ترک وزیر خارجہ کا شاہ محمود سے رابطہ،مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال
ترکی کے وزیرِ خارجہ میولوت چاوش اولو کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونک رابطے میں مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کے مطابق ترکی کے وزیرِ خارجہ میولوت چاوش اولو نے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا۔
سرکاری خبر رساں ایجنسی 'اے پی پی' کے مطابق ترک وزیر خارجہ نے گزشتہ روز کوئٹہ میں دہشت گردی کے دلخراش واقعے کی مذمت اور اپنے ملک کی طرف سے پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
ترجمان نے کہا کہ بات چیت کے دوران دونوں وزرائے خارجہ نے مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
ترک وزیر خارجہ نے اپنے حالیہ دورہ عراق کے بعد اپنے تجزیے سے شاہ محمود قریشی کو آگاہ کیا، جبکہ وزیر خارجہ نے ترک ہم منصب کو عراقی وزیر خارجہ سے ہونے والے ٹیلی فونک رابطے سے آگاہ کیا۔
انہوں نے ترک وزیر خارجہ کو مشرق وسطیٰ میں پائی جانے والی کشیدگی میں کمی لانے کے لیے اپنے آئندہ دورہ ایران، سعودی عرب اور امریکا سے بھی مطلع کیا۔
مزید پڑھیں: شاہ محمود قریشی کا ایران سمیت دیگر ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطہ
میولوت چاؤش اولو نے ایران ۔ امریکا کشیدگی میں کمی لانے کے لیے پاکستان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کو سراہا اور خطے میں قیام امن کیلئے کی جانے والی تمام کاوشوں پر اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔
یاد رہے کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عراق میں امریکی حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد خطے میں پیدا ہونے والی صورت حال پر ایران، سعودی عرب اور ترکی سمیت مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے تبادلہ خیال کیا اور تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا تھا۔
ترجمان دفترخارجہ عائشہ فاروقی کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ‘وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور ایران کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی’۔
وزیرخارجہ کے رابطے کے حوالے سے دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ‘خطے کی بدلتی صورت حال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا’۔
دفترخارجہ کا کہنا تھا کہ ‘وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حالیہ صورت حال پر پاکستان کی گہری تشویش سے آگاہ کرتے ہوئے تنازع سے بچنے اور کشیدگی کو کم کرنے کے لیے تحمل کا مظاہرہ کرنے پر زور دیا’۔
شاہ محمود قریشی نے ‘تمام فریقین کو اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق پرامن طریقے سے اختلافات کا حل نکالنے کی یادہانی کروائی تھی‘۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کا جوہری معاہدے سے مکمل دستبرداری کا اعلان
واضح رہے کہ خیال رہے کہ 3 جنوری کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں ایئرپورٹ کے نزدیک امریکی فضائی حملے میں ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے۔
ایران نے بغداد کے ایئرپورٹ پر امریکی حملے میں قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر واشنگٹن سے بدلہ لینے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے اسے خطرناک نتائج کی دھمکی دی تھی۔
ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ خامنہ ای نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے قاسم سلیمانی کو مزاحمت کا عالمی چہرہ قرار دیا اور ملک میں تین روزہ یوم سوگ کا اعلان کیا تھا۔
8 جنوری کو امریکا سے بدلہ لیتے ہوئے عراق میں امریکی و اتحادی فورسز کے زیر اثر 2 فوجی اڈوں پر درجن سے زائد بیلسٹک میزائل داغے تھے۔
ایران نے اس حملے میں 80 امریکیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا جبکہ امریکا نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ تمام امریکی محفوظ ہیں۔
مزید پڑھیں: ایران کا جوابی حملہ امریکا کے منہ پر تھپڑ ہے، خامنہ ای
ایران نے عالمی طاقتوں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے مکمل طور پر دستبرداری کا اعلان بھی کیا تھا۔
تین روز قبل قوم سے خطاب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی حکومت پر فوری طور پر اضافی اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندیاں اس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ایران اپنا رویہ تبدیل نہیں کرتا۔
گزشتہ روز امریکا نے خطے کو غیر مستحکم کرنے کے الزام میں ایران کے 8 اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔
امریکا نے کان کنی اور دھاتوں کی پیداوار کی 17 کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کردی جن سے ایران کو اربوں ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