وزارت عظمیٰ سے جیل، بیماری سے بیرون ملک روانگی تک
نواز شریف پاکستان کی پہلی شخصیت ہیں جو 3 مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر براجمان ہوئے۔ تاہم وہ تینوں بار اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکے۔
2013 میں وزیراعظم منتخب ہونے کے پہلے سال سے ہی انہیں سیاسی میدان میں رکاوٹوں کا سامنا رہا اور 2014 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا طویل ترین دھرنا ان کے لیے مشکلات کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔
نواز شریف حکومت کو دھرنے سے تو کوئی خاطر خواہ نقصان نہ پہنچا مگر 2016 میں پاناما لیکس نے ان کا پیچھا شروع کردیا اور معاملہ سپریم کورٹ تک جا پہنچا جہاں 5 رکنی لارجر بینچ نے 2 مرحلوں میں سنائے گئے فیصلوں میں متفقہ طور پر انہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دیا اور نیب کو ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے کر سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجازالاحسن کو اس کی نگرانی کے لیے مقرر کردیا۔
نااہلی کے بعد نیب ریفرنسز میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کو 2 مرتبہ جیل کی سزا سنا کر پہلے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل اور دوسری مرتبہ کوٹ لکھپت جیل لاہور بھیج دیا گیا، دوران اسیری انہیں متعدد مرتبہ صحت کے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔
اس دوران نواز شریف کو اپنی پارٹی کی صدارت سے بھی نااہل قرار دیا گیا، 2016 سے انہیں درپیش سیاسی چیلنجز اور مشکلات کی تفصیلات پیش کی جارہی ہیں:
پاناما انکشاف
پاناما لیکس نے اپریل 2016 میں دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا تھا جس کے اثرات پاکستان پر بھی گہرے پڑے اور ملکی سیاست میں ہلچل مچی جب ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات میں پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔
پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل تھا، جس میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔
ویب سائٹ پر جاری کی گئیں دستاویزات میں کہا گیا تھا کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔
موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا گیا تھا۔
پاناما انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے پی ٹی آئی، شیخ رشید اور جماعت اسلامی کی جانب سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔
سپریم کورٹ میں پاناما انکشافات پر درخواست دائر
موجودہ چیف جسٹس اور اس وقت سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے 4 جنوری 2017 سے پاناما کیس پردائر درخواستوں کی سماعت شروع کی۔
مزید پڑھیں: پاناما کیس کی سماعت مکمل، فیصلہ محفوظ
پاناما کیس کی سماعت کو 31 جنوری 2017 سے 15 فروری 2017 تک بینچ کے رکن جسٹس شیخ عظمت سعید کو دل کی تکلیف کے باعث ملتوی کردیا گیا جس کا دوبارہ آغاز 15 فروری کو ہوگیا۔
سپریم کورٹ کا 20 اپریل کا فیصلہ
سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے 23 فروری 2017 کو پاناما لیکس پر درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد ازاں 20 اپریل کو سنایا گیا جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے نواز شریف کو نااہل قرار دیا جبکہ دیگر 3 ججوں نے مزید تحقیقات کی سفارش کی تاکہ فیصلہ کیا جائے۔
جسٹس اعجاز افضل خان سمیت دیگر 3 ججوں نے فیصلے میں کہا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں 7 دن کے اندر جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: پاناما کیس: سپریم کورٹ کا جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ جے آئی ٹی میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے)، قومی احتساب بیورو (نیب)، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی)، انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کا نمائندہ شامل کیا جائے۔
جے آئی ٹی تشکیل
سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد 20 اپریل 2017 کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔
جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد 10 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں اس وقت کے وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔
جس کے بعد جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پانچ سماعتوں کے دوران فریقین کے دلائل سنے اور 21 جولائی کو پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ محفوظ کیا۔
نواز شریف تاحیات نااہل ہوگئے
سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں متحدہ عرب امارات میں اپنے بیٹے کی کمپنی کے ملازم ہوتے ہوئے تنخواہ کی تفصیلات فراہم نہ کرنے کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے تاحیات نااہل قرار دے دیا جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔
عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر ایک میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے اس وقت کے وزیراعظم کے خلاف فیصلہ سنایا۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا
سپریم کورٹ کے25 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف نے ’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘ سے متعلق کاغذات نامزدگی میں حقائق چھپائے، نواز شریف عوامی نمائندگی ایکٹ کی شق 12 کی ذیلی شق ’ٹو ایف‘ اور آرٹیکل 62 کی شق ’ون ایف‘ کے تحت صادق نہیں رہے، نواز شریف کو رکن مجلس شوریٰ کے رکن کے طور پر نااہل قرار دیتے ہیں، الیکشن کمیشن نواز شریف کی نااہلی کا نوٹیفکیشن فوری طور پر جاری کرے، نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔
سپریم کورٹ کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اگر قومی احتساب بیورو (نیب) نے حدیبیہ پیپر ملز کی اپیل سپریم کورٹ میں داخل کی تو اسے سنا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، مریم نواز، حسین نواز، حسن نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف لندن کے 4 فلیٹس سے متعلق ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا جبکہ نواز شریف، حسن اور حسین نواز کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز، ہل میٹل سمیت بیرونی ممالک میں قائم دیگر 16 کمپنیوں سے متعلق بھی ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ اسحٰق ڈار نے ظاہر آمدن سے زائد اثاثے بنائے اُن کے کے خلاف بھی ریفرنس داخل کیا جائے، فریقین کے اقدامات سے بلواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ثابت ہو تو شیخ سعید، موسیٰ غنی، کاشف مسعود، جاوید کیانی اور سعید احمد کے خلاف بھی نیب کارروائی کرے۔
عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ نیب احتساب عدالت راولپنڈی میں عدالتی فیصلے کے ڈیڑھ ماہ کے اندر ریفرنسز داخل کرے، ریفرنسز جے آئی ٹی کی جانب سے جمع کردہ مواد، ایف آئی اے اور نیب کو حاصل دستاویزات کی روشنی میں داخل کیا جائے، جے آئی ٹی کے بیرون ممالک کو لکھے گئے خطوط کو بھی مدنظر رکھا جائے جبکہ احتساب عدالت فیصلہ ان ریفرنسز کو دائر کیے جانے کے 6 ماہ کے اندر کرے۔
فیصلے میں چیف جسٹس کو یہ درخواست کی گئی کہ وہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو نامزد کریں، جو عدالتی فیصلے کو اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کرانے کے ساتھ نیب اور احتساب عدالت کے معاملات کی نگرانی بھی کریں۔
مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا بھی حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے جسٹس اعجازالاحسن کو نیب ریفرنس کی نگرانی کے لیے نگران جج مقرر کیا جنہیں کارروائی کے حوالے سے آگاہ کیا جاتا تھا۔
نیب میں ریفرنس دائر
بعد ازاں نیب کی جانب سے نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف 8ستمبر2017 کوعبوری ریفرنس دائرکیا گیا۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرملزم نامزد تھے، تاہم عدالت نےعدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا۔
9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیے تھے۔
مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر 19 اکتوبر 2017 کو براہ راست فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ نوازشریف کی عدم موجودگی کی بنا پران کے نمائندے ظافرخان کے ذریعے فردجرم عائد کی گئی تاہم نواز شریف 26 ستمبر 2017 کو پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
26 اکتوبر2017 کو نوازشریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے،3 نومبر 2017 کو پہلی بار نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے اور 8 نومبر2017 کو پیشی کے موقع پر نوازشریف پربراہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے ان ریفرنس کا فیصلہ 6 ماہ میں کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور یہ مدت مارچ 2018 میں ختم ہونی تھی تاہم سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کی درخواست پر زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ تک کی توسیع کردی۔
نیب ریفرنسز کی توسیع شدہ مدت مئی میں اختتام پذیر ہوئی تاہم احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ٹرائل کی مدت میں مزید توسیع کے لیے درخواست دائر کی گئی جسے عدالتِ عظمیٰ نے قبول کرلیا اور ٹرائل کی مدت میں 9 جون تک توسیع کی۔
سپریم کورٹ کی توسیع شدہ مدت جون میں ختم ہونے والی تھی لیکن احتساب عدالت نے ٹرائل کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے 4 جون کو ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی۔
