ہر جگہ اس کا طریقہ مختلف ہے۔ یہ سارے مسائل ہر اس جگہ ہیں جہاں زمینداری، چوہدراہٹ، سرداری اور قبائلی نظام ہے۔ بجارانی صاحب کا تعلق بھی ایسے ہی ایک علاقے سے تھا اور انہوں نے بھی تقریباً ساری عمر ایسے تنازعات کے حل کی کوششوں میں گزار دی، بس فرق یہ تھا کہ وہ باقی سرداروں کی نسبت زیادہ پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے تھے۔
مزید پڑھیے: میر ہزار خان بجارانی نے 44 سال سیاست کو دیئے
میں بجارانی صاحب کے علاقے کے ایک ایسے ہی بااثر سیاستدان سلیم جان مزاری کو بھی جانتا ہوں جس نے 2003ء میں قومی اسمبلی میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا آپ لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ کاروکاری کیا ہے۔ یہ روایت ہے۔ اُس وقت حکومتی پارٹی مسلم لیگ (ق) تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی نے نہ صرف بل کی مخالفت کی بلکہ قومی اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔ یاد رہے یہ بعد میں سلیم مزاری نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔
جرگے اور نجی فیصلے تو ہزار خان نے بھی ہزاروں کیے، لیکن جیکب آباد میں بچیوں کو ونی کرنے والا وہ جرگہ شاید آخری جرگہ تھا جس کا 2005ء میں اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس لیکر گھوٹکی، شکارپور، جیکب آباد کے بااثر ذمینداروں، سرداروں اور بھوتاروں کو عدالت میں بلاکر روسٹرم پر کھڑا کردیا تھا۔ اسی جرگے پر سب سرداروں پر مقدمہ درج کرانے کا حکم ہوا اور ہزار خان بجارانی سمیت سب سرداروں کو ضمانت لینا پڑگئی۔ بس پھر یوں سمجھ لیجیے کہ وہ جرگہ بجارانی صاحب کا آخری جگہ تھا اور اس فیصلے کے بعد کسی جرگے اور بڑے تنازعہ میں بجارانی سردار کا نام نہیں سنا گیا۔
ہزار خان بجارانی کا سیاسی کردار ذوالفقار بھٹو کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ 1970ء کو ہونے والے انتخابات میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا اور سندھ اسمبلی کے ممبر بنے۔ بجارانی کا انتخاب خود بھٹو نے کیا تھا پارٹی ٹکٹ ان کی مرضی اور منشا سے ہی ملا تھا۔ اس وقت ہزار خان کی عمر کوئی 24 برس تھی اور شاید اُس اسمبلی کے وہ کم عمر ترین ممبر ہوں۔ آج کی پیپلز پارٹی پر اگر نظر دوڑائی جائے تو گنے چنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے 1970ء کے انتخابات میں حصہ لیا ہو یا جن کو بھٹو صاحب کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہو۔ پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں کو ضیاءالحق نے بھگا دیا، کچھ خوفزدہ ہوکر خود پارٹی چھوڑ کر چلے گئے، کچھ ذاتی مفادات پورے ہونے پر رفو چکر ہولیے، اور جو باقی اس وقت پارٹی میں ہیں انہیں فریال تالپور اور آصف زرداری زدہ پارٹی خود ہی دیوار سے لگائے ہوئے ہے۔ لیکن ان پرانے لوگوں کا کمال یہ ہے کہ بد سے بدترین حال میں بھی وہ بھٹو کی پارٹی سے جڑے رہے ہیں۔
