فاران طاہر: ہولی وڈ کی معروف فلموں میں جلوہ گر ہونے والے امریکی نژاد پاکستانی
عہدِ حاضر میں فاران طاہر کا شمار امریکی تھیٹر، ٹیلی وژن اور ہولی وڈ کے نمایاں ایشیائی اداکاروں میں ہوتا ہے۔ وہ امریکی مسلمانوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پیشہ ورانہ اور ذاتی رویے سے امریکیوں کی سوچ پاکستان اور مسلمانوں کے بارے میں مثبت طور سے تبدیل کی ہے۔
وہ اب تک ہولی وڈ میں تقریباً 25 فلموں میں اپنی اداکارانہ صلاحیتوں کا جادو جگا چکے ہیں، اور ان کی معروف فلموں میں ’اسکیپ پلان ون‘ اور ’آئرن مین ون‘ شامل ہیں، جن میں انہوں نے آرنلڈ شوازنیگر، سلورس اسٹائلون اور رابرٹ ڈونی جونیئر جیسے معروف فنکاروں کے ساتھ کام کیا ہے۔ ان کی دیگر فلموں میں ’فلائیٹ ورلڈ وار ٹو‘، ’الیسیم‘، ’اسٹار ٹریک‘، ’چارلی ولسنز وار‘ اور ’دی جنگل بک‘ وغیرہ شامل ہیں۔
جنگل بک فلم سے ان کے فلمی کیرئیر کی ابتدا ہوئی تھی۔ ہولی وڈ سے عالمی شہرت حاصل کرنے والے فاران طاہر امریکا میں پیدا ہوئے، ابتدائی پرورش اور تعلیم و تربیت پاکستان میں ہوئی۔ 1980ء کو 17 برس کی عمر میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوبارہ امریکا لوٹ گئے۔
ہارورڈ یونیورسٹی سے تھیٹر کے شعبے میں سند یافتہ ہونے کے بعد اداکاری کے شعبے میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا اور وقت نے ان کے اس فیصلے پر کامیابی کی مہر ثبت کی۔ انہوں نے رائل شیکسپیئر تھیٹر کمپنی کے علاوہ متعدد تھیٹر گروہوں کے ساتھ مختلف کھیلوں میں کام کیا، جس میں سب سے مقبول کھیل ’اوتھیلو‘ تھا، جس کو امریکا میں بہت پسند کیا گیا۔ وہ اب تک 70 کے قریب تھیٹر کے کھیلوں میں اپنے ہنر کو پیش کرچکے ہیں۔ 1989ء میں فاران طاہر نے امریکی ٹیلی وژن سے فنی کیرئیر کی ابتدا کی اور ڈراما سیریز ’مڈ نائٹ کالر‘ میں کام کیا۔ اس کے بعد سے دورِ حاضر تک 180 ڈراما سیریز میں کام کرچکے ہیں۔ انہوں نے 70ء کی دہائی میں پاکستان ٹیلی وژن پر اپنی والدہ یاسمین طاہر کے ہمراہ ایک مختصر کردار بھی ادا کیا تھا، اسے ان کی اداکاری کی ابتدا کہا جاسکتا ہے۔
ان کا تعلق ایک علمی و ثقافتی خانوادے سے ہے۔ ان کے والد نعیم طاہر ایک اداکار اور مصنف ہیں۔ والدہ یاسمین طاہر ریڈیو پاکستان کی ممتاز صداکار رہیں، جبکہ ان کے نانا امتیاز علی تاج اردو دنیا کی معروف ادبی شخصیت اور مشہور زمانہ ڈرامے انار کلی کے خالق تھے۔ ان کے بھائی علی طاہر بھی اداکار ہیں۔ گزشتہ دنوں فاران طاہر اپنے پہلے اردو تھیٹر کھیل ’بھائی بھائی‘ کے سلسلے میں کراچی میں موجود تھے جو کہ انگریز مصنف ’سیم شیفرڈ‘ کے کھیل ’ٹروویسٹ‘ سے ماخوذ شدہ ہے۔ انہوں نے اس کھیل میں اداکاری کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی ہدایات بھی دیں۔
اس کے علاوہ 2015ء میں سابق امریکی صدر بارک اوباما نے ان کی اداکارانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں سالانہ افطار پارٹی پر بھی مدعو کیا تھا۔
ہم نے ان سے ملاقات میں تفصیلی گفتگو کی۔ ہماری کراچی کے دورے کے موقع پر یہ واحد ملاقات نہیں تھی بلکہ کراچی پہنچنے پر ان کو کراچی پریس کلب میں بھی مدعو کیا گیا تھا، جہاں انہوں نے راقم کے ساتھ دوبارہ مکالمہ کیا۔
ان دونوں ملاقاتوں میں ہولی وڈ، امریکی ٹیلی وژن اور تھیٹر، پاکستانی سنیما اور تھیٹر سمیت کئی دیگر اہم ثقافتی موضوع گفتگو کا حصہ بنے۔ یہ مکالمہ آپ کے لیے پیش خدمت ہے۔
سوال: اچانک یہ خیال کیسے آیا، امریکا میں شوبز کی مصروفیات سے وقت نکال کر پاکستان آئیں اور اپنے ملک میں اداکاری کے کیرئیر کو دوبارہ شروع کریں جبکہ اس کی ابتدا بھی تھیٹر کے کھیل سے ہو، پھر اس سلسلے کی شروعات کے لیے کراچی شہر کا انتخاب بھی کیا جائے، یہ سب کیسے وارد ہوا؟
جواب: پاکستان میں فلم اور ٹیلی وژن کے شعبے میں تو نیا کام ہو رہا ہے، شوبز میں جدت دیکھنے کو مل رہی ہے، لیکن تھیٹر کا شعبہ ابھی اس سطح تک نہیں پہنچا، جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ اس میں کوئی بہت جدید قدروں کے مطابق کام ہو رہا ہے۔
اس شعبے میں کام کرنے کی سخت ضرورت ہے ورنہ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا والی بات ہے۔ ہمیں اپنے اس شعبے کو فعال کرنے کی اشد ضرورت ہے اور کراچی سے تھیٹر کے کھیل کی پیشکش اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہے، یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔ یہ کھیل کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، لیکن اس شعبے میں اپنے حصے کا عملی کام کرنے کی غرض سے میں یہاں آپہنچا ہوں۔
