• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

پی ٹی ایم مظاہرین کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے پر جواب طلب

شائع February 2, 2020
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو ڈپٹی کمشنر اور آئی جی کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر کو ڈپٹی کمشنر اور آئی جی کو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما منظور پشتین کی گرفتاری پر احتجاج کرنے والوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کرنے پر اسلام آباد پولیس اور ضلعی انتظامیہ سے جواب طلب کر لیا۔

پی ٹی ایم اور عوامی ورکرز پارٹی کے 23 کارکنان کی گرفتاری کے خلاف ضمانت سے متعلق درخواست پر ہونے والی سماعت پر عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور اسلام آباد پولیس کے آئی جی کو طلب کیا تھا۔

مزید پڑھیں: پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین پشاور سے گرفتار

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے چیمبر میں مقدمے کی سماعت کی جہاں بابر ستار، نثار شاہ اور سکندر نعیم نے زیر حراست پی ٹی ایم کے کارکنوں کی نمائندگی کی۔

عدالت نے ڈپٹی کمشنر اور آئی جی سے مذکورہ کارکنوں کی گرفتاری سے متعلق ریکارڈ طلب کر لیا۔

عدالت نے حکم دیا کہ دونوں 3 فروری کو صبح 10 بجے ریکارڈ کے ساتھ ذاتی طور پر پیش ہوں اور اس بات کی وضاحت پیش کریں کہ ایف آئی آر میں کس قانون کے تحت بغاوت کی دفعات شامل کی گئیں اور پرامن انداز میں احتجاج کا حق استعمال کرنے والے درخواست گزاروں کو ضمانت پر کیوں رہا نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی ایم کا منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا اعلان

درخواست گزاروں کے وکیل عمار راشدی اور دیگر نے چیف جسٹس کو بتایا کہ درخواست گزاروں کے خلاف مقدمے کا اندراج بدنیتی پر مبنی ہے۔

انہوں نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کی جانب سے زیر حراست ملزمان کی درخواستِ ضمانت مسترد کیے جانے پر بھی اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ قانون کے طے شدہ اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا، یہ انصاف کی فراہمی کی ناکامی اور غیر مسلح پرامن شہریوں کے خلاف غداری کے مقدمے کا اندراج، اختیارات کا غلط استعمال ہے۔

یاد رہے کہ 30 جنوری کو اسلام آباد کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محمد سہیل نے زیر حراست کارکنوں کو ضمانت دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بادی النظر میں یہ دہشت گردی کا مقدمہ ہے کیونکہ دوران احتجاج مظاہرین نے حکومت اور فوج مخالف نعرے بازی کی۔

ایف آئی آر میں اس بات کا ذکر کیا گیا تھا کہ متعدد مظاہرین موقع سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن پولیس حکام نے انہیں سامنے آنے پر پہچان لیا۔

مزید پڑھیں: منظور پشتین کی ضمانت کی درخواست مسترد، ڈی آئی خان جیل منتقل کرنے کا حکم

دلچسپ امر یہ کہ پولیس نے ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی قانون 1997 کی کوئی دفعہ شامل نہیں کی لیکن جج نے درخواست ضمانت کے فیصلے کے آخری پیراگراف میں کہا کہ مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ یہ وہ مقدمہ ہے جس میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ 7 کا پوری قوت کے ساتھ اطلاق ہوتا ہے لہٰذا یہ عدالت اس درخواست ضمانت کا فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔

جج نے حکمنامے میں تحریر کیا کہ مذکورہ ایف آئی آر سے انکشاف ہوتا ہے کہ پاکستان اور اس کی فوج پر الزامات لگائے گئے اور نعرے بازی کی گئی اور اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ عمل یقینی طور پر حکومت کو ڈرانے دھمکانے اور دباؤ ڈالنے کے مترادف ہے اور اسی عمل نے بظاہر عوام میں خوف اور عدم تحفظ کی فضا پیدا کی۔


یہ خبر 2 فروری 2020 بروز اتوار کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024