10 جون کو سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنایا جائے۔
11 جون 2018 کو کیس میں نیا موڑ آیا جب حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے خواجہ حارث کیس سے الگ ہوگئے جس پر نوازشریف کی طرف سے ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کروایا تاہم 19جون کوخواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اوردست برداری کی درخواست واپس لے لی۔
ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔
عدالت کا فیصلہ اور نواز شریف کی لندن سے واپسی
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف 6 جولائی 2018 کو راولپنڈی کی احتساب عدالت کے جج بشیر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر کیے گئے ایون فیلڈ ریفرنس میں آمدنی سے زائد اثاثے بنانے پر مجرم ٹھہرایا اور بالترتیب 10 سال، 7 سال اور ایک سال کی سزا سنائی تھی۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 سال قید بامشقت
احتساب عدالت کی جانب سے جب فیصلہ سنایا گیا تو نواز شریف اور مریم نواز لندن میں کینسر کے عارضے میں زیرعلاج کلثوم نواز کی عیادت کے لیے موجود تھے تاہم وہ 13 جولائی 2018 کو پاکستان پہنچ گئے تھے۔
مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر پہلے ہی گرفتاری دے چکے تھے جبکہ فیصلہ آنے کے فوری بعد لندن میں ایک پریس کانفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز نے بھی وطن واپس آکر سزا کاٹنے کا اعلان کیا تھا۔
نواز شریف نے عدالتی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ جنہوں نے فیصلہ سنایا ہے انہوں نے اپنی نفرت میں اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا کہ پاکستان میں بیٹی کا کیا مقام ہوتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف جب احتساب عدالت نے سزا سنائی تو ملک میں عام انتخابات کی مہم زوروں پر تھیں لیکن فیصلے میں کہا گیا تھا کہ مریم نواز اور ان کے خاوند الیکشن 2018 میں حصہ نہیں لے سکیں گے تاہم کیپٹن (ر) محمد صفدر کے پاس احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کرنے کی صورت میں الیکشن لڑنے کا ایک آپشن موجود ہے۔
احتساب عدالت کے 174 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 10 سال کے لیے عوامی عہدے کیلئے نااہل بھی قرار دیا گیا۔
بعد ازاں 13 جولائی کو سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو قومی احتساب بیورو (نیب) کی ٹیم نے لاہور ایئرپورٹ سے حراست میں لے کر اسلام آباد پہنچایا جہاں سے دونوں کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا۔
دونوں رہنما نجی ایئرلائن اتحاد کی فلائٹ نمبر ای وائے 243 کے ذریعے لندن سے براستہ ابوظہبی، لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچے تھے ، تاہم پرواز ابوظہبی میں 2 گھنٹے تاخیر کے بعد لاہور کے لیے روانہ ہوئی۔
العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز دوسری عدالت منتقل
ابتدائی طور پر اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر ایون فیلڈ، العزیزیہ اور فلیگ شپ تینوں ریفرنسز کی سماعت کررہے تھے اور انہوں نے ہی 6 جولائی 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی تھی۔
بعد ازاں شریف خاندان نے جج محمد بشیر پر اعتراض کیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 7 اگست 2018 کو العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی دوسری احتساب عدالت میں منتقلی کی سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست منظور کی تھی، جس کے بعد دیگر دو ریفرنسز العزیریہ اور فلیگ شپ کی سماعت جج ارشد ملک کو سونپ دی گئیں۔
تاہم 11 ستمبر 2018 کو سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز طویل علالت کے بعد 68 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں، جس کے بعد ان کا جسد خاکی پاکستان لایا گیا اور جیل میں موجود نواز شریف کو پیرول پر رہا کیا گیا۔
نواز شریف، مریم نواز، کیپٹن(ر) صفدر کی سزا معطل
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 19 ستمبر 2018 کو ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی سزاؤں کو معطل کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔
مزید پڑھیں: نواز شریف، مریم نواز اور محمد صفدر کی سزائیں معطل
جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن پر مشتمل ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے سزا معطلی کی درخواست منظور کرتے ہوئے مختصر فیصلہ سنایا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ درخواست دہندگان کی اپیلوں پر فیصلہ آنے تک سزائیں معطل رہیں گی، نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 5، 5 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم بھی دیا گیا۔
العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا
ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی کے باوجود نواز شریف کو العزیزیہ اور فیلگ شپ ریفرنس کا سامنا تھا اور سال 2018 کے اواخر میں ہی ان دونوں ریفرنسز کا فیصلہ ہوگیا۔
راولپنڈی کی احتساب عدالت نمبر 2 کے جج ارشد ملک نے سماعت مکمل ہونے پر 19 دسمبر 2018 کو فیصلہ محفوظ کیا اور 24 دسمبر 2018 کو نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے عائد کیے جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا۔
نواز شریف پر العزیزیہ ریفرنس میں ڈیڑھ ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر (تقریباً ساڑھے 3 ارب پاکستانی روپے) یعنی لگ بھگ 5 ارب روپے سے زائد جرمانہ عائد کیا گیا۔
مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید، فلیگ شپ ریفرنس میں بری
احتساب عدالت نے 131 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ نواز شریف ذرائع آمدن بتانے اور نیب کی طرف سے نیب آرڈیننس کے سیکشن نائن اے فائیو کے تحت لگائے گئے الزام کو غلط ثابت کرنے میں ناکام رہے جبکہ پراسیکیوشن نے ان کے خلاف کرپشن کا الزام ثابت کیا۔
عدالت نے نواز شریف کو 10 سال کے لیے عوامی عہدہ رکھنے کے لیے نااہل بھی قرار دیا جبکہ حسن اور حسین نواز کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔
احتساب عدالت نے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ اثاثے ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اثاثوں کو ضبط کرنے کے لیے سعودی عرب سے رابطہ کرے۔
عدالت نے مزید کہا کہ نواز شریف فیصلے کے خلاف 10 روز میں اپیل کر سکتے ہیں۔
جج ارشد ملک نے تحریری فیصلے میں کہا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کے خلاف ثبوت نہیں لہٰذا انہیں بری کیا جاتا ہے۔
فیصلے کے بعد نواز شریف کو کمرہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا گیا اور جنہیں عارضی طور پر اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا اور بعدازاں انہیں مستقل طور پر کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کردیا گیا۔
العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ چیلنج
جس کے بعد یکم جنوری 2019 کو نواز شریف کی جانب سے احتساب عدالت کی جانب سے سنایا گیا العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
نواز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے توسط سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی اور 61 صفحات پر مشتمل اس اپیل میں دعویٰ کیا گیا کہ عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کا فیصلہ قانون کی غلط تشریحات اور غلط فہمیوں کی بنیاد پر کیا۔
سابق وزیرِاعظم کے وکیل خواجہ حارث نے دعویٰ کیا تھا کہ ’احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے دوران سماعت بطور جج اپنے اختیارات سے تجاوز کیا‘۔
نواز شریف کی درخواست کے بعد اگلے روز 2 جنوری کو نیب نے العزیزیہ اسٹیل مل اور فلیگ شپ ریفرنسز پر احتساب عدالت کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: 'نواز شریف، قوم کے پلیٹلیٹس پر مہربانی کریں اور لوٹی ہوئی رقم واپس کردیں'
نیب کا اپنی درخواست میں کہنا تھا کہ محض شک کا فائدہ دے کر نواز شریف کو بری کرنا قانون کے خلاف ہے۔
نیب کی جانب سے استدعا کی گئی کہ سابق وزیرِاعظم کی بریت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے اور اور ٹرائل کورٹ ان کے خلاف پیش کیے جانے والے شواہد کی بنیاد پر انہیں سزا دے۔
بعد ازاں 3 جنوری کو العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں سزا پانے والے سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے اپنی سزا کی معطلی سے متعلق درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردی۔
اس متفرق درخواست میں انہوں نے استدعا کی کہ ان کی پہلی اپیل پر فیصلہ آنے تک احتساب عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا معطل کی جائے اور ضمانتی مچلکوں کے عوض ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
عدالتی فیصلے کے بعد کوٹ لکھپت جیل منتقل کیے جانے والے نواز شریف کی صحت پر تشویش کا اظہار کیا جارہا تھا جبکہ انہیں لاہور کے ہسپتالوں میں بھی منتقل کیا گیا تھا اور حکومت کی جانب سے معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیے گئے تھے۔
ساتھ ہی وزیراعظم عمران خان نے بھی مسلم لیگ (ن) کے قائد کی صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب کو ہدایت کی تھی کہ نواز شریف کو ان کی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کی اجازت دی جائے۔
تاہم رواں سال فروری میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سزا کے فیصلے کے خلاف دائر ضمانت کی درخواست کو مسترد کردیا۔
