• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

وہ وجوہات جو جنک فوڈ چھوڑنے پر مجبور کر دیں

شائع August 12, 2018

30 سالہ عظمے خان ایک خاتونِ خانہ اور 2 بچوں کی والدہ ہیں۔ جب میں ان سے پہلی دفعہ کالج میں ملی تھی تو وہ چھوٹے قد کی بھاری بھرکم لڑکی تھیں جسے جنک فوڈ سے محبت تھی، ایکسٹرا لارج سائز کے کپڑے پہنتی تھی، مہاسوں سے نبرد آزما تھی اور اس کے بال جھڑنے شروع ہو چکے تھے۔

کئی سالوں تک ہمارا رابطہ منقطع رہا جس کے بعد گزشتہ ماہ میں نے اور عظمے نے ملاقات کا منصوبہ بنایا۔

جس وقت عظمے اندر داخل ہوئی تو میں اسے پہچان ہی نہیں پائی۔ اس نے کافی وزن گھٹا لیا تھا، اس کی جِلد صاف اور بے داغ تھی، اور اس کے گھنے سیاہ بال کندھوں سے نیچے لٹک رہے تھے۔ مجھے خوشگوار حیرت کا جھٹکا لگا۔

میں نے وہی رٹا رٹایا سوال دہرایا، ’عظمے، تم تو زبردست لگ رہی ہو، راز کیا ہے؟‘

عظمے کھلکھلائی مگر اس کا جواب کافی بورنگ تھا۔ اس نے فاتحانہ انداز میں کہا، ’میں نے جنک فوڈ چھوڑ دیا ہے‘۔

میں نے اس کی توجیہہ ماننے سے انکار کرتے ہوئے جواب دیا، "یہ سچ نہیں ہو سکتا۔ جنک فوڈ چھوڑنے سے اتنی تبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟"

وہ کہنے لگی، ’ارے ایسا ہوسکتا ہے۔ غیر صحت بخش کھانا لامحالہ ہمارے جسموں پر بدترین اثرات ڈالتا ہے۔ ہمیں معلوم نہیں ہوتا مگر چھوٹے سے چپس یا ویفرز کے پیکٹ سے بھی ہمارے وزن میں کئی پاؤنڈ کا اضافہ ہوسکتا ہے، ہمارے خون میں شوگر کی مقدار بڑھ سکتی ہے، سر درد ہو سکتا ہے، اور چہرے پر دانے پیدا ہو سکتے ہیں‘۔

میں نے اس سے پوچھا کہ ’کیا تم نے کوئی ڈائیٹنگ کی یا پھر وزن گھٹانے والی کسی دوائی کا استعمال کیا جو کہ آج کل کافی مشہور ہیں؟‘۔ میں اصل میں اس کی خوبصورت تبدیلی کا راز جاننا چاہ رہی تھی۔

’نہیں، میں نے بس صحت مند اور متوازن غذا کھانی شروع کر دی۔ سوفٹ ڈرنکس کم کر دیں، ہر وقت میٹھا کھانا بند کر دیا، اور اپنی روزمرہ کی غذا میں سبزیاں اور پھل شامل کر لیے۔ اس کے علاوہ میں نے دن میں 5 دفعہ تھوڑی تھوڑی غذا کھانی شروع کی تاکہ دوپہر اور رات کے کھانے میں زیادہ نہ کھا سکوں۔ بظاہر لذیذ نظر آنے والے ان تمام کھانوں سے دھوکہ نہ کھائیں جو آپ کی صحت کے لیے تباہ کن ہیں۔ صحت مند غذاؤں کو اپنی زندگی کا حصہ بنانے کا عزم کریں‘۔

عظمے صحیح کہتی ہیں۔ وزن کم کرنے کے لیے پرعزم زیادہ تر لوگ غیر صحت مند، مصالحے دار اور چکنائی بھرے کھانے چھوڑنے کا عزم کرتے ہیں مگر جیسے ہی ان کی ڈائیٹنگ کا دورانیہ پورا ہوتا ہے، تو عادت سے مجبور ہو کر اپنی بری غذائی عادات کی جانب واپس لوٹ جاتے ہیں۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ وہ اپنی کھانے کی خواہشات کے آگے فوراً ہار مان لیتے ہیں۔ زیادہ کھا لینا ایک آدھ دفعہ کے لیے قابلِ قبول ہے، وزن کم کرنے کے لیے بے تاب سے بے تاب لوگ بھی دوپہر کی بھوک مٹانے کے لیے چپس یا بسکٹس یا پھر چیز سے لدے ہوئے پیزا کھانے سے خود کو نہیں روک پاتے۔

مگر بظاہر معصوم نظر آنے والی ان غذائی عادات کو روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنا لینا پریشان کن ہے۔

عظمے ان لوگوں میں سے ہیں جن کی ماضی کی روز مرہ کی غذا میں صرف غیر صحت مند کھانے ہوا کرتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کالج کے دنوں میں میں فاسٹ فوڈ پر منحصر تھی جو کہ میرے طبی مسائل کی جڑ تھا۔ میں پانی پینے کے بجائے کولڈ ڈرنک پی لیتی، اور پھلوں یا خشک میوہ جات کے بجائے روزانہ چپس کھا رہی ہوتی‘۔

زیادہ تر لوگ، خاص طور پر ٹین ایجرز یا دوسری دہائی میں موجود نوجوانوں کی وہی غذائی عادات ہوتی ہیں جو کہ کئی سالوں پہلے عظمے کی ہوا کرتی تھیں۔ نتیجتاً انہیں معدے کا السر، گردوں اور جگر کے مسائل، بلند بلڈ شوگر اور بلڈ پریشر جیسی مختلف بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں۔ جو لوگ موٹاپے کا شکار ہوتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور انہیں کچھ ڈپریشن کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔

انہیں صحت بخش کھانے کا خیال صرف تب آتا ہے جب انہیں سنجیدہ طبی مسائل لاحق ہوجاتے ہیں یا پھر جب ان کے جسم کی وجہ سے ان کی سماجی یا رومانوی زندگی متاثر ہونے لگتی ہے۔ عام طور پر خواتین صحت بخش کھانے اس لیے کھاتی ہیں کیوں کہ انہیں وزن گھٹانے اور شادی کرنے کی خواہش ہوتی ہے جبکہ مرد بھی وزن گھٹانا چاہتے ہیں تاکہ نوجوان اور چست نظر آئیں، چنانچہ سبزیوں اور پھلوں کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔

مگر یہ وجوہات زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہتیں۔ صحتمند کھانا ہمارا لائف اسٹائل ہونا چاہیے، نہ کہ مجبوری۔ یہ آخری اقدام نہیں ہونا چاہیے بلکہ طبی مسائل سے پاک ایک بہتر اور سرگرم زندگی کے لیے سوچا سمجھا اقدام ہونا چاہیے۔ زندگی بدل دینے والی یہ تبدیلی شاید شروع میں مشکل لگے، مگر ایک بار جب آپ صحت بخش کھانے کے فوائد حاصل کرنے شروع کریں گے تو اپنی پرانی عادات کی جانب نہیں لوٹنا چاہیں گے۔

جنک فوڈ چھوڑنے کا بہترین طریقہ ہر ہفتے بتدریج ایک غیر صحت بخش کھانے کو اپنی غذا سے خارج کرنا ہے۔ اگر آپ ایک ساتھ 2 یا زائد چیزیں چھوڑنے کی کوشش کریں گے تو کافی امکان ہے کہ آپ اپنے عہد پر قائم نہیں رہ پائیں گے۔

ماہرِ غذائیت ڈاکٹر ثناء اظفر بھی یہی مشورہ دیتی ہیں۔ درحقیقت ڈاکٹر ثناء کے نزدیک شروع میں صرف ایک غیر صحت بخش اسنیک کو ایک صحت بخش غذائی آپشن سے تبدیل کرنا چاہیے، مثال کے طور پر بسکٹس کے ایک منی پیک کو ایک سیب سے بدل دیں۔ ڈاکٹر ثناء کے مطابق ’ایک بار جب آپ کو سیب کا ذائقہ پسند آ گیا تو آپ عادتاً چینی سے لدے ہوئے بسکٹس سے پرہیز کرنے لگیں گے‘۔

’پھر آپ بتدریج دن کے وسط کے اسنیکس اور مکمل کھانوں کو مزید صحت بخش آپشنز سے تبدیل کر سکتے ہیں۔ شروع میں تو آپ کو بے وقتی بھوک، بے چینی اور موڈ کی تبدیلی کا سامنا ہوگا مگر 'خوراک تبدیل کرنے کی حکمتِ عملی' کو بیچ میں نہ چھوڑیے گا۔ اپنی جگہ قائم اور پرعزم رہیں؛ ان فوائد کے بارے میں سوچیں جو آپ کو طویل مدت میں حاصل ہوں گے۔ عمر کے اگلے حصوں میں آپ کے اندرونی و بیرونی اعضاء آپ کا شکریہ ادا کریں گے‘۔

اس کے علاوہ دیگر چھوٹی مگر اہم تبدیلیاں مثلاً زیادہ پانی پینا، تناؤ کم کرنا، روز رات کو کم از کم 8 گھنٹے سونا اور ہر 2 سے 3 گھنٹوں میں تھوڑے تھوڑے غذائیت سے بھرپور اسنیکس لینا بھی غذائی تبدیلی کی حکمتِ عملی میں بھرپور مدد دیں گے۔ جسمانی ورزش بھی زبردست اور مثبت انداز میں آپ کی صحت اور آپ کے ذہن پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ جب تک کہ آپ ورزش نہیں کریں گے، کسی بھی قسم کی صحت بخش غذائیں آپ کو فائدہ نہیں پہنچائیں گی۔

مگر ڈاکٹر ثناء کہتی ہیں کہ یہ سب ’صرف غذائی اور ورزش کی تبدیلیاں ہیں۔ آپ کو سب سے پہلے اپنے بارے میں سوچ کا زاویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ آپ کو خود سے محبت کرنی شروع کرنی ہوگی۔ آپ خوبصورت ہیں، ہینڈسم ہیں، پرکشش ہیں، اور زندگی کی تمام اچھی چیزوں کے قابل ہیں۔ جب آپ خود سے محبت کریں گے تو آپ خود بخود اپنی صحت اور اپنے جسم کا خیال رکھنے لگیں گے۔ آپ غیر صحت بخش کھانا چھوڑنا اور عظمے کی طرح صحت بخش کھانوں کی طرف جانا چاہیں گے‘۔

ڈاکٹر ثناء کے تبصروں میں وزن ہے۔ ظاہر ہے کہ جنک فوڈ چھوڑنے کا عزم تبھی آئے گا جب ہمیں خود سے اتنی محبت ہو کہ ہم اپنی وضع قطع اور اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھیں۔

تو آئیں سب سے پہلے خود سے محبت سے شروعات کرتے ہیں، اور جلد یا بدیر ہم صحت بخش کھانا بھی شروع کر ہی دیں گے۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 5 اگست 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

مریم نعیم خان
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024