بھارت کا خلائی مشن اتنی تاخیر سے چاند پر کیوں پہنچے گا؟
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک بھارت نے چند دن قبل 22 جولائی کو چاند کی جانب اپنا دوسرا مشن ’چندریان ٹو‘ روانہ کردیا اور بھارت کو امید ہے کہ اس بار اس کا مشن کامیابی سے چاند تک پہنچ جائے گا، لیکن اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
’چندریان ٹو‘ کو بھارت کے خلائی تحقیقاتی ادارے ’انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائیزیشن (اسرو) نے 20 سال کی محنت اور کوششوں کے بعد تیار کرکے چاند کی جانب بھیجا، اگرچہ بھارت کا یہ ادارہ کئی طرح کی کامیاب تحقیقات بھی کر چکا ہے، تاہم اب وہ چاند پر اپنا مشن اتارنے کیلئے تیار ہے۔
بھارتی خلائی ادارہ (اسرو) 15 اگست 1969 کو وجود میں آنے کے بعد سے اب تک کئی ریموٹ سینسنگ سیٹیلائٹس، فلکیاتی دوربینیں اور موسمی سیٹیلائٹس زمین کے گرد بھیج چکا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیارہ مریخ اور چاند کے گرد بھی اپنی خلائی گاڑیاں بھیج چکا۔
’چندریان ٹو‘ کو اسرو نے نے 22 جولائی 2019 کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر کو 2 بج کر 43 منٹ پر ریاست آندرا پردیش کے شہر نیلور کے سری ہری کوٹا کے مقام پر قائم ستیش دھون اسپیس اسٹیشن سے چاند کی طرف بھیجا، یہ مشن 7 ستمبر 2019 کو چاند کی سطح پر اترے گا۔
اس مشن کو بھارت نے دیسی ساختہ تیار کردہ میزائل جی ایس ایل وی ایم مارک تھری کے ذریعے بھیجا، یہ ایک ایسا راکٹ ہے جو تین حصّوں پر مشتمل ہے اور مختلف سیٹیلائٹس کو لے جانے کے لیے استعمال ہوا ہے۔
’چندریان دوئم‘ چاند کی طرف بھیجی جانے والی بھارت کی دوسری خلائی گاڑی ہے، اس سے پہلے چندریان اول کو چاند کے گرد بھیجا گیا تھا جو آج بھی چاند کے گرد محو گردش ہے-
’چندریان ٹو‘ تین حصوں پر مشتمل ہے جس میں ایک اعداد اربٹر، 'وکرم' لینڈر اور 'پریگیاں' چاند گاڑی شامل ہے. خلائی راکٹ سے الگ ہونے کے بعد اربٹر کے ساتھ ہی 'وکرم' لینڈر جڑا ہوگا، یہ لینڈر ایک بڑا ڈبے نما چیز ہے جس کے اندر چاند گاڑی محفوظ ہے، آج سے تقریبا ڈیڑھ مہینے بعد جیسے ہی چندریاں دوئم چاند کے پاس پہنچے گی تو چاند کی کشش اس خلائی گاڑی کو پکڑ لے گی. جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ چاند کی کشش بہت زیادہ کم ہے اس لئے چندرایان ٹو کو چاند کی سطح سے قریب ہی گردش کرنا ہوگی تاکہ خلائی گاڑی چاند کی پکڑ میں رہے، جب یہ خلائی گاڑی سطح چاند سے صرف 100 کلومیٹر بلند ہوگی تو 'وکرم' لینڈر اربٹر سے علیحدہ ہوگا اور اپنا سفر چاند کی سطح کی طرف شروع کرے گا.
اگر بھارتی خلائی گاڑی چاند پر باحفاظت اترنے میں کامیاب رہی تو بھارت سوت یونین، امریکا، اور چین کے بعد دنیا میں چوتھا ملک بن جائے گا جو چاند پر اترے گا، لیکن اس مشن میں ایک اور خاص بات یہ بھی ہے کہ بھارت وہ پہلا ملک ہوگا جو چاند کے جنوبی قطب کے انتہائی قریب اترے گا، رواں سال 3 جنوری 2019 کو چین نے بھی چاند کے جنوبی قطب کے قریب اپنی خلائی گاڑی اتاری ہے لیکن بھارت پہلے نمبر پر آجائے گا.