25 فروری کو سنائے گئے فیصلے میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا تھا کہ نواز شریف کی کسی میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ ان کی خراب صحت ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ میڈیکل بورڈ میں شامل ڈاکٹروں کی مرتب کردہ رپورٹس سے یہ بات واضح ہوتی ہیں کہ درخواست گزار کو وہ تمام بہترین ممکنہ طبی سہولیات فراہم کی گئیں جو پاکستان میں کسی بھی فرد کو حاصل ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست
ضمانت کی درخواست مسترد ہونے پر نواز شریف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور اپنے وکیل خواجہ حارث کے توسط سے درخواست دائر کی۔
جس میں عدالت عظمیٰ سے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی دی گئی 7 برس قید کی سزا ختم کرتے ہوئے ضمانت کی استدعا کی گئی، ساتھ ہی اس اپیل کے علاوہ ایک علیحدہ درخواست بھی جمع کروائی گئی تھی جس میں درخواست کی 6 مارچ کو جلد سماعت کی گزارش کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کارکنوں کے جلوس میں کوٹ لکھپت جیل پہنچ گئے
تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے جلد سماعت کی درخواست یہ کہتے ہوئے واپس کردی کہ اس معاملے کو خصوصی توجہ نہیں دی جاسکتی اور کارروائی معمول کے مطابق ہی کی جائے گی، جس کے بعد 11 مارچ کو سابق وزیر اعظم نے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے 25 فروری کے فیصلے کے خلاف ضمانت کی درخواست کو جلد سماعت کے لیے مقرر کرنے کے لیے نئی درخواست دائر کی تھی۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ نواز شریف کی صحت پہلے سے زیادہ خراب ہے، لہٰذا عدالت رواں ہفتے ہی درخواست کی سماعت مقرر کرے جسے عدالت نے 19 مارچ کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔
نواز شریف کی 6 ہفتوں کیلئے سزا معطل
سپریم کورٹ میں 19 مارچ کو ہونے والی سماعت پر نیب کو نوٹس جاری کیا گیا تھا جبکہ نواز شریف کے وکیل نے دلائل دیے تھے۔
بعد ازاں اس کیس کی مزید سماعت 26 مارچ کو ہوئی تھی، جہاں سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا کو 6 ہفتوں کے لیے معطل کرتے ہوئے ان کی درخواست ضمانت کو منظور کرلیا تھا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ 6 ہفتوں کی ضمانت کی مقررہ میعاد پوری ہونے پر نواز شریف کو سرنڈر کرنا ہوگا، تاہم نواز شریف اس دوران اپنے وسائل سے اپنی مرضی کے معالج سے علاج کرواسکیں گے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا تھا اور کہا تھا کہ نواز شریف پر باہر جانے پر پابندی ہوگی اور ضمانت کے عوض 50 لاکھ روپے کے 2 مچلکے جمع کروانے ہوں گے۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ 6 ہفتوں بعد نواز شریف کو اپنے آپ کو حوالے کرنا ہوگا، اگر 6 ہفتوں میں انہوں نے خود کو قانون کے حوالے نہیں کیا تو انہیں گرفتار کیا جائے گا۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کے پلیٹلیٹس کم ہونے کی اصل وجہ سامنے آگئی
تاہم 4 ہفتوں بعد اپریل کے اواخر میں نواز شریف نے ضمانت میں توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور نواز شریف کی جانب سے دائر نظر ثانی اپیل میں کہا گیا تھا کہ ’اگر عبوری ضمانت میں توسیع نہ کی گئی تو ناقابل تلافی نقصان ہوگا‘۔
بعد ازاں 3 مئی کو سپریم کورٹ نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ضمانت میں توسیع اور بیرون ملک علاج کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
نواز شریف کی دوبارہ جیل منتقلی
جس کے بعد 7 مئی کو 6 ہفتے مکمل ہونے کے بعد نواز شریف کوٹ لکھپت جیل پہنچے تھے اور انہیں مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی بڑی تعداد نے ایک جلوس کی شکل میں جیل پہنچایا تھا۔
اس موقع پر نواز شریف نے کارکنوں کی جانب سے انہیں جلوس کی شکل میں جیل تک پہنچانے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا تھا کہ ظلم یہ سیاہ رات ختم ہو کر رہے گی اور ان کی دعاؤں سے جیل کی کال کوٹھری سے نجات ملے گی۔
17 جون 2019 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی العزیزیہ/ہل میٹل ریفرنس میں طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر کوٹ لکھپت جیل کے سپرنٹنڈنٹ اور میڈیکل افسر نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپنا جواب جمع کروایا اور بتایا کہ نواز شریف کی طبی حالت درست ہے، سابق وزیر اعظم کو ای سی جی کروانے کا کہا لیکن انہوں نے انکار کردیا۔
بعد ازاں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کا معاملہ ایک مرتبہ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت آیا تھا، جہاں 20 جون کو عدالت عالیہ نے مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت کو ایک مرتبہ پھر مسترد کردیا تھا۔