سوال: کراچی میں قائم نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس (ناپا) جس کے چیئرمین ضیا محی الدین ہیں، انہوں نے بھی مغربی تھیٹر اور ہولی وڈ کی چند فلموں میں مختصر کردار نبھائے، تو اس اکادمی کے ہونے کے باوجود بھی آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں تھیٹر کے شعبے میں تسلی بخش کام نہیں ہو رہا؟
جواب: وہ تو صرف ایک ادارہ ہے، ایک کے ہونے سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ تھیٹر کو صنعت کی شکل دینا پڑے گی جس کے لیے بہت سارے لوگوں کو مل کر کام کرنا پڑے گا۔ صرف ایک فلم بنانے سے فلمی صنعت کے بنانے کا دعویٰ تو نہیں کیا جاسکتا اس لیے اگر فلم اور ٹیلی وژن میں نیا کام ہو رہا ہے تو تھیٹر کے شعبے میں بھی ایسی کوششیں کرنا پڑیں گی تاکہ ناظرین کو اندازہ ہوسکے کہ اس شعبے میں بھی نیا کام ہو رہا ہے۔
سوال: آپ نے کراچی میں جو کھیل پیش کیا، اس کا نام ’بھائی بھائی‘ ہے، جو انگریز مصنف ’سیم شیفرڈ‘ کے کھیل ’ٹروویسٹ‘ سے ماخوذ شدہ ہے۔ آخری اس کھیل سے ہی پاکستان میں اپنے تھیٹر کیرئیر کی ابتدا کرنے کا کیوں سوچا؟
جواب: پیشہ ورانہ طورپر تواس کی وجہ یہ ہے کہ اس کھیل کی کہانی اور مزاج پاکستان میں پیش کیے جانے والے تھیٹر کے کھیلوں سے ذرا مختلف تھا۔ میں نے شعوری طور پر اس کہانی کا انتخاب کیا، لیکن یہ اتنابھی الگ نوعیت کا نہیں تھا کہ دیکھنے والا بیزار ہوجائے۔
میں نے اس کھیل کو اپنے بھائی علی طاہر کے ساتھ مل کر لکھا اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کے مدمقابل اداکاری بھی کی ہے۔ اس کھیل میں دیگر 2 فنکار عامر قریشی اور حنا دلپذیر بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنے کام سے خوب انصاف کیا۔
جہاں تک ذاتی وجہ کی بات کی جائے تو وہ یہ ہے کہ بہت عرصے سے میں اور میرا بھائی علی اس نکتے پر بات کر رہے تھے کہ ہمیں ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔ دو چار مرتبہ ایسے مواقع بھی ملے جس میں ساتھ کام کیا لیکن اس میں بھی ایک دوسرے کے مدمقابل اداکاری نہ کرسکے۔ اگر میں اداکاری کر رہا ہوتا تو وہ ہدایت کاری کر رہا ہوتا تھا لیکن ایک ساتھ مل کر اداکاری کرنے کی خواہش پوری نہیں ہو رہی تھی۔ پھر اب جاکے اس کھیل کے ذریعے وہ خواہش پوری ہوسکی۔
اس کھیل کو علی طاہر نے پروڈیوس کیا اور میں نے اس کی ہدایت کاری کے فرائض انجام دیے جبکہ دونوں نے ساتھ مل کر لکھا اور اس میں کام کیا لہٰذا یہ بھرپور بھائی چارے کی عکاسی کرتا ہوا کھیل ہے جس کو ہم نے کراچی کے ناظرین کے لیے پیش کیا۔ اس سے زیادہ بھائی چارے کا کیا ثبوت دیا جاسکتا ہے (مسکراتے ہوئے)۔
سوال: آپ تقریباً گزشتہ 40 برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں، انگریزی تھیٹر، ٹیلی وژن اور سنیما میں کام کرنے کے باوجود اتنی اچھی اردو بول رہے ہیں، یہ دیکھ کر ذرا حیرت ہوئی کیونکہ پاکستان میں تو سب سے زیادہ پیسے اس بات پر خرچ ہو رہے ہیں کہ ہم انگریزی بولنے والے بن سکیں؟
جواب: اردو زبان ہم سب کی گھٹی میں ہے اس کو نکالا نہیں جاسکتا۔ چاہے آپ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ کون لوگ ہیں جو ایسا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں کیونکہ یہ تو ہماری قومی زبان ہے اس سے کیسے کنارہ کشی ممکن ہے؟ یہ صرف زبان ہی نہیں تہذیب سے لگاؤ کی بات بھی ہے۔ اب میں نے ایک دن کراچی آرٹس کونسل میں اپنا کھیل ختم کرنے کے بعد ایک ہوٹل پر جا کر نہاری کھائی۔ زبان، غذا، رسم و رواج یہ سب ہماری تہذیب ہے، اس کو بھول جانا ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے والدین کو بھول جائے۔ میں ان خیالات کو اپنے اندر زندہ نہیں رکھوں گا تو میرے اندر کا انسان مردہ ہوجائے گا۔ امریکا میں گزاری ہوئی میری زندگی بھی اہم ہے، وہاں اور یہاں میں بہت فرق ہے لیکن ان دونوں پہلوؤں نے مل کر میری شخصیت کو بنایا ہے، دونوں کے مثبت نکتے میری سوچ کی اساس ہیں اور ان کو یکساں اہمیت دیتا ہوں۔