وکرم لینڈر کے چاند پر اترنے کے بعد اس میں سے پریگیاں چاند گاڑی باہر نکلے گی اور چاند کی سطح پر چکر لگائے گی، خلائی گاڑی کے لونر اربٹر میں ایسے سینسرز لگے ہیں جو چاند کے گرد چکر لگاتے ہوئے اس کی سطح کو اسکین کرینگے اور چاند کے نقشوں کو مزید بہتر کرینگے، یہ اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ مستقبل میں اگر کوئی خلائی گاڑی چاند پر اترے تو سائنسدانوں کے پاس ہموار جگہوں کی معلومات موجود ہو، اس کے علاوہ وکرم لینڈر اور پریگیاں چاند گاڑی میں بہت سے آلات لگے ہیں جو چاند پر کیمیائی مادوں کا پتا لگائیں گے.
چندریان ٹو مشن کے بہت سے مقاصد ہیں جن میں سب سے زیادہ اہم چاند کے جنوبی قطب کے قریب برفیلے پانی اور زندگی کے لیے ضروری نامیاتی مالیکیولز کی تلاش ہے. چاند کے جنوبی قطب میں پانی کی تلاش اس لیے جاری ہے کیوں کہ 14 نومبر 2018 کو چندریان اول نے چاند کے اسی علاقے میں زیر سطح پانی کی خبر دی تھی.
چندریان ٹو بھارت کے لیے اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کیو نکہ بھارتی خلائی ادارے اسرو کی اس خلائی مشن پر تقریبا 1 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کی لاگت آئی ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس مشن کو زمین کی گرفت سے آزاد کرنے والے راکٹ سے لے کر پریگیاں چاند گاڑی تک تمام چیزیں بھارت ہی میں بنائی گئی ہیں.
اس کے علاوہ بھارت نے اپنے اس مشن سے دنیا بھر کو یہ سبق دینے کی کوشش بھی کی ہے کہ خواتین مردوں سے پیچھے نہیں بلکہ ان کے شانہ بشانہ چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں. کیوں کہ چندریان ٹو کی پروجیکٹ ڈائریکٹر بھی ایک خاتون تھیں، اس چاند مشن منصوبے کی پروجیکٹ ڈائریکٹر ’متھیا وانتہا‘ تھیں جب کہ ’رتو کریدھال‘ اس منصوبے کی مشن ڈائریکٹر ہیں۔
رتو کریدھال کو "راکٹ ویمن" بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ انہوں نے 2013 میں سیارہ مریخ کے گرد بھیجے گئے بھارتی مشن میں ڈپٹی آپریشن ڈائریکٹر فرائض سرانجام دیے تھے اور بھارت کا یہ مشن دنیا کا سستا ترین اور کامیاب مریخ پر جانے والا مشن قرار دیا گیا تھا.
چندریان ٹو کے چاند پر جانے سے کئی لوگوں کے ذہن میں یہ سوال بھی ہے کہ آخر بھارت کا خلائی مشن اتنے زیادہ وقت یعنی 47 دن میں چاند پر کیوں پہنچے گا جب کہ 50 سال قبل امریکا کا چاند پر پہنچنے والا اپولو 11 مشن 4 دن میں چاند پر پہنچا تھا۔
تو اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اپولو 11 کی خلائی گاڑی اس وقت کے سب سے طاقتور راکٹ 'سٹرن فائیو' پر روانہ کی گئی تھی جب کہ چندریان ٹو کو اس میزائل کے مقابلے کافی کمزور اور سست راکٹ کے ذریعے روانہ کیا گیا ہے.
سید منیب علی فورمن کرسچن کالج یونیورسٹی، لاہور میں بی. ایس. فزکس کے طالب علم، اسٹروبائیولوجی نیٹ ورک آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ہیں.انہیں علم فلکیات کا بہت شوق ہے اور اس کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے. ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں [@muneeb227][3]
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