نواز شریف کو سزا سنانے والے جج کی مبینہ ویڈیوز
رواں سال جولائی کے اوائل میں مریم نواز العزیزیہ اسٹیل ملز میں نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لے آئیں۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔
مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے۔ لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔
انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جج ارشد ملک ویڈیو کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل
مبینہ ویڈیو سامنے آنے کے اگلے روز 7 جولائی کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔
بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔
اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔
بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔
مذکورہ ویڈیو اسکینڈل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی، جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 22 اگست کو فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو تادیبی کارروائی کے لیے واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ جبکہ 23 اگست کو سپریم کورٹ نے محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔
جس کے بعد سابق جج ارشد ملک کو سیشن کورٹ لاہور میں آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی (او ایس ڈی) تعینات کردیا گیا تھا۔
چوہدری شوگر ملز میں نواز شریف سے تفتیش
جہاں ایک طرف نواز شریف کو سزا دینے والے جج کی ویڈیو سامنے آئی تھی وہیں احتساب کے قومی ادارے نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کے علاوہ نواز شریف سے بھی تفتیش کا فیصلہ کیا تھا، تاہم ابتدائی طور پر احتساب عدالت اسلام آباد نے اس درخواست کو مسترد کردیا تھا۔
بعد ازاں 10 اکتوبر کو نیب کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے، جس کے بعد 11 اکتوبر کو انہیں جیل سے حراست میں لے کر لاہور کی احتساب عدالت میں پیش کیا گیا۔
عدالت میں پیشی کے بعد نیب نے چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا تھا جبکہ انہیں دوبارہ 25 اکتوبر کو پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
ناسازی طبعیت کے باعث نواز شریف کی ہسپتال منتقلی
تاہم 21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہوئی اور انہیں لاہور کے کوٹ لکھپت جیل سے سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہوگئے تھے جس کے بعد انہیں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کی گئی تھی۔
ابتدائی طور پر نیب کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ 'نواز شریف کی طبیعت اب بہتر ہے، ادویات کی وجہ سے ان کے خون کے خلیات میں کمی آئی تھی، سروسز ہسپتال میں ان کا مکمل چیک اپ ہوگا تاہم فی الحال ڈینگی ٹیسٹ منفی آیا ہے'۔
مزید پڑھیں: نوازشریف کی رہائی سے متعلق بیان پر چوہدری غلام سرور سے جواب طلب
تاہم نواز شریف کے علاج کے لیے ایک 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا، جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز کے سپرد کی گئی جبکہ اس بورڈ میں سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ گیسٹروم انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اور فزیشن بھی شامل کیے گئے، بعد ازاں اس میڈیکل بورڈ کے اراکین کی تعداد میں بھی اضافہ کردیا گیا۔
22 اکتوبر کو سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صحت سے متعلق تشکیل دیے گئے میڈیکل بورڈ نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کے خون ٹیسٹ کی رپورٹس تسلی بخش نہیں۔
میڈیکل بورڈ کی جانب سے نواز شریف کے لیے بلڈ پریشر، شوگر، کولیسٹرول، یورک ایسڈ اور معدے کی ادویات تجویز کی گئیں۔
اگلے ہی روز وزیراعظم عمران خان نے حکومت پنجاب کو ہدایت کی کہ نواز شریف کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کی جائیں، ساتھ ہی عمران خان نے سابق وزیر اعظم کی صحت سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی طلب کرلی۔
وفاقی و صوبائی عدالت عالیہ سے طبی بنیادوں پر ضمانت
بعد ازاں نواز 24 اکتوبر کو شہباز شریف نے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست کے لیے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ سے الگ الگ رجوع کیا۔
لاہور ہائی کورٹ میں جو درخواست دائر کی گئی وہ چوہدری شوگر ملز کیس میں طبی بنیادوں پر ضمانت کی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست العزیزیہ ریفرنس میں ضمانت سے متعلق تھی۔
25 اکتوبر کو وفاقی و صوبائی دارالحکومت کی عدالت عالیہ میں نواز شریف کی ضمانت سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی۔
