نیا کورونا وائرس چمگادڑ سے ہی کسی جانور اور پھر انسانوں میں آیا، تحقیق
چین کے شہر ووہان سے شروع ہوکر دنیا کے مختلف ممالک تک پھیل جانے والے 2019 نوول کورونا وائرس کے بارے میں حالیہ دنوں میں سائنسدان یہ خیال ظاہر کرچکے ہیں کہ یہ چمگادڑ سے کسی اور جانور میں گیا اور پھر انسانوں میں منتقل ہوا۔
اب طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع کئی تحقیقی رپورٹس کے مجموعے میں اس خیال کی حمایت کی گئی ہے۔
تحقیقی رپورٹس میں بتایا گیا کہ چین میں پھیلنے والے نئے کورونا وائرس 2000 کی دہائی میں سامنے آنے والے سارز وائرس سے ملتا جلتا نظر آتا ہے اور دونوں کا 80 فیصد جینیاتی کوڈ شیئر ہوتا ہے اور یہ دونوں چمگادڑوں سے آگے بڑھے۔
پہلی تحقیق ووہان انسٹیٹوٹ آف وائرلوجی کے ماہرین کی قیادت میں ہوئی جس میں 7 مریضوں سے وائرس نمونے حاصل کیے گئے جن میں شدید نمونیا کے کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
ان میں سے 6 مریض ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ میں کام کرتے تھے جس کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہاں سے یہ وائرس دسمبر میں پھیلنا شروع ہوا۔
ان مریضوں کے 70 فیصد نمونے لگ بھگ یکساں تھے اور ان کا جینیاتی سیکونس سارز سے 79.5 فیصد تک ملتا جلتا تھا۔
تحقیق میں شامل سائنسدانوں نےبھی دریافت کیا کہ نوول کورونا وائرس چینی چمگادڑوں کی نشل میں پھیلنے والے دیگر کورونا وائرسز جیسا تھا اور 95 فیصد جینیاتی کوڈ میچ کرگیا۔
انہوں نے 7 وائرس نمونوں کا تجزیہ کرنے کے بعد ثابت کیا کہ سارز اور نیا کورونا وائرس پھہپھڑوں میں موجود ایک ہی ریسیپٹر اے سی ای 2 میں جگہ بناتے ہیں اور اسی وجہ سے مریضوں میں نمونیے جیسی علامات سامنے آتی ہیں۔
دوسری تحقیق میں شنگھائی کی فودان یونیورسٹی اور چائنیئز سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن نے ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ کے ایک 41 سالہ مریض کا معائنہ کیا جو 26 دسمبر کو ووہان ہاسپٹل میں سانس کے مرض اور بخار کی علامات کے ساتھ آیا تھا۔
اس شخص میں موجود وائرس کے تجزیے سے ثابت ہوا کہ یہ سارز جیسے کورونا وائرسز سے 89 فیصد تک ملتا جلتا ہے ۔
چونکہ سارز اور 2019 نوول کورونا وائرس انسانی خلیات میں ایک ہی طریقے سے داخل ہوتے ہیں تو ان تحقیقی رپورٹس میں شامل سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ سارز کا ممکنہ طریقہ علاج نئے کورونا وائرس کے لیے بھی شاید کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔
سارز یا اس نئے کورونا وائرس کا کوئی مخصوص طریقہ علاج یا ویکسین موجود نہیں مگر سائنسدان سارز کے لیے ادویات اور پری کلینیکل ویکسینز پر کافی عرصے سے کام کررہے ہیں اور ممکنہ طور پر اس نئے وائرس پر کام کرسکتے ہیں۔
تاہم فی الحال یہ صرف خیال ہے اور اس کی تصدیق ہونا باقی ہے۔
تاہم دونوں تحقیقی رپورٹس میں اب تک یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ کس جانور نے نئے کورونا وائرس کو چمگادڑ سے انسانوں تک پہنچانے کا کام کیا، تاہم پہلی تحقیق میں اس حوالے سے چند اشارے دیئے گئے ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ جس طرح یہ نیا کورونا وائرس اے سی ای 2 ریسیپٹر میں جگہ بناتا ہے، اسی طرح چمگادڑ، خنزیر اور مشک بلاﺅ میں بھی یہ ریسیپٹر موجود ہوتا ہے۔
اس معلومات اور دیگر چمگادڑوں میں موجود کورونا وائرسز سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ 3 جاندار ممکنہ طور پر اسے انسانوں تک پہنچانے کے لیے عارضی میزبان ہوسکتے ہیں۔
تاہم اس کی تصدیق اسی وقت ممکن ہے جب اس مارکیٹ میں فروخت ہونے والے جانوروں اور اس علاقے میں موجود چمگادڑوں کے ڈی این اے نمونوں کو جمع کرکے ان کا تجزیہ کیا جائے۔
اب تک اس وائرس کے نتیجے میں 420 سے زائد ہلاکتیں اور 20 ہزار سے زائد افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں۔