سوال: میں نے بھی یہ کھیل دیکھا ہے اور دیگر صحافی دوستوں نے بھی، ان کا خیال یہ ہے کہ آپ اور دیگر اداکاروں نے کھیل میں اچھی اداکاری کی لیکن اس کھیل کی کہانی کمزور ہے۔ اس میں پاکستانی ناظرین کے لیے ذومعنی جملے اور صورتحال کا استعمال بھرپور طور سے نہیں کیا گیا، پھر کہانی بھی طویل محسوس ہوئی، اس کھیل میں کہی گئی کچھ باتیں بھی ہمارے معاشرے سے غیر متعلقہ تھیں، اس فیڈ بیک پر آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: جن تمام پہلوؤں کی طرف آپ کا اشارہ ہے وہ کسی حد تک درست ہے، کیونکہ میں نے جان بوجھ کر اس کھیل کو پاکستان میں ہونے والے روایتی کھیلوں کی طرح نہیں بنایا۔ ہمیں اپنے دیکھنے والوں کا ذائقہ بدلنا ہے۔ ہر روز اگر آپ لڈو کھائیں گے تو آپ کا ذائقہ صرف لڈو ہی بن کر رہ جائے گا، کسی اور ذائقے سے لطف اٹھانے کی صلاحیت سے محروم رہیں گے۔ یہ چیلنج صرف ہمارے لیے نہیں بلکہ ناظرین کے لیے بھی ہے کہ وہ ان روایتی حربوں سے باہر آئیں جن کے ذریعے ان کو کھیل دکھایا جاتا ہے۔ انور مقصود ہوں یا چاہے دیگر لوگ، جو پاکستان میں تھیٹر کر رہے ہیں، میں سب کا کام پسند کرتا ہوں اور ان سب کی کوششیں قابل تعریف ہیں لیکن میرا راستہ مختلف ہے، اس پر جانا مشکل لگتا ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔
میں ہمیشہ ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ نیچے سے جب آپ کسی پہاڑی کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ اس کی چوٹی ایک نوک ہے جس پر شاید ایک فرد ہی کھڑا ہوسکتا ہے لیکن جب اوپر پہنچیں تو پتہ چلتا ہے کہ کافی جگہ ہے، اس پر کئی لوگ ایک ساتھ کھڑے ہوسکتے ہیں۔
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تھیٹر کے شعبے میں یہ خواہش میں اکیلا نہیں رکھتا کہ تھیٹر کو فروغ حاصل ہو بلکہ یہ کام ہم سب مل کریں گے، اس چوٹی پر ایک ساتھ کھڑے ہوکر تھیٹر کو اس کی بلندی تک پہنچائیں گے۔ مغربی تھیٹر اسی لیے کامیاب ہے کہ وہاں ہر رنگ میں کام ہو رہا ہے، سائنس فکشن ہو چاہے کامیڈی یا پھر چاہے رومانوی اور ٹریجڈی موضوعات ہوں، سب پر کام ہو رہا ہے، ہمیں بھی سب کو اپنے اپنے رنگ میں لیکن مسلسل کام کرنا ہوگا تب ہی تھیٹر ایک صنعت کی شکل اختیار کرسکے گا۔
سوال: آپ کے خیالات اور خواہشیں قابلِ تعریف ہیں لیکن جس شہر میں بیٹھ کر آپ یہ بات کر رہے ہیں وہاں پاکستان کی واحد تھیٹر کی سرکاری اکیڈمی ’ناپا‘ گزشتہ 14 سال سے تمام تر سرکاری وسائل اور تجربہ کار ٹیم کے باوجود کمرشل اعتبار سے ناکام رہی ہے جبکہ دیگر تھیٹر کرنے والے بھی بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوسکے، ایسے میں جب پرانے لڈو بھی لطف نہیں دے رہے تو آپ ایک نیا ذائقہ دے سکیں گے، کیا یہ آسان ہدف ہے؟
جواب: بالکل آسان ہدف نہیں ہے لیکن اگر ہدف آسان ہو تو پھر اس کو مرکز بنانے کی خواہش بنانے کا فائدہ کیا ہوگا۔ مجھے اگر صرف روزی روٹی کمانی ہے تو میں کما ہی رہا ہوں اور اس سے بہت بہتر کما سکتا ہوں۔
دراصل میں یہ سب اس لیے نہیں کر رہا کہ مجھے اس سے منافع ہوگا بلکہ شاید اس میں گھاٹا ہی ہو، لیکن آپ جب بھی مختلف کام کرنے جاتے ہیں تو اس میں معاشی گھاٹے اور فائدے کا نہیں سوچتے، میں یہاں ایک بار کام کرکے غائب نہیں ہوجاؤں گا، اب میں پاکستان میں تھیٹر کے فروغ کے لیے کوشش کرتا رہوں گا۔ مجھے اگر ایک بار ناکامی ہوئی تو میں دوبارہ یہ کام کروں گا اور مسلسل کرتا رہوں گا کیونکہ میں نے ہمت ہارنا نہیں سیکھا اس لیے ایسے تجربات کرنے اور ان کی ناکامیوں سے مجھے خوف نہیں آتا ہے۔
سوال: آپ نے ہولی وڈ میں بھی یہی سوچ کر قدم رکھا تھا اور ایسی ہی مشکلات کا سامنا وہاں بھی کرنا پڑا تھا؟
جواب: اس سے بھی بدترین حالات تھے۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ میں اپنا گھر لے سکتا، گاڑی میں سوتا تھا اور کھانا تو اتنا بھی میسر نہیں تھا کہ پیٹ بھر سکتا۔ کئی بار فاقہ کرتا تو کئی بار صرف کھانے کی جگہ 2 ابلے ہوئے انڈے کھاتا تھا، میں قسم کھا کر یہ کہہ رہا ہوں، میں نے امریکا میں ایسے حالات سے اپنے کیرئیر کی ابتدا کی۔
کامیابیاں تو اپنی جگہ لیکن درحقیقت مجھے آگے بڑھانے میں میری ناکامیوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ میری ناکامیاں مجھے آگے لے جاتی ہیں، لہٰذا میرا یہ کھیل پسند کر لیا گیا تو بہت اچھی بات ہوگی لیکن اگر ایسا نہ بھی ہوا تو کوئی بات نہیں میں اس تجربے سے بھی سیکھوں گا۔
