واہ وارسا واہ
تحریر و تصاویر: رمضان رفیق
کراکو سے پولینڈ کے دیہات کی سیر کرتے کرتے بذریعہ گاڑی ہم وارسا دیکھنے چلے آئے۔
دُور سے ہی شہر کی بلند و بالا عمارتیں شہر کے ماڈرن ہونے کا پتا دے رہی تھیں۔ سادہ گاؤں کی معمولی درجے کی سڑکوں اور گلیوں کے بعد ایک جدید شہر میں داخلہ یہاں کے عوام اور امرا کے درمیان فرق کی طرف بھی ایک اشارہ تھا۔
شہر کا مرکز ہماری منزل تھی اور چونکہ پولینڈ کی سب سے اونچی عمارت ’پیلس آف کلچر اینڈ سائنس‘ بھی یہیں واقع ہے، لہٰذا ہم نے سب سے پہلے اسی طرف جانے کا فیصلہ کیا۔ اس ٹاور کے بالکل سامنے پارکنگ کی بہت ہی مناسب جگہ مل گئی۔ یہاں ان دنوں گرمیوں کا موسم چل رہا ہے اور یورپ کے شہر اور لوگوں کا رنگ گرم موسموں میں خوب کُھل کر سامنے آتا ہے۔
یہاں کے ٹریفک میں نظر آنے والی شاندار گاڑیوں، لوگوں کے ملبوسات، نت نئے فیشن کی رنگینیاں، آسمان کو چھوتی عمارتوں اور شاپنگ مالز کی گہما گہمی سے شہر کے خوشحال ہونے کا خوب اندازہ ہوا۔
کراکو میں درجنوں لوگوں کو دیکھا جو اس طرز سے دُبلے پتلے تھے جیسے بھوک کے زیرِ اثر بدن کمزور رہ گیا ہو، لیکن وارسا کے لوگوں میں پیٹ بھر جانے کے بعد پیدا ہوجانے والی طمانیت کی جھلک دکھائی دیتی تھی۔
یہ شہر مجھے کسی بھی جدید یورپی شہر جیسا ہی لگا، ’پیلس آف کلچر اینڈ سائنس‘ کو پہلے پہل اسٹالن کے نام سے موسوم کیا گیا تھا اور اس کی تعمیر بھی روس کی ایک مشہور عمارت سے متاثر ہوکر کی گئی تھی۔ تاہم، نئی سیاسی آگہی کے بعد اس ٹاور سے اسٹالن کے نام کی مناسبت چھین لی گئی۔
اس ٹاور کے بالکل سامنے ہی وارسا کا مرکزی ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔ اس چوراہے کے ایک طرف عالیشان شاپنگ مال اور قرب و جوار میں کئی فلک بوس عمارتیں واقع ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں لوگوں کا اکثر رش لگا رہتا ہے۔
پیلس آف کلچر اینڈ سائنس کے کچھ حصے کھلے تھے جن میں تھیٹر، سنیما گھر اور لائبریری طرز کی جگہیں بنائی گئی ہیں۔ ہم نے اس عمارت کے آس پاس مٹر گشتی کی اور پھر جب بھوک ستانے لگی تو کچھ کھانے کی تلاش میں اس کے سامنے موجود ایک شاپنگ مال میں چلے آئے۔
شاپنگ مال میں تو جیسے ایک پوری دنیا بسی ہوئی تھی۔ 5 یا 6 منزلوں والے اس پلازہ میں کئی ایک مشہور برانڈز کی دکانیں موجود تھیں، لیکن ہمیں صرف حلال کھانے کی تلاش تھی۔ عمومی طور پر ٹاپ فلورز کو کھانے اور کھیلنے کے لیے مختص کیا جاتا ہے اور یہاں پر بھی فوڈ کورٹ سب سے اوپر ہی تھا۔ یہاں پر ایک دو ویجیٹیرین آپشنز کے علاوہ ہمیں ایک ترک شوارما بھی نظر آیا، جسے ہم نے کئی یورپی ملکوں میں فروخت کیے جانے والے حلال شوارمے کے مقابلے میں ہر لحاظ سے معیاری پایا۔
اسی شاپنگ مال میں تقریباً 3 دن بعد پہلی مرتبہ دو چار دیسی چہرے بھی نظر آئے۔ یوں گھومتے گھامتے، مال کی دکانیں اور دنیا دیکھتے ہم واپس چلے آئے۔ اب ہماری اگلی منزل وارسا کا ٹاون ہال تھا۔
13ویں صدی میں تعمیر کیا جانے والا یہ ٹاؤن ہال ہر پرانے شہر کی طرح بیرونی دیوار، چوبرجیوں اور قدرے تنگ گلیوں کا ایک مجموعہ ہے۔ کچھ دن پہلے کسی نے خطہ یورپ کے بارے میں ایک بڑا ہی دلچسپ جملہ کہا تھا کہ یورپ کے اکثر ملکوں کو دیکھ کر یہ گمان سا ہوتا ہے کہ جیسے یہ ایک ہی مستری کے ہاتھ سے بنے ہوئے ہیں۔
یورپ کے اکثر ملکوں کے درمیان طرزِ تعمیر اور رہن سہن کی منفرد مماثلت دکھائی دیتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ایک بڑی وجہ یہاں کا شدید سرد موسم بھی ہے۔ گھروں سے جڑے ہوئے گھر، نسبتاً تنگ گلیاں، برف باری سے بچاتی مخروطی چھتیں، ہوا بند کھڑکیاں اور مخصوص دروازے کسی زمانے میں موسموں کی سختیوں سے لڑنے میں بہت مددگار رہے ہوں گے۔
پرانے شہر کی فصیل کے باہر ایک ملحقہ گلی میں ہمیں پارکنگ مل ہی گئی اور یہاں سے ہم پرانے شاہی قلعے کی طرف چلنے لگے۔ یہیں راستے میں ایک جنگجو بچے کا مجسمہ بھی ایستادہ ہے جو 1944ء کے آگہی یا بغاوت کے دور میں جرمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوا تھا۔ اسی مجسمے کے ساتھ ایک چھوٹی سی تختی پر ایک پرانے گیت کے چند بول کندہ ہیں، ’اے وطن تیرے ہر ایک پتھر پر بھی اپنا لہو وار دوں۔‘
یہیں سے چند قدموں کے فاصلے پر ایک جوڑا سیاحوں کی آمد و رفت سے بے خبر باتوں میں مگن اپنی الگ دنیا بسائے بیٹھا تھا۔ وہاں سے تھوڑا آگے بڑھے تو دیکھا کہ دیوار کے سائے میں کسی نے کھانے پینے کا ایک چھوٹا سا اسٹال لگا رکھا ہے۔
دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے ہم پیلس اسکوائر تک چلے آئے، اس کے تقریباً وسط میں ایک ستون ایستادہ نظر آتا ہے جسے پولینڈ میں سیکولرازم کی آمد سے منسوب یادگار قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بائیں جانب پرانی شاہی رہائش گاہ ہے جو اب میوزیم کا روپ دھار چکی ہے، جبکہ اس کے سامنے کا سارا حصہ سیاحوں کا ایک جنکشن سا بنا رہتا ہے اور مقامی فنکاروں کو اپنا فن دکھانے کے لیے اس سے بہتر جگہ کم ہی میسر ہوگی۔
ٹاور کی دائیں جانب 3 نوعمر اور نو آموز فنکار اپنے آلاتِ موسیقی کے ساتھ انگریزی زبان کے مشہور گانوں کو راہگیروں کی نذر کر رہے تھے۔ راہ چلتے لوگ انہیں سننے اور دیکھنے کے لیے چند لمحوں کے لیے رکتے اور آگے بڑھ جاتے۔
پیلس کے سامنے سے اگر اولڈ ٹاؤن کے اندر کی جانب بڑھا جائے تو کئی ایک گلیاں اندر مرکز کی طرف جاتی ہیں۔ پرانے طرز کی قدرے تنگ گلیاں مقامی دستکاروں کے فن پاروں، ریسٹورنٹس اور چائے خانوں سے بھری پڑی ہیں اور یہ اس بات کی گواہی ہے کہ یہاں سیاحوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔
انہی تاریخی گلیوں میں سے ایک میں سینٹ جان آرکتھیڈرل بھی ہے. گوتھک طرز کا یہ بڑا گرجا گھر 14ویں صدی میں تعمیر کیا گیا تھا اور اسے پولینڈ میں رومن چرچوں کی خشت اول سمجھا جاتا ہے۔
اس کے اردگرد سیاحوں کی کافی تعداد موجود تھی۔ گلی کی تنگی کے پیش نظر اس کی مکمل تصویر لینا قدرے مشکل کام تھا، لیکن کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے، اس لیے ہم نے ایک آدھ تصویر بنا ہی لی۔
اس گلی سے چند قدم آگے اولڈ ٹاؤن کا مارکیٹ اسکوائر واقع ہے۔ تنگ گلی کے بعد ایک کھلی جگہ کا احساس ہی آدمی کو بھلا بھلا سا لگتا ہے، پھر موسم گرما کی اس خوبصورت شام یہ جگہ مقامی اور غیر ملکی سیاحوں سے بھری ہوئی تھی۔ اسکوائر کے چاروں طرف ریسٹورنٹس کے باہر پڑی کرسیوں پر مشروبِ مغرب کی چُسکیاں لیتے لوگ کسی فلم کے سین کا حصہ لگ رہے تھے۔
اس اسکوائر کے درمیان ایک جل پری کا مجسمہ بھی ہے، جس کے اردگرد تصویر کھنچوانے والوں کا قدرے رش نظر آیا۔ اسی اسکوائر میں پینے کے پانی کی فراہمی کے لیے ایک پرانے زمانے کا نلکا بھی نصب ہے اور اسکول کے بچوں کا ایک گروپ اس نلکے سے پانی نکالنے کو ہی تفریح سمجھ رہا تھا۔
اس جگہ پر تو پوری شام گزاری جاسکتی تھی لیکن سورج اب ڈھلنے کی طرف مائل تھا اور ہم یہاں سے گزرتے ہوئے وارسا ببرکون کی طرف چلے آئے۔ 16ویں صدی میں بنی شہر کے داخلے کی یہ علامتی چوبرجی اولڈ ٹاؤن کی دیوار کو شان بخشتی ہے اور پرانے شہر کے کنارے کھڑی شام کو مزید پُراسرار بنادیتی ہے۔
پرانے شہر کی فصیل کی طرف چلتے چلتے ہم اپنی گاڑی کی پارکنگ کی طرف چلے آئے۔ یہیں سامنے ایک چھوٹی سی مارکیٹ کے پہلو سے کچھ کھانے پینے کا سامان لیا اور اپنے ہوٹل کی طرف چل پڑے۔
راستے میں گزرتے ہوئے درجنوں مناظر نے ہاتھ تھاما، کئی ایک دفعہ بریک تک پیر بھی گئے، لیکن سیر کی بھوک کا کوٹہ پورا ہوچکا تھا۔ ابھی تو رات اور اگلی صبح کا کچھ حصہ وارسا میں ہی گزرنا تھا، لیکن صبح کی ٹریفک میں واپس شہر کی طرف آنے کی ہمت نہ ہوئی اور اپنے ہوٹل سے ہی ہم نے کراکو کی طرف واپسی کی راہ لی۔
وارسا کو یورپ کے پُررونق شہروں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہاں بازاروں کی گہما گہمی دیکھ کر خوب اندازہ بھی ہوگیا۔
بلاشبہ وارسا جدید پولینڈ کا ایک چہرہ ہے جو یورپ میں رہتے ہوئے اس کی روایت اور رہن سہن پر چڑھ آیا ہے۔ یہاں آکر آپ اس کو یورپ کے کسی بھی جدید شہر سے کم تر خیال نہیں کرسکتے۔
رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں فیس بک پر یہاں فالو کریں اور ان کا یوٹیوب چینل یہاں سبسکرائب کریں۔
تبصرے (7) بند ہیں