جہاں ایک طرف اسلام آباد ہائی کورٹ مذکورہ درخواست پر دلائل سننے کے بعد اس کی آئندہ سماعت 29 اکتوبر تک ملتوی کردی تھی جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کیس میں سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرلی تھی اور ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔
اگرچہ 25 اکتوبر کو نواز شریف کی ضمانت منظور ہوگئی تھی، تاہم ان کی جیل سے اس وقت تک باضابطہ طور پر رہائی ممکن نہیں تھی جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ العزیزیہ کیس میں ان کی سزا معطل کرکے ان کی ضمانت منظور نہیں کرتی۔
لہٰذا اسلام آباد ہائی کورٹ میں 29 اکتوبر سے قبل فوری طور پر سماعت کے لیے 26 اکتوبر کو شہباز شریف نے پھر عدالت سے رجوع کرلیا تھا۔
جس پر وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے فوری سماعت کی تھی اور معاملے پر وکلا کے دلائل سننے کے بعد نواز شریف کی 29 اکتوبر تک عبوری ضمانت منظور کرلی تھی۔
عدالت نے نواز شریف کو 20، 20 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا بھی حکم دیا تھا۔
بعد ازاں 29 اکتوبر کو نواز شریف کی ضمانت پر رہائی سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی تھی، جہاں نیب نے انسانی بنیادوں پر نواز شریف کی ضمانت کی مخالفت نہیں کی تھی۔
مذکورہ درخواست پر طویل سماعت ہوئی تھی، جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے سزا کو 8 ہفتوں کے لیے معطل کردیا تھا، ساتھ ہی عدالت نے 20، 20 لاکھ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کی ہدایت کی تھی۔
طبی بنیادوں پر ملنے والی ضمانت کے بعد نواز شریف کا سروسز ہسپتال میں علاج کیا جارہا تھا، تاہم ان کے پلیٹلیٹس میں کمی کا سلسلہ جاری تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹرز نے نواز شریف کے خون کی ٹیسٹ رپورٹس غیرتسلی بخش قرار دے دیں
ہسپتال سے جاتی امرا منتقلی
5 نومبر کو نواز شریف کو سروسز ہسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا تھا، تاہم انہوں نے چوہدری شوگر ملز کیس میں اپنی بیٹی مریم نواز کی ضمانت منظور کے بعد روبکار جاری ہونے میں تاخیر کے باعث ہسپتال سے منتقل ہونے سے انکار کردیا تھا۔
بعد ازاں 6 نومبر کو مریم نواز کی رہائی کی روبکار جاری ہونے کے بعد نواز شریف اپنی صاحبزادی کے ہمراہ سروسز ہسپتال سے جاتی امرا منتقل ہوگئے تھے۔
جہاں نواز شریف کے علاج کے لیے ان کی رہائش گاہ پر انتہائی نگہداشت یونٹ (آئی سی یو) قائم کیا گیا جبکہ نواز شریف کی صحت کی نازک صورتحال کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کی ملاقاتوں پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔
نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کا معاملہ
جاتی امرا منتقل ہونے کے بعد یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ نواز شریف ڈاکٹروں کے مشورے اور اہل خانہ کی جانب سے قائل کرنے پر مبینہ طور پر اپنے علاج کے لیے بیرون ملک جانے پر رضامند ہوگئے۔
شریف خاندان کے ذرائع نے مزید بتایا تھا کہ 'ڈاکٹروں کی رپورٹس کی روشنی میں حکومت کی جانب سے ایک، 2 روز میں نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے خارج کیے جانے کا امکان ہے، جس کے بعد وہ ملک سے باہر جاسکیں گے'۔
مزید پڑھیں: نواز شریف کی طبیعت ناساز، نیب دفتر سے سروسز ہسپتال منتقل
ابتدائی طور یہ امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے خارج کیے جانے پر 10نومبر کو ان کی لندن روانگی کا امکان ہے۔
تاہم ای سی ایل سے نام نکالنے کا معاملہ تاخیر کا شکار ہوگیا تھا اور اس سلسلے میں حکومت کے کچھ وزرا کی مخالفت بھی سامنے آئی تھی۔
ساتھ ہی نیب نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ حکومت کے کاندھوں پر ڈالتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاملے میں وفاقی حکومت مجاز اتھارٹی ہے۔
بعد ازاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراہی میں طلب کیا گیا تھا۔
اس اجلاس کے ساتھ ہی وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی ہوا تھا، جس کے بعد وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے بتایا تھا کہ وفاقی کابینہ نے نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (سے مشروط طور پر نکالنے کی اصولی اجازت دے دی ہے۔
تاہم جہاں ایک طرف وفاقی کابینہ نے یہ اصولی منظوری دی تھی تو وہی دوسری طرف اگلے روز یعنی 13 نومبر کو ڈاکٹر فروغ نسیم کی سربراہی میں کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا۔
نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت
جس کے بعد وفاقی وزیر نے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ حکومت نے نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ نواز شریف کو صرف ایک بار کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی ہے، تاہم 'کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف کو 7 ارب روپے کے سیکیورٹی بانڈ جمع کرانا ہوں گے'۔