میرے ایک استاد کہا کرتے کرتے تھے کہ ’اگر تم پیچھے کی طرف گرتے ہو تو تم دفاع کر رہے ہو، لیکن اگر تم آگے کی طرف گر رہے ہو تو تم تجسس کو تلاش رہے ہو۔‘ اس لیے ناکامی کا خوف میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، البتہ میری خواہش ہے کہ ناظرین کھلے دل اور دماغ سے میرے کھیل کو دیکھنے آئیں اور چاہیں تو تنقید کریں، کیونکہ حقیقی تخلیق ہمیشہ اسی رویے سے جنم لیتی ہے۔
سوال: آپ سے مل کر مجھے خوشی سے زیادہ حیرت ہو رہی ہے کہ پاکستان میں اگر ہمارا کوئی فنکار بھارت یا ہولی وڈ میں ایک سین بھی فلما کر آجائے تو اسٹار ڈم کے مارے اس کے پیر زمین پر نہیں ٹکتے۔ آپ نہ صرف ہولی وڈ، بلکہ ٹیلی وژن اور تھیٹر میں گزشتہ 25 سال سے کام کررہے ہیں، مرکزی کرداروں کو نبھایا، ہاروڈ یونیورسٹی سے تھیٹر کی تعلیم بھی حاصل کی، آپ کا دماغ ابھی تک کیوں خراب نہیں ہوا؟
جواب: میرے نزدیک جس دن آپ یہ سوچ لیں کہ آپ کو اپنے فن پر عبور حاصل ہوگیا ہے اس دن آپ کی جدوجہد اور سیکھنے کے عمل کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ آج میں اگر یہ سمجھ لوں کہ میں اس فیلڈ کا ماسٹر ہوں اور اسٹار ہوں تو اس کے بعد پھر میں کہاں جاؤں گا اور کیا سیکھوں گا؟
میں نے جب تھیٹر پڑھایا بھی تو اپنے طالب علموں سے ہمیشہ یہی کہا کہ تم کبھی ماسٹر نہیں ہوسکتے، تمہیں اپنے شعبے میں ہمیشہ سیکھتے رہنا ہے تب ہی تم آگے بڑھ سکو گے۔ میں آج تک سیکھ رہا ہوں، کراچی میں بھی اس تھیٹر کرنے کے تجربے سے میں نے یہاں بہت سارے لوگوں سے بہت کچھ سیکھا۔ میرا کام کسی کو پسند آجاتا ہے اور مجھے کوئی عزت دے دیتا ہے تو یہ اللہ کا کرم ہے، اس میں میرا کوئی کمال نہیں ہے۔ لہٰذا جن لوگوں کے دماغ پر کچھ سوار ہوجائے کہ وہ بہت کچھ ہیں تو ان کا رویہ مجھے یہ بتاتا ہے کہ وہ شاید اس شعبے میں اس لیے نہیں آئے تھے کہ اپنے آپ کو بہتر کرسکیں بلکہ اس لیے آئے تھے کہ وہ شہرت حاصل کرسکیں، اور پھر وہ صرف شہرت ہی حاصل کر پاتے ہیں۔
میرے لیے اس فیلڈ میں پیسہ اور شہرت بائی پراڈکٹ ہے نہ کہ پراڈکٹ۔ میرے لیے پراڈکٹ صرف اور صرف میرا کام اور مثبت رویہ ہے۔ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی بہترین فلم یا کردار کون سا ہے تو میں یہی کہتا ہوں کہ سب کام میرے لیے اہم ہے اور میں نے ہمیشہ کام کرتے ہوئے محنت اور ایمانداری کو اپنایا ہے۔ میرے لیے سب سے بہترین وہ آخری کردار ہے جو میں نے اب تک کیا ہے، اب جب بھی آگے کام کروں گا اور وہ جو آخری کردار نبھاؤں گا وہی میرا پسندیدہ ہوگا۔ اس سے پہلے کوئی اور تھا اور آج اس موجودہ لمحے میں بھائی بھائی والا کردار ہے کیونکہ میں اپنے کرداروں کے ساتھ انصاف نہیں کروں گا تو یہ خود سے بے ایمانی ہوگی۔
سوال: آپ نے امریکا میں ہارورڈ یونیورسٹی سے تھیٹر کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد کیسے طے کیا کہ تھیٹر کی کس قسم کے ساتھ اس کیرئیر کو آگے بڑھانا ہے، روایتی تھیٹر کی طرف جانا ہے یا کلاسیکی تھیٹر میں شامل ہونا ہے، جیسا کہ آپ نے رائل اکیڈمی آف شیکسپیئر تھیٹر میں بھی کام کیا ہے، آپ واحد جنوب ایشیائی اداکار ہیں جنہوں نے اس تھیٹر کمپنی کے ساتھ مرکزی کردار ’اوتھیلو‘ میں بطور ’اوتھیلو‘ کام کیا اور بہت ساری کامیابیاں بھی سمیٹیں۔ یہ سب کیسے طے کیا؟
جواب: اچھا سوال ہے، مجھے واقعی اس موقع پر بیٹھ کر سوچنا پڑا تھا کہ میں اپنے کیرئیر کو کس سمت میں آگے بڑھاؤں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ جب میں نے وہاں کام شروع کیا تو تھیٹر کے شعبے میں کوئی ایسا اداکار موجود نہیں تھا جس کو دیکھ کر میں اندازہ کرسکتا کہ اگر کوئی پاکستان، انڈیا اور ایشیا سے آئے تو وہاں کس طرح اپنے کیرئیر کو آگے بڑھائے لہٰذا میں نے باقاعدہ سوچا کہ کیسے آگے بڑھوں کیونکہ وہاں کھیلوں میں شمولیت کے لیے دیکھا جاتا تھا کہ آپ کون سے خطے سے آئے ہیں اور آپ کی جلد کی رنگت کیا ہے اور اس مناسبت سے کردار آسانی سے مل جاتے تھے مگر میرے لیے وہ کردار بھی ناپید تھے۔
پھر میں نے کلاسیکی تھیٹر اور بالخصوص شیکسپیئر تھیٹر سے منسلک ہونے کا سوچا کیونکہ شیکسپیئر وہ مصنف ہے جس کے کھیل آج بھی بنا کسی رنگ و نسل کے کھیلے جاتے ہیں، اور جو اچھا پرفارم کرسکتا ہے وہ ان کھیلوں کا حصہ بنتا ہے۔ آپ کی صلاحیتیں دیکھی جاتی ہیں کہ کیا آپ شیکسپیئر کے کھیلوں کی زبان کو اپنا سکتے ہیں؟ میں نے سمجھا کہ میں یہ کام کرسکتا ہوں۔
