• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

مشال قتل کیس: ایک اور مرکزی ملزم نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا

شائع March 19, 2018 اپ ڈیٹ March 20, 2018

عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں گزشتہ سال 13 اپریل کو شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشال خان قتل کیس میں نامزد ملزم صابر مایار نے 11 ماہ روپو شی کے بعد خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔

گرفتاری دینے والے ملزم پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر بھی تھے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی کے اندر توہین مزہب کے الزام میں قتل ہونے والے مشال خان کے قتل میں 61 ملزمان میں سے 59 ملزمان پہلے سے گرفتار ہوچکے ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے پولیس نے علاقہ چمتار سے کیس میں مرکزی ملزم عارف مردانوی کو بھی گرفتار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: مشال قتل کیس: مرکزی ملزم کا صحتِ جرم سے انکار

کیس میں 3 ملزمان عارف مردانوی صابر مایار اور اسد کاٹلنگ روپوش تھے۔

گزشتہ ہفتے عارف مردانوی کی گرفتاری کے بعد اشتہاری ملزم صابر مایار نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا۔

اب مشال خان قتل کیس میں صرف ایک ملزم تاحال روپوش ہے۔

ڈی پی او مردان نے صابر مایار کی گرفتاری کے بعد ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر میاں سعید احمد کے مطابق روپوش ملزم بھی بہت جلد قانون کے گرفت میں ہوگا۔

مشال خان قتل کیس — کب کیا ہوا؟

یاد رہے کہ 23 سالہ مشال خان کو 13 اپریل 2017 کو خیبر پختونخوا (کے پی) میں عبدالولی خان یونیورسٹی میں توہین رسالت کے الزام پر ہجوم نے تشدد کانشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ نے مشال خان کے والد کی جانب سے درخواست پر مقدمے کو مردان سے اے ٹی سی ایبٹ آباد منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

اے ٹی سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز ستمبر میں کیا تھا جبکہ یونیورسٹی کے طلبا اور اسٹاف کے اراکین سمیت گرفتار 57 مشتبہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور گرفتار ملزمان کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کی گئی تھی۔

مقدمے کی سماعت کے دوران عدالت کے سامنے 50 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے گئے اور وکلا کی جانب سے ویڈیو ریکارڈ بھی پیش کیا گیا جس میں گرفتار ملزمان کو مشال خان پر تشدد کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔

یاد رہے کہ مشال خان قتل کیس کے حوالے سے تحقیقات کرنے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا تھا۔

اے ٹی سی نے پانچ ماہ اور 10 دن کی سماعت کے بعد مقدمے کی کارروائی مکمل کی اور فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

خیال رہے کہ 7 فروری کو ایبٹ آباد کی اے ٹی سی نے عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کے قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ایک مجرم کو سزائے موت، 5 مجرموں کو 25 سال قید اور 25 مجرموں کو 3 سال قید جبکہ 26 ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا تھا۔

مشال خان کے اہلخانہ نے اے ٹی سی کے فیصلے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور 13 فروری کو مشال خان کے بھائی ایمل خان نے اپنی وکلا ٹیم سے مشاورت کے بعد کہا تھا کہ وہ ایبٹ آباد کی اے ٹی سی کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔

مشال خان کے بھائی ایمل خان نے 14 فروری کو مشال خان قتل کیس میں اے ٹی سی ہری پور کے فیصلے کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

یاد رہے کہ خیبرپختونخوا حکومت نے مشال خان قتل کیس میں ایبٹ آباد کی اے ٹی سی سے 26 افراد کی بریت کے فیصلے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔

مشال خان کے والد نے بھی 24 فروری کو اپنے بیٹے کے قتل کیس میں اے ٹی سی کے فیصلے کے خلاف 6 اپیلیں پشاور ہائی کورٹ میں دائر کردیں تھیں.

دوسری جانب سزا پانے والے مجرمان نے پشاور ہائی کورٹ کے ایبٹ آباد بینچ میں مشال قتل کیس سے متعلق ہری پور کی اے ٹی سی کے فیصلے کو چیلنج کردیا تھا۔

پشاور ہائی کورٹ کے بینچ نے 27 فروری کو 25 ملزمان کی سزاؤں کو معطل کرکے ملزمان کو رہا کرنے کے احکامات جاری کردیئے تھے۔

یاد رہے کہ مشال خان قتل کیس کے مرکزی ملزم کو 8 مارچ کو پولیس نے مردان کے علاقے چمتار سےگرفتار کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024