• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

امریکی نمائندہ خصوصی امن مذاکرات کے لیے کابل پہنچ گئے

شائع February 2, 2020
امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی — فائل فوٹو:رائٹرز
امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی — فائل فوٹو:رائٹرز

کابل: طالبان کے ساتھ مذاکرات کی قیادت کرنے والے امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد امن مذاکرات و معاہدے کے لیے کابل پہنچ گئے۔

واضح رہے کہ واشنگٹن اور طالبان کے درمیان ممکنہ معاہدے پر بات چیت جاری ہے جس کے تحت امریکی فوج کا حفاظتی ضمانتوں کے بدلے افغانستان سے انخلا ہونا ہے۔

تاہم حالیہ ہفتوں میں امریکا مذاکرات کے حوالے سے خاموش نظر آرہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغان صدر کے ترجمان کے مطابق امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مصالحتی عمل زلمے خلیل زاد نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی۔

مزید پڑھیں: اگر امریکا نے طالبان سے جلد معاہدہ نہ کیا تو تاریخی موقع ضائع ہوسکتا ہے، وزیر خارجہ

صدارتی محل سے جاری بیان کے مطابق امریکی سفیر نے اشرف غنی کو بتایا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوئی مگر وہ طالبان سے تنازع کو کم کرنے کے حوالے سے اتفاق رائے پر پہنچ جائیں گے تاہم انہوں نے اس میں کتنا وقت لگے گا یہ نہیں بتایا۔

زلمے خلیل زاد نے دورہ افغانستان سے قبل پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس دوران انہوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت متعدد حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔

اسلام آباد نے قطر میں طالبان اور واشنگٹن کے درمیان گزشتہ ایک سال سے جاری مذاکرات میں سہولت کار کا کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان میں امریکی حکام کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق 'زلمے خلیل زاد نے تشدد کو کم کرنے کے لیے پاکستان کی کوششوں کو سراہا جس کے ذریعے امریکا-طالبان معاہدے، انٹرا افغان مذاکرات اور مستحکم امن کے لیے جامع اور مستقل جنگ بندی کی راہیں کھلیں گی'۔

امریکا اور طالبان کے درمیان گزشتہ ایک سال سے مذاکرات جاری ہیں جو ستمبر 2019 میں اپنے حتمی مراحل میں داخل ہوگئے تھے تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کی جانب سے مبینہ تشدد کو جواز بناتے ہوئے اس عمل کو 'مردہ' قرار دے دیا تھا۔

گزشتہ ماہ طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ انہوں نے 7 سے 10 روز کے مختصر سیز فائر کی پیشکش کی ہے تاکہ معاہدہ کیا جاسکے تاہم اس پیشکش کی تفصیلات کے حوالے سے دونوں جانب سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔

گزشتہ روز اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کا کہنا تھا کہ زلمے خلیل زاد طالبان کو حملے کم کرنے کے لیے معاہدے پر پاکستان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہاں موجود تھے جو 18 سال سے افغانستان میں جاری جنگ کو ختم کرنے کے لیے امن معاہدے کی جانب پہلا قدم ہے۔

پاکستان کے وزارت خارجہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے طالبان کے ساتھ فوری امن معاہدے کی حمایت کی ہے اور تشدد کو کم کرنے کی واشنگٹن کے مطالبے کو دوہرایا ہے تاہم افغان فوج اور اس کے امریکی اتحادیوں کی جانب سے تشدد نے تشویش پیدا کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: پولیس بیس پر طالبان کا حملہ، 11 افراد ہلاک

امریکا اور سی آئی اے کے تربیت یافتہ افغانستان کے خصوصی فورسز کی بمباری، جس میں کئی شہری بھی جاں بحق ہوئے، پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور چند افغان حکام کی جانب سے مسلسل تنقید کی جاتی رہی ہے جس کے نتیجے میں افغانستان کے انٹیلی جنس سربراہ کو بھی برطرف کیا گیا تھا۔

2018 کے بعد امریکی فضائی حملوں میں اضافے سے تنازع میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

امریکی سینیٹرل کمانڈ کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں امریکی ایئر فورس نے 7 ہزار 423 بم افغانستان میں گرائے جبکہ 2018 میں 7 ہزار 362 بم گرائے گئے تھے۔

2017 میں امریکا نے جنگ زدہ علاقے میں 4 ہزار 361 جبکہ 2017 میں ایک ہزار 337 بم گرائے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024