یہ بہت کٹھن انتخاب تھا لیکن میں نے اس راستے پر جانے کی ٹھانی اور کامیاب رہا۔ شیکسپیئر، یونانی المیہ، چیخوف، ابسن کے کھیلوں میں اس وقت وہاں رنگت کے بجائے صلاحیت کو دیکھا جاتا تھا، میں نے اپنی صلاحیتیں پیش کیں اور کامیابی مل گئی۔ اگر میں ناکام بھی ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی کیونکہ میں اس ناکامی سے بھی سیکھتا جس طرح میں نے کامیابی سے بھی سیکھا ہے۔ میں نے اپنی بنیاد بنائی اور اس سے کیرئیر آگے بڑھا، اب میں تھیٹر کے شعبے میں ہر نوعیت کا کام کرتا ہوں۔
سوال: امریکی ٹیلی وژن پر کیے ہوئے ڈرامے، امریکی شوبز کیریئر میں آپ کا سب سے نمایاں کام ہے، اس شعبے میں آپ نے سب سے زیادہ کام کیا۔ 1989ء میں آپ نے اپنے پہلے ڈرامے ’مڈ نائٹ کالر‘ سے ٹیلی وژن کے کیرئیر کا آغاز کیا، اس بارے میں کچھ بتائیے؟
جواب: دیکھیں، مجھے کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ آپ کو فلم کے میڈیم میں کام کرکے زیادہ لطف آتا ہے یا پھر ٹیلی وژن میں؟ تو میں ان کو یہی جواب دیتا ہوں کہ ہم فنکار بنیادی طور پر کہانی کار ہوتے ہیں، ہمارا کام کہانی سنانا ہے چاہے میڈیم کوئی بھی ہو۔ البتہ کہانی کے لحاظ سے میڈیم کا انتخاب ہوتا ہے، جس طرح میری فلم ’اسٹار ٹریک‘ ہے اسے اگر اسٹیج پر پیش کریں تو شاید وہ مضحکہ خیز کہانی بن جائے گی، تو ہر میڈیم کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں جن کے مطابق کام کرنا پڑتا ہے۔
فلم کے میڈیم میں جو کہانی 6 سے 7 مہینوں میں فلمائی جائے گی، ٹیلی وژن کے لیے وہ 10 دنوں میں بن جائے گی۔ ٹیلی وژن نے ہمیں یہ سہولت فراہم کی ہے کہ ہم کم وقت میں زیادہ اور نت نئے موضوعات پر کام کرسکیں۔ میں نے ٹیلی وژن میں اس لیے بھی زیادہ کام کرلیا کیونکہ اس میں کم وقت میں زیادہ کام کرنے کا موقع ملا۔ اس میں بھی مشکلات ہوتی ہیں، جس طرح ایک جادوگر کے کردار کے لیے میرے میک اپ کو ہونے کے لیے نو گھنٹے درکار ہوتے تھے لیکن اس کے باوجود میں ساتھ ساتھ دیگر ڈراموں میں بھی کام کر رہا ہوتا تھا۔ ایک ہفتے وہ کردار کرتا تھا تو دوسرے ہفتے کوئی دوسرا کردار ادا کرتا تھا، یہ میرے لیے چیلنج تھا لیکن مجھے اس میں لطف ملتا تھا۔
ٹیلی وژن کے کئی پلیٹ فارمز تخلیق ہوگئے ہیں جن کی وجہ سے موضوعات میں مزید وسعت پیدا ہوگئی ہے، جس کی ایک مثال ’نیٹ فلیکس‘ ہے۔ اس طرح کئی دیگر پلیٹ فارمز بھی ہیں جن کے ذریعے ٹیلی وژن کے میڈیم کی شہرت اور ساکھ میں زیادہ اضافے کے سبب ناظرین کی تعداد بھی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔
سوال: پاکستان میں اکثر سینئر اداکاروں سے ہم نے یہ سنا کہ کردار ہم پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ کئی کئی دن ہمارے ساتھ رہتے ہیں تو پھر آپ کس طرح بیک وقت اتنے کردار نبھا لیتے ہیں؟ یہ معمہ حل کیجیے۔
جواب: میرے خیال میں فن صرف یہ نہیں ہے کہ آپ نے ایک کردار ادا کیا اور آپ کسی کردار میں داخل ہوگئے تو وہ کمال ہوگیا بلکہ جتنی تیزی سے آپ کسی کردار میں داخل ہوتے ہیں اتنی ہی تیزی سے اس کردار سے نکل آنے کی مہارت بھی ہونی چاہیے لیکن اس کے لیے آپ کو اپنے کام میں بہت گہرائی سے شامل ہونا پڑتا ہے تب آپ یہ کرسکتے ہیں۔ وہ کردار جس کو آپ نبھا رہے ہیں اس میں اتنی گرہیں لگادیں کہ جب ادا کرنے کے بعد واپس آنا چاہیں تو ایک ایک کرکے وہ گرہ کھولتے جائیں اور اس سے باہر آجائیں، یہ سب مشاہدہ، ریاضت اور بے پناہ توجہ کے بغیر ممکن نہیں۔
سوال: امریکا میں ٹیلی وژن ناظرین کی تعداد زیادہ ہے اور ان کی پسند ناپسند کا معیار بھی خاصا بلند ہے تو ان کے سامنے کس طرح آپ نے اپنے کیرئیر کو آگے بڑھایا؟
جواب: میری تربیت چونکہ تھیٹر کی رہی ہے وہ بھی کلاسیکی تھیٹر کی تو ایسے اداکار جن کی تربیت تھیٹر کی ہوتی ہے وہ دیگر شعبوں میں اداکاری کرنے والوں کی نسبت زیادہ بہتر کام کرلیتے ہیں کیونکہ ان کی بنیاد بہت مضبوط ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تھیٹر کا کینوس بہت بڑا ہے، بہت سارے کام ایک ساتھ کرنے کی مہارت اور کہانی پر گرفت رکھنے کی مشق ہوتی ہے۔ تاثرات اور کیفیات کو سنبھالنا بھی آجاتا ہے جسے شیکسپیئر ’میتھڈ ٹو مائی میڈنیس‘ کہتا ہے، جس کے مطابق کسی ایک چیز کو بنیاد بنانا ہوتا ہے جو میں نے ٹیلی وژن میں سائنس فکشن کو بنایا، وہ میری ٹیلی وژن کیرئیر کی بنیاد ہے۔ اس کے ذریعے میں نے اس میڈیم میں اپنا کیرئیر آگے بڑھایا اور یہ کوشش کی کہ کرداروں کی یکسانیت سے بچ سکوں، نت نئے اور منفرد کرداروں میں دکھائی دوں۔
