• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ کردیئے

شائع May 29, 2018

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے انتخابات 2018 میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کو انتخابی نشان الاٹ کردیئے۔

اس سے قبل مختلف سیاسی جماعتوں کے نمائندے الیکشن کمیشن پہنچے اور اپنے روایتی اور من پسند نشانات کے لیے درخواستیں دیں تھی۔

انتخابی نشانات میں تلوار کے معاملے پر تنازع دیکھنے میں آیا، جس کے 3 دعویدار تھے، جن میں سابق صدر آصف علی زردای کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، صفدر عباسی اور ناہید عباسی کی ورکرز پیپلز پارٹی شامل ہیں جبکہ ڈاکٹر تنویر زمانی کی پیپلز موومنٹ آف پاکستان بھی تلوار کے نشان کی امیدوار تھی۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی نشان کیلئے 15 مئی سے درخواستیں دی جائیں، ای سی پی

اس موقع پر تلوار کے نشان کے لیے دلائل دیتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی 1967 میں وجود میں آئی اور 5 جولائی 1970 کا الیکشن تلوار کے نشان سے لڑا۔

بعدازاں 1977 کے مارشل لاء میں تلوار کو انتخابی نشانات کی فہرست سے نکال دیا گیا جس کے باعث 1985 سے تلوار کا نشان الیکشن کمیشن کی فہرست میں موجود نہیں تھا، نیئر بخاری کا کہنا تھاکہ ذوالفقار علی بھٹو کی تلوار کے نشان کی نسبت سے تلوار کا نشان پیپلز پارٹی کا حق ہے۔

اس معاملے پر ورکرز پیپلز پارٹی کے صفدر عباسی کا کہنا تھا کہ تلوار کے نشان کے ایشو کو تحمل سے سننے کی ضرورت ہے پاکستان پیپلز پارٹی نے 1988 سے اب تک 4 الیکشن تیر کے نشان پر لڑے ہیں، اصل تنازع پاکستان پیپلز پارٹی کے اپنے اندر ہے۔

مزید پڑھیں: انتخابی نشان کے حصول کیلئے درخواستیں جمع کرانے کا عمل شروع

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلاول اور زرداری ایک ہی جگہ اجلاس کرتے ہیں یہ 2 علیحدہ پارٹییز نہیں ہیں، یہ صرف تلوار کے نشان کو بلاک کرنا چاہتے ہیں جبکہ انتخاب پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے نام سے تیر کے نشان سے لڑتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ نیئر بخاری بیان حلفی لکھ کر دیں کہ تلوار پر الیکشن لڑیں گے، جس پر نیئر بخاری صفدر عباسی پر برہم ہوگئے، ان کا کہنا تھا کہ آپ کون ہوتے ہیں بیان حلفی مانگنے والے؟

دوسری جانب رہنما پیپلز موومنٹ پاکستان نے الیکشن کمیشن سے درخواست کی کہ دونوں جماعتوں میں تلوار کے نشان پر تنازع ہے، ہماری استدعا ہے کہ آپ یہ نشان پیپلز موومنٹ پاکستان کو جاری کر دیں۔

یہ بھی پڑھیں: 23 نئے انتخابی نشان منظور

اس حوالے سے صفدر عباسی کا مزید کہنا تھا کہ ہم تنازع کو حل کرنا چاہتے ہیں، اسی سلسلے میں ناہید عباسی نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہوئی ہے اب یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں ہوگا۔

تاہم فریقین کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کو تلوار کا انتخابی نشان الاٹ کردیا گیا۔

اس کے علاوہ عوامی لیگ اور پاکستان تحریک انسانیت نے انتخابی نشان ہاکی کے درخواست دی، جس میں سے عوامی لیگ کو ہاکی کا نشان الاٹ کر دیا گیا جبکہ پاکستان تحریک انسانیت کو کنگھی کا نشان دیا گیا۔

دیگر جماعتوں میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو ستارہ، متحدہ قبائل پارٹی کو پگڑی، عوام لیگ کو انسانی ہاتھ اور نیشنل پارٹی کو آری کا نشان الاٹ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: دلچسپ انتخابی نشان

جبکہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان پی آئی بی کالونی کے رہنما فاروق ستار اور ایم کیو ایم پاکستان بہادر آباد کے رہنما عامر خان الیکشن کمیشن میں پیش ہوئے اور اپنے روایتی نشان پتنگ کے لیے درخواست دی، اس موقع پر عامر خان کا کہنا تھا کہ ہمارے بیچ تنازع کا پارٹی کے انتخابی نشان سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا پتنگ کا نشان ایم کیو ایم پاکستان کو ملنا چاہیے۔

جس پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ ہماری نظر میں ایم کیو ایم پاکستان متنازع جماعت نہیں ہے بعد ازاں الیکشن کمیشن نے پتنگ کا نشان متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو الاٹ کر دیا۔

اس موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پارٹی کے سینئر کنونئر عامر خان کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان شخصیت کو نہیں پارٹی کو الاٹ ہوتے ہیں ایم کیو ایم کو پتنگ کا نشان الاٹ ہوگیا ہے لہٰذا ہم آئندہ انتخابات میں پتنگ کے نشان سے ہی حصہ لیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک لبیک پاکستان کو انتخابی نشان الاٹ

دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ق) اپنے روایتی انتخابی نشان سائیکل سے دستبردار ہو گئی اور سائیکل کے بجائے ٹریکٹر کا نشان مانگ لیا۔

جبکہ ایک اور جماعت پاکستان کسان اتحاد بھی ٹریکٹر کے نشان کی امیدوار کے طور پر سامنے آئی، جس پرالیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ق) کو ٹریکٹر اور پاکستان کسان اتحاد کو ہل کا نشان الاٹ کردیا۔

اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے بتایا کہ 77 سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات کی درخواست پر تنازع نہیں ہے چناچہ جن جماعتوں کے انتخابی نشان پر تنازع نہیں وہ جماعتیں ان نشانات کو حاصل کرنے کی اہل ہیں۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان شیر، پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا، جماعت اسلامی کا انتخابی نشان ترازو، پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کا انتخابی نشان تیر، عوامی نیشنل پارٹی کا نشان لالٹین اور عوامی مسلم لیگ کا انتخابی نشان قلم دوات برقرار رہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024