انڈے کھانا دل کی صحت کے لیے کتنے مفید؟
انڈوں کا شمار اس غذا میں کیا جاتا ہے جس کے جہاں بہت سے فوائد بیان کیے جاتے ہیں وہیں اس کے نقصانات کی فہرست میں بھی کمی نظر نہیں آتی۔
انڈوں کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ان میں کولسٹرول کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے، تاہم اگر انڈوں کو صحیح توازن اور اعتدال میں کھایا جائے تو یہ ہماری غذا کو صحت مند بناتے ہیں۔
تاہم حال ہی میں ایسی تحقیق سامنے آئیں تھی کہ کولیسٹرول کا بڑھنا امراض قلب کا خطرہ بڑھا سکتا ہے، جبکہ فالج اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کے لیے بھی یہ خطرناک ہے۔
مزید پڑھیں: انڈے صحت کے لیے مضر یا فائدہ مند؟
اس تحقیق کے سامنے آنے کے بعد ایسے سوالات اٹھائے جانے لگے کہ کیا انڈے بھی دل کی صحت کے لیے خطرناک ہوسکتے ہیں کیوں کہ اس میں کولیسٹرول کی مقدار کافی ہوتی ہے۔
تاہم ڈاکٹرز انڈوں میں موجود کولیسٹرول دل کی بیماریوں کے لیے مضر نہیں۔
انڈے امینو ایسڈز، اینٹی آکسائیڈنٹس اور آئرن سے بھرپور ہوتے ہیں اور اس کی زردی جسم میں چربی کے خلاف مزاحمت کرنے والے جز کولین کو بڑھاتی ہے جس سے موٹاپے کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
جسم میں خراب کولیسٹرول کی سطح میں اضافے سے شریانیں متاثر ہوتی ہیں اور وہاں ایل ڈی ایل پارٹیکلز جمع ہونے لگتے ہیں جس سے امراض قلب کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ انڈے کولیسٹرول کی سطح تو بڑھاتے ہیں مگر وہ ان میں ایسی تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے جس سے دل کی بیماریوں کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: دیسی یا فارمی، کونسا انڈا زیادہ غذائیت سے بھرپور
تاہم اس کا یہ مطلب بالکل بھی نہیں کہ ہم اپنی غذا میں سب سے زیادہ اہمیت صرف انڈوں کو دینا شروع کردیں۔
ڈاکٹرز کے مطابق بالغ افراد کو ہفتے میں صرف 3 سے 4 انڈے کھانے چاہیے، جبکہ بچے ہر روز ایک انڈا کھا سکتے ہیں۔
وہ افراد کو دل کی بیماریوں کا شکار ہیں یا جنہیں بلڈ پریشر ہائی ہونے کا سامنا رہتا ہے انہیں ہفتے میں صرف 3 انڈے کھانا چاہیے۔
انڈوں میں کولیسٹرول کی مقدار کافی ہوتی ہے یعنی 212 ملی گرام، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ جسم میں 'برے' کولیسٹرول کی سطح کو بڑھانے کا کام کرتا ہے۔ جسم خود بھی کولیسٹرول بنانے کا عمل مسلسل جاری رکھتا ہے اور ایک تحقیق کے مطابق انڈے ہماری کولیسٹرول پروفائل کو بہتر بنانے کا کام کرتے ہیں اور اچھے کولیسٹرول کی سطح کو بڑھاتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون عام معلومات کے لیے ہے۔ قارئین اس حوالے سے اپنے معالج سے بھی ضرور مشورہ لیں۔