سوال: ہولی وڈ اور امریکی شوبز کی صنعت میں انڈین لابی بہت اثر و رسوخ رکھتی ہے، اس ماحول میں بطور پاکستانی اداکار پھر نائن الیون کے ہولناک حادثے کے بعد آپ کا پاکستانی اور مسلمان ہونا، وہاں امریکا میں کام کرنا، ان سارے پہلوؤں کی موجودگی میں کیسے آگے بڑھے اور کام کیا؟
جواب: بالکل انڈین لابی وہاں بہت اثر رکھتی ہے اور اس منظرنامے میں کام بھی کیا، کچھ ایسے کردار بھی نبھائے جو منفی نوعیت کے تھے، لیکن میں اس صورتحال کو پورے پس منظر کے ساتھ دیکھتا ہوں۔ اس کی ایک مثال دیتا ہوں، جس طرح مجھے ہولی وڈ کی فلم ’آئرن مین ون‘ میں کام کرنے کی پیشکش ہوئی اور جب میں نے اس کا اسکرپٹ پڑھا تو انہوں نے غیر شعوری طور پر اس فلم میں کچھ ایسی چیزیں شامل کی تھیں جو ہمارے لحاظ سے غلط تھیں لیکن وہ چونکہ ہمارے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے اس لیے جو کچھ انہیں شاید انٹرنیٹ کے ذریعے ملا وہ انہوں نے اس فلم میں شامل کرنے کا سوچا۔
میرا فرض تھا کہ میں وہاں ان کو بتاتا، چاہے وہ بات ابھی نہ مانتے یا بعد میں ہی سوچتے مگر ان کی اصلاح ہوجاتی کیونکہ یہ سوچ ایسی ہی ہے جیسے کہ جھڑپ اور جنگ میں فرق ہوتا ہے، وقتی طور پر کوئی بات یا اختلاف جھڑپ کی صورت ہوسکتی ہے مگر دیرپا اس کا اثر ایک جنگ کے نقصانات یا فوائد کی طرح ہی ہوگا۔ اس لیے میں نے فرض سمجھا کہ اس اسکرپٹ میں جہاں کچھ عربی زبان میں آیات وغیرہ کو انہوں نے ولن کے پس منظر میں دکھانے کی تجویز دی تھی، ان کی اصلاح کروں کہ ایک سپر ہیرو فلم کو مذہبی رنگ میں رنگنے کی کیا ضرورت ہے اور ولن کا تعلق تو کسی بھی مذہب یا رنگ و نسل سے ہوسکتا ہے۔ ہاں اگر کوئی اصل واقعہ ہوتا تو پھر شاید اس کو اسی انداز میں شامل کیا جاسکتا تھا جس طرح وہ وقوع پذیر ہوا، لیکن یہاں تو ایسا نہیں تھا۔ اس لیے جب انہیں تجویز دی تو انہوں نے میری بات مان کر وہ سین فلم میں تبدیل کردیے۔ جب ایسا ماحول ہو تو اپنی بات یا موقف بہت محتاط انداز میں بتانا پڑتا ہے مگر آپ کا انداز اچھا ہو تو آپ کی بات سنی اور سمجھی جاتی ہے، اس لیے امریکیوں کو بھی گزرتے وقت کے ساتھ اندازہ ہوگیا کہ اصل حقیقت کیا ہے۔
نائن الیون کے تناظر میں بھی میں نے اسی طرح بات کی کہ یہ چند لوگوں پر مشتمل گروہ تھا جس نے یہ فعل کیا، لیکن سارے مسلمان اس سوچ کے حامل نہیں ہیں، اس بات کو انہوں نے اب کافی حد تک تسلیم کرلیا ہے کیونکہ یہ غلط فہمیاں اس لیے پیدا ہوئیں کیونکہ وہ ہمارے ثقافتی اور تہذیبی پہلو سے واقف نہیں تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے ہمیں یہ بے خبری کی دیواریں گرانی چاہئیں، ایک دوسرے کے بارے میں جاننا چاہیے، امریکی معاشرے میں بھی عام لوگ بہت صاف دل کے ہیں، میں امریکا میں مسلمانوں کے لیے اور پاکستان میں امریکیوں کے اچھے پہلوؤں پر ہمیشہ بات کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا کیونکہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی ہیں۔
سوال: گزشتہ 3 دہائیوں سے فلموں میں کام کر رہے ہیں، ان میں کیا تجربات رہے، مثال کے طور پر آپ کی ایک فلم ’اسکیپ پلان ون‘ تھی، جس میں آپ نے ہولی وڈ کے عالمی شہرت یافتہ اداکاروں ’آرنلڈ شوازنیگر‘ اور ’سلورس اسٹائلون‘ کے ساتھ کام کیا، وہ دونوں کتنے اچھے اداکار ہیں یہ تو ہمیں بھی پتہ ہے، لیکن بطور انسان اور ساتھی فنکار وہ کیسے ثابت ہوئے؟ ہم یہ جاننا چاہیں گے۔
جواب: انسان بھی اچھے ہیں اور کام کے جنونی ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وہ دونوں ایکشن فلموں کے آئی کونز ہیں۔ وہ جب فلم کے سیٹ پر آتے ہیں تو اپنی شہرت اسٹوڈیو سے باہر ہی چھوڑ کر آتے ہیں، ان کی توجہ صرف اور صرف اپنے کام پر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اسی فلم میں ہمارا ایک سین تھا جس میں ہمیں 7 سے 8 منزلہ سیڑھی کے ذریعے چڑھ کر فرار ہونا تھا۔ جب یہ فلم عکس بند کی جا رہی تھی اس وقت ان دونوں کی عمریں تقریباً 72 سال تھیں۔ چونکہ یہ ایک انتہائی مشکل سین تھا اس لیے ہمیں اندازہ تھا کہ اس سین کو کم از کم 30 مرتبہ تو دہرایا جائے گا، کیونکہ کیمرے تبدیل ہوتے ہیں، منظر کو مختلف پہلوؤں سے عکس بند کرنا ہوتا ہے، اور پھر اچھی صحت ہونے کے باوجود بھی وہ دونوں اداکار تب عمر رسیدہ ہی تھے۔