بعد ازاں وزارت داخلہ نے نواز شریف کو علاج کی غرض سے ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کا میمورنڈم بھی جاری کیا تھا، جس کے مطابق سابق وزیر اعظم کو 4 ہفتوں کے لیے علاج کی غرض سے بیرون ملک جانے کی اجازت سیکیورٹی بانڈ جمع کرانے سے مشروط تھی۔
سیکیورٹی بانڈ میں نواز شریف یا ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی جانب سے 2 کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر یا اس کے مساوی تقریباً 3 ارب 88 کروڑ 75 لاکھ پاکستانی روپے، 80 لاکھ برطانوی پاؤنڈ یا اس کے مساوی ایک ارب 59 کروڑ 70 لاکھ روپے اور ڈیڑھ ارب پاکستانی روپے جمع کرانے کی شرط رکھی گئی تھی۔
بانڈ کی مجموعی رقم تقریباً 7 ارب پاکستانی روپے بنتی تھی جن کے جمع کرانے کے بعد نواز شریف کو 4 ہفتے کے لیے ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
حکومتی شرط مسترد
تاہم مسلم لیگ (ن) نے حکومت کی اس شرط کو مسترد کردیا تھا اور نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کے لیے سیکیورٹی بانڈز جمع کروانے سے انکار کردیا تھا۔
وفاقی وزیر قانون اور معاون خصوصی احتساب کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کو مشروط کرنے کا حکومتی فیصلہ عمران خان کے متعصبانہ رویے اور سیاسی انتقام پر مبنی ہے جسے ہم مسترد کرتے ہیں۔
ادھر حکومت نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ’اگر نواز شریف کو ملک سے جانے کی اجازت دے دی جائے اور وہ واپس نہ آئے تو قومی احتساب بیورو اور عدالتیں پوچھ سکتی ہیں کہ حکومت نے کیوں نواز شریف کو باہر جانے کی اجازت دی‘۔
نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کیلئے عدالت سے رجوع
حکومتی شرط اور مسلم لیگ (ن) کے انکار کے ساتھ ہی یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا جس کے بعد صورتحال کو دیکھتے ہوئے صدر مسلم لیگ (ن) شہباز شریف نے 14 نومبر کو نوازشریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا۔
درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا کہ حکومت کی جانب سےنواز شریف کا نام ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرائط رکھی جا رہی ہیں، عدالت وفاقی حکومت کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے۔
عدالت عالیہ سے رجوع کرنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کی درخواست پر وفاقی حکومت سےتحریری جواب طلب کیا۔
جس کے بعد عدالت میں وفاقی حکومت اور نیب کے نمائندے پیش ہوئے، جہاں وفاقی حکومت نے نواز شریف کا نام ای س ایل سے نکالنے سے متعلق حکومتی درخواست کی مخالفت کی اور کہا کہ مذکورہ معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کو سماعت کا اختیار نہیں۔
تاہم لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے وفاق اور نیب کا عدالتی دائرہ اختیار پر اعتراض مسترد کر دیا۔
نواز شریف کو غیرمشروط بیرون ملک جانے کی اجازت
اگلے روز ہفتہ 16 نومبر کو دوبارہ یہ معاملہ عدالت عالیہ میں زیر سماعت آیا، جہاں لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کا حکم دیتے ہوئے انہیں 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔
لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے خارج کرنے کا حکم دیتے ہوئے سابق وزیراعظم کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔
جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی وفاقی حکومت کی جانب سے لگائی گئی 7 ارب روپے کے بانڈ کی شرط کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب ہائی کورٹ نے ضمانت دی ہے تو اس شرط کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ نواز شریف علاج کے لیے مزید وقت درکا ہوا تو درخواست گزار عدالت سے دوبارہ رجوع کرسکتا ہے اور میڈیکل رپورٹس کی روشنی میں توسیع دی جاسکتی ہے۔
سابق وزیراعظم کی بیرون ملک روانگی
عدالت عالیہ سے اجازت ملنے کے بعد نواز شریف آج منگل (19 نومبر) کو ایئرایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن روانہ ہوگئے۔
ایئر ایمبولینس میں نواز شریف کے ہمراہ شہباز شریف، ڈاکٹر عدنان، عابد اللہ جان اور محمد عرفان شامل تھے۔
نواز شریف کے سفر کی تفصیلات بتاتے ہوئے ڈاکٹر عدنان نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں بتایا تھا کہ نواز شریف برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے لیے بذریعہ دوحہ قطر ایئرویز کی ایئر بس A-319-133LR / A7-MED کے ذریعے روانہ ہوں گے۔
بعد ازاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد قطر ایئرویز کی ایئر ایمبولینس میں سوار ہو کر لاہور ایئر پورٹ کے حج ٹرمینل سے اپنے بھائی شہباز شریف، ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان کے ہمراہ لندن روانہ ہوگئے۔