بجارانی ذوالفقار علی بھٹو کو دل سے اپنا لیڈر مانتے تھے۔ بھٹو نہیں رہے تو انہوں نے ان کی بیٹی سے بھی خوب سیاسی وفا نبھائی۔ وہ ہر تحریک میں سرگرم اور آگے ہوتے ہوئے بھی لو پروفائل سیاستدان رہے۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد مطلق العنان جنرل ضیاءالحق کے خلاف جمہوری جدوجہد میں اس نوجوان نے بھرپور حصہ لیا اور بار بار جیل کا دیدار کیا۔ یہ جیل کی سختی اور سزائیں ہی تو تھیں جن کی بدولت بھٹو کی بیٹی کا اس بجارانی سردار پر اعتماد بڑھا۔
بجارانی کچھ عرصہ کے لیے بھٹو صاحب کی بیٹی سے ناراض ہوئے تو بھی کسی اور سیاسی دروازے پر دستک دینے کے بجائے بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کی پارٹی کا انتخاب کیا اور پیپلز پارٹی شہید بھٹو کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کی نشست جیت کر دکھائی۔ بجارانی پورے ملک میں شہید بھٹو پارٹی کے واحد امیدوار تھے جو قومی اسمبلی کی نشست پر کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے کبھی بھی بڑے دبنگ قسم کے سیاستدان ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، وہ اتنے بڑے مقرر، آئینی ماہر یا کوئی مایہ ناز قانون ساز بھی نہیں تھے، لیکن وہ پارٹی کی سنیئر قیادت میں سے تھے۔ لیکن انہیں کبھی اس بات کی پرواہ نہیں تھی کہ کوئی انہیں سینئر سمجھتا ہے کہ نہیں۔
غلام مصطفی جتوئی کے بعد مخدوم خلیق پیپلز پارٹی سندھ ہے صدر بنے، مخدوم خلیق نے ناراض ہوکر پارٹی چھوڑی تو صوبائی صدارت کا سہرا میر ہزار کے سر پر آیا۔ میر کو محترمہ نے پہلے سندھ کا قائم مقام صدر بنایا اور بعد میں مسقتل صدر بنایا۔ مخدوم خلیق الزمان کی بینظیر صاحبہ سے ناراضگی کے حوالے سے بھی ایک قصہ مشہور ہے کہ ایک سفر کے دوران مخدوم خلیق کو چھینکنے کی وجہ سے بینظیر بھٹو نے غصہ کیا اور انہیں دوسری گاڑی میں بیٹھنے کو کہا اور اپنی گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر میر ہزار خان کو بٹھا دیا۔ اس رسوائی اور ذلت کے بعد مخدوم خلیق نے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔ لیکن ہمارے ایک پرانے جیالے دوست ذوالفقار قادری کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو مسلسل سفر میں تھی اور گرمی کی وجہ سے انہیں بھی زکام تھا، انہوں نے کوئی غصہ نہیں کیا بلکہ مخدوم خلیق کو بڑی شفقت سے دوسری گاڑی میں بیٹھنے کو کہا تھا۔
میں نے میر ہزار خان کو پارلیمنٹ میں بولتے سنا، چیمبر میں لوگوں کی شکایات سنتے، ان کے ازالے اور لوگوں کے مسائل حل کرنے کی ہدایات دیتے دیکھا۔ ہم نے کئی ممبران پارلیمنٹ کو پچھلے دروازے سے ایوانوں میں جاتے دیکھا ہے، کئی وزراء کو اپنے رویوں کی وجہ سے میلے میں کسی تنہا شخص کی مانند گھومتے دیکھا ہے۔ پچھلے دروازے سے آنے والے بہانہ بناتے تھے کہ مرکزی دروازے پر کھڑے لوگ تنگ کرتے ہیں، اس لیے یہاں سے آنے پر مجبور ہیں۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ لوگ کون تھے؟ وہ کوئی اور نہیں بلکہ حلقے کے عوام ہوتے ہیں جنہیں یہ نمائندے اپنے علاقوں میں نظر نہیں آتے تو انہیں ڈھونڈتے ہوئے وہ اسمبلی تک پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن میں نے ہزار خان کا چیمبر ہمیشہ لوگوں سے بھرا دیکھا۔ پیپلز پارٹی حکومت میں دو ہی وزراء کے چیمبر تھے جہاں سے سب کو عزت ملی، ایک خورشید شاہ دوسرا ہزار خان بجارانی۔
میں نے انہیں اسلام آباد میں بغیر پروٹوکول دیکھا ہے۔ وہ وفاقی وزیر ہوتے ہوئے بھی اپنے ساتھ افسران و ملازمین کی فوج ظفر موج رکھنے کے قائل نہیں تھے۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ملک خودکش بمباروں کے نشانے پر تھا، تمام وزراء کو سرکاری اور نجی گارڈ دیے گئے تھے۔
مجھے 6 مئی 2009ء کا دن آج بھی یاد ہے جب عابد شیر علی نے عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی کے مارکس کو قومی ایشو بنایا ہوا تھا اور چیف جسٹس کو کمیٹی میں بلانے کے لیے سمن جاری کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم کا اجلاس پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد میں ہو رہا تھا، اس اجلاس کی صدارت مسلم لیگ نواز کے ممبر قومی اسمبلی عابد شیر علی کر رہے تھے اور اس وقت وزارتِ تعلیم کا قلمدان میر ہزار خان بجارانی کے پاس تھا۔
عابد شیر علی خاموش طبع اور دھیمے لہجے والے اس وفاقی وزیر پر الزمات کی بوچھاڑ کر رہے تھے، عجیب قسم کے جملے کس رہے تھے، حکومت کو بُرا بھلا کہہ رہے تھے، ان کی وزارت کے ماتحت افسروں کو بے عزت کر رہے تھے، حتٰی کہ ایک خاتون افسر کو بھی نہیں بخشا گیا۔ کمیٹی کے چئیرمین اِس وزیر کو ایسا کام کرنے پر زور دے رہے تھے جو توہین عدالت جیسا تھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ وہ وزیر جذباتی منڈے کے اس غصے اور باآواز بلند ترش لہجے پر مُسکرا رہا تھا۔ اپنے بیٹے سے بھی چھوٹی عمر کے اُس چئیرمین کو سینئر پارلیمنیٹرین سمجھا بھی رہا تھا کہ ایسا کرنا غیر قانونی ہوگا، آپ جذباتی نہ ہوں۔
جوڈیشل ایکٹویزم کے اِس دور میں کوئی تصور کرسکتا ہے کہ اسٹینڈنگ کمیٹی کا کوئی چئیرمین چیف جسٹس آف پاکستان کو کمیٹی میں طلب کرنے کی محض بات بھی کرسکے؟ عابد شیر علی کہہ رہے تھے کہ پی سی او جج کی بیٹی کو غلط انداز میں مارکس دیے گیے ہیں اور میں نے جب چیف جسٹس کو بلانے کے لیے خط لکھا تو اسمبلی سیکریٹریٹ نے وہ خط آگے کیوں نہیں بھیجا؟ ایسا کرکے پارلیمنٹ کی توہین کی گئی ہے اور وفاقی وزیرِ تعلیم کہہ رہے تھے مارکنگ غلط ہوئی، جنہوں نے یہ کام کیا وہ افسران معطل ہوچکے لیکن ہائیکورٹ نے اس پر مزید کارروائی روک دی ہے تو ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ اگر چیف جسٹس کو طلب کرنے کے حوالے سے آپ کی بات مان لی جائے تو سب پر توہین عدالت لگ سکتی ہے۔
ان کی دوسری بار پیپلز پارٹی سے ناراضگی 2016ء میں ہوئی جس کے بعد انہوں نے صوبائی وزارتِ تعلیم کا قلمدان سنبھالنے سے انکار کردیا۔ اس ناراضگی کی دو وجوہات تھیں، پہلی وجہ فریال تالپور کے ساتھ معاملات اور دوسرا سبب وزاتِ تعلیم کے وائسرا نما سیکریٹری فضل اللہ پیچوہو کا رویہ۔
پیپلز پارٹی میں بے شمار اچھے لوگ گزرے ہیں مگر امین فہیم سے بڑی شرافت کی مثال نہیں دی جا سکتی، لیکن ان کی وفات کے بعد اگر کوئی شخص وہ خال بھر سکتا تھا تو وہ میر ہزار خان بجارانی ہی تھا لیکن اب وہ بھی نہیں رہا۔ لیکن آخر میں یہ سوال بہرحال ضرور اُٹھتا ہے اور شاید جس کا جواب کبھی بھی کسی کو نہ مل سکے کہ اس دھیمی طبیعت والے شخص کو آخر وہ کونسی پریشان لاحق تھی جس کا حل وہ نہ ڈھونڈ سکے اور دو زندگیوں کے خاتمے کے لیے مجبور ہوگئے۔
تبصرے (1) بند ہیں