لیکن جب وہ سین شروع ہوا اور 3 سے 4 مرتبہ عکس بند کرلیا گیا تو ان کے گھٹنوں میں درد ہونے لگا۔ لیکن انہوں نے کام بند کرنے کے بجائے اپنے ڈاکٹرز کو بلوایا، انجکشن لگوائے اور اپنا کام مکمل کروایا، اُف تک نہ کی۔
35 بار وہ سین عکس بند کیا گیا، اور ان سے جب جب کہا گیا کہ سین ایک بار پھر کرنا ہوگا تو انہوں نے خوشدلی سے وہ کام کروایا۔ اسی طرح ہمارا ایک اور سین تھا، جس میں ہمیں ڈربوں میں بند کردیا جاتا ہے، وہاں یخ پانی تھا، 3 دن تک اس سین کی شوٹنگ جاری رہی، روزانہ 12 گھنٹے اور کبھی کبھار 15 گھنٹے ہم اس پانی میں بیٹھے رہتے لیکن مجال ہے کہ کسی نے کوئی معمولی نخرہ بھی کیا ہو، وہ اپنے کام سے اس قدر زیادہ محبت کرتے ہیں۔
میری ان سے ذاتی طور پر بھی ملاقاتیں رہیں، لیکن ظاہر سی بات ہے کہ زیادہ ملاقات کام کے دوران ہی ہوئی اور انہیں رویے کے اعتبار سے بہت بااخلاق پایا۔ اس لیے اگر دونوں شہرت کی بلندیوں پر پہنچے تو یونہی حادثاتی طور پر نہیں پہنچ گئے، بلکہ اس کے پیچھے ان کی انتھک محنت شامل ہے۔
اسی طرح جب میں اپنے کام کی طرف دیکھتا ہوں تو میں بھی سمجھتا ہوں کہ میرا کام ہے جو مجھے کام کرنا۔ اب کوئی اس کو ڈھونڈ لے تو بڑی اچھی بات ہے، لیکن مجھ سے جب تک پوچھا نہ جائے تو میں اپنے کام کے بارے میں زیادہ بات نہیں کرتا، لیکن چونکہ اب آپ نے تفصیل سے پوچھا تو میں بات کر رہا ہوں۔
سوال: ہولی وڈ اور امریکی شوبز کے دیگر حلقوں میں، آپ کی دوستی کن لوگوں سے زیادہ ہے؟
جواب: میں اس معاملے میں خاصا محتاط ہوں، پیشہ ورانہ طور پر تو سب سے ملتا جلتا ہوں، لیکن ذاتی حیثیت میں بہت کم لوگوں سے دوستی کرتا ہوں اور جن سے دوستی ہوتی ہے ان میں یہ دیکھتا ہوں کہ وہ کتنے مخلص ہیں۔ ویسے بھی ہمارا کام بہت عجیب کام ہے، اب جیسے ہم اس کھیل میں کافی سارے لوگ مل کر کام کر رہے ہیں، ایک خاندان کی طرح کام کرتے ہیں، لیکن کام ختم کرنے کے بعد کسی اور کام کی طرف چلے جاتے ہیں، وہاں کوئی اور خاندان بنتا ہے، پھر شاید ان لوگوں سے کبھی ایک عرصے بعد بات ہو۔ ہماری صنعت میں ہر روز کا تعلق ہونا لازمی نہیں ہوتا، جب کبھی دوبارہ ملیں گے تو اسی اپنائیت کے ساتھ کام کریں گے، دوستی مضبوط ہوتی ہے کیونکہ ہم ایک دوسرے کو جانتے بھی ہیں اور ایک دوسرے کے کام کی نوعیت کو سمجھتے بھی ہیں۔
مجھ میں گلیمر نہیں ہے، پارٹیز میں جانے سے گھبراہٹ ہوتی ہے، ایوارڈز وغیرہ کی تقریبات میں بہت مشکل سے شرکت کرتا ہوں۔ میرے چند بہترین دوستوں میں 2 تو میرے بھائی علی طاہر اور مہران طاہر ہیں، اتنے سال سے امریکا میں ہونے کے باوجود ان سے میں ہر روز بات کرتا ہوں۔ یہی میرے اصل دوست ہیں۔ کئی بار تو بچے آپ کو وہ بات سکھا دیتے ہیں جو کوئی دوسرا نہیں سکھا سکتا۔ جس طرح میں اکثر اپنے بیٹے جاوان کی کہی ہوئی ایک بات بتاتا ہوں، اس کا فلم ’آئرن مین ون‘ میں ایک سین تھا تو جب ہم شوٹنگ کے لیے جا رہے تھے تو میں نے اس سے پوچھا کہ ’ کیا تم نے اپنے دوستوں کو بتایا کہ تم سپر ہیرو فلم میں کام کر رہے ہو؟‘ اس وقت وہ 8 سال کا تھا۔ اس نے جواب دیا کہ ’نہیں‘۔ میں نے کہا ’تمہیں بتانا چاہیے تھا تاکہ تمہارے دوستوں کو بھی خوشی ہوتی۔‘ تو وہ بولا کہ ’پھر مجھے یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ میرا اصل دوست کون ہے۔‘ میں یہ بات سن کر حیران ہوگیا، اس عمر میں اسے یہ احساس ہے کہ اصل دوست کون ہوتا ہے۔ لوگوں سے تعلقات بہت ہوتے ہیں لیکن اصل جانچ پڑتال کے بعد جو چند ایک دوست رہ جاتے ہیں وہی اصل دوست ہوتے ہیں اور اتنے ہی ہونے چاہییں۔
سوال: پھر بھی چند ایک نام، جن سے آپ کی بہت زیادہ دوستی ہے، ان کے نام بتائیے، ہمارے قارئین جاننا چاہیں گے؟
جواب: اگر میں ہولی وڈ میں اپنے چند قریبی دوستوں کے نام یہاں بتاؤں تو ان میں آئرن مین کے ہیرو روبرٹ ڈاؤنی جونیئر سے میری زیادہ دوستی ہے۔ اسی طرح میرے دوستوں میں جیف برجز اور دیگر شامل ہیں، ٹیلی وژن کے شعبے سے کولن آرتھر اوڈانویو ہیں، انڈین اداکاروں میں میری اوم پوری سے بہت اچھی دوستی تھی، وہ عمدہ انسان تھے۔
سوال: امریکی افراد پاکستانی اور انڈین شناخت کا فرق جانتے ہیں، بالخصوص شوبز کی صنعت میں؟
جواب: فرق سمجھتے نہیں ہیں لیکن انہیں سمجھایا جائے تو سمجھ لیتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ ہم ایک جیسے دکھائی دیتے ہیں مگر ایک جیسے نہیں ہیں۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ پاکستانی نژاد یا پاکستانی اداکاروں کی تعداد بہت کم ہے، اس حوالے سے انڈینز بہت زیادہ ہیں اور وہ اپنے لوگوں کی معاونت بھی کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں کامیاب ہوسکیں۔
سوال: آپ کا تعلق چونکہ براہِ راست ہولی وڈ سے ہے اس لیے ہمیں آسکر ایوارڈز کی شفافیت کے حوالے سے بتائیے، کیا طریقہ کار ہے اور پاکستان میں شرمین عبید چنائے کو دستاویزی فلمیں بنانے پر 2 ایوارڈز ملے، جس پر تنقید زیادہ ہوئی، آپ کا کیا مؤقف ہے؟
جواب: جب شرمین پر پاکستان میں تنقید ہوئی تو میں سخت ناامید ہوا کیونکہ ہم لوگ اپنی خامیوں کو ہر وقت چھپا کر نہیں رکھ سکتے۔ شرمین نے اگر پاکستان میں تیزاب پھینکنے والوں پر دستاویزی فلم بنائی تو یہ حقیقت تھی، اس نے کیا جھوٹ بولا؟ ہمیں اپنی خامیاں تسلیم کرنا پڑیں گی اور ان کے خاتمے کے لیے کام کرنا پڑے گا، پھر شرمین اگر کوئی کام ایسا کر رہی ہے کہ جسے دیکھ کر آپ کو لگتا ہے کہ ویسا نہیں بلکہ کچھ اور ہونا چاہیے تو آپ کام کیجیے، صرف اکیلی شرمین ہی کیوں اس کام کے لیے مختص سمجھی جاتی ہے۔
میری نظر میں یہ غلط بات ہے۔ اب جو یہ سمجھا جاتا ہے کہ شرمین کو پاکستان کی ایک کریہہ حقیقت دکھانے پر آسکر ایوارڈ ملا تو یہ بھی غلط طرزِ فکر ہے، آسکر ایوارڈز کا طریقہ کار بالکل مختلف ہے۔ یہ ایوارڈز کسی ایک دو لوگوں کی مرضی پر نہیں دیے جاتے بلکہ اس کے طریقہ کار میں 700 لوگ شامل ہوتے ہیں، جن سے گزر کر ایوارڈ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یہ ایک آدمی بیٹھ کر نہیں بناتا، اس میں مختلف رنگ و نسل اور زبانوں کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ ایوارڈز کسی ایجنڈے کے تحت نہیں دیے جاسکتے البتہ اگر آپ کی چیز نامزد ہوجائے تو پھر آپ تشہیری مہم چلائیں تاکہ آپ کو یہ ایوارڈ مل سکے لیکن اس سارے مرحلے سے گزر کر ایوارڈز دیے جانے کا فیصلہ ہوتا ہے۔
سوال: لیکن ہولی وڈ پروپیگنڈہ سنیما بھی تو تخلیق کر رہا ہے، یہ بات آپ مانتے ہیں؟ امریکی جنگ جس خطے میں پہنچتی ہے، اس جنگ اور خطے پر فلمیں بننا شروع ہوجاتی ہیں جو اپنا مؤقف ہولی وڈ کے ذریعے فلم بینوں کے دماغ میں انڈیلتے ہیں، جس طرح اب افغانستان اور عراق ان کا موضوع ہے، کبھی ویت نام ان کا موضوع ہوا کرتا تھا۔ اس حوالے سے کیا کہیں گے؟
جواب: دیکھیں اگر ہم یہی بات کر رہے ہیں تو ہولی وڈ ایک امریکی فلمی صنعت ہے، یہ آپ جانتے ہیں۔ وہ تو وہی کریں گے جو ان کے ملک کے لیے بہتر ہے۔ ہم بھی تو یہاں بیٹھ کر امریکیوں کے بارے میں فلمیں نہیں بنا رہے، ہم بھی وہی کریں گے جو پاکستانیوں کے لیے بہتر ہے۔ یہ ذمے داری امریکا یا ہولی وڈ پر عائد نہیں ہوتی، انہیں اپنا بزنس بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ وہ اپنے ناظرین کے لیے فلمیں بناتے ہیں۔ اب آسکر ایوارڈز کی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ غیر ملکی فلم کو بھی ایوارڈ دے مگر وہ دیتے ہیں، میں مانتا ہوں کہ ہولی وڈ کا کچھ سنیما پروپیگنڈہ سے متعلق بھی ہے لیکن وہ ہمارے بارے میں کیوں فلمیں بنائیں گے، یہ کام ہمیں سوچنا، کرنا اور دیکھنا ہوگا۔
سوال: ولی وڈ میں تو آپ کا کام بھرپور انداز میں چل ہی رہا ہے، پاکستانی اور انڈین فلمی صنعت میں مستقبل میں کام کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟
جواب: جی ہاں، کچھ بات چیت ہو رہی ہے، دیکھتے ہیں۔ میری 4 سے 5 درخواستیں ہوتی ہیں، اگر قبول کرلی جائیں تو پھر میں کام کرسکتا ہوں۔ میں ضرور چاہوں گا کہ میں اپنے تجربات پاکستانی فلمی صنعت کے ساتھ بھی شیئر کروں، اگر یہاں کے فلم ساز چاہیں تو۔
سوال: موجودہ پاکستانی سنیما دیکھا، کیا رائے ہے؟
جواب: جی، میں نے فلم ’خدا کے لیے‘ دیکھی، جس میں میرے والد نے بھی کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’شاہ‘ اور ’مور‘ دیکھیں۔ یہ ذرا مختلف فلمیں ہیں، پاکستانی فلمی صنعت کو اپنی انفرادیت قائم کرنی چاہیے، جو دھیرے دھیرے ہو رہی ہے۔ ہمیں اپنے ہمسائے ملک سے متاثر ہوئے بغیر اپنے انداز میں کام کرنا چاہیے۔ ہمیں نئے راستے اور زاویے بنانے چاہئیں، اب ہماری فلمی صنعت میں یہ تبدیلی آرہی ہے۔ امید ہے مستقبل میں اس انفرادیت میں اور اضافہ ہوگا۔
بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں