سپریم کورٹ کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی کو ہٹانے کا حکم
سپریم کورٹ نے کراچی میں غیرقانونی تعمیرات، تجاوزات اور زمینوں پر قبضے و دیگر معاملات سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ظفر احسن کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دے دیا۔
عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ حکم سامنے آیا اور عدالت نے کہا کہ وزیر اعلی سندھ تمام معاملات خود دیکھیں اور کسی ایماندار افسر کو تعینات کیا جائے۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بینچ نے کراچی رجسٹری میں کراچی سرکلر ریلوے، غیرقانونی تعمیرات، تجاوزات، زمینوں پر قبضے و دیگر معاملات پر سماعت کی، اس دوران وفاقی و سندھ حکومت کے نمائندے، سیکریٹری ریلوے، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری بلدیات، میئر کراچی، کمشنر کراچی سمیت دیگر حکام پیش ہوئے۔
مزید پڑھیں: کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا کام 6 ماہ سے تعطل کا شکار
عدالت کی سماعت سے قبل سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کے باہر مختلف افراد جمع ہوئے اور اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے احتجاج کیا، جس کے بعد چیف جسٹس کے حکم پر عدالت عظمیٰ کے اسٹاف نے ان کی درخواستیں جمع کیں۔
ریلوے کی زمین پر بڑی عمارتیں ایک ہفتے میں گرائیں، چیف جسٹس
بعد ازاں کیس سرکلر ریلوے اور لوکل ٹرین کی بحالی سے متعلق معاملے کی سماعت کی ہوئی۔
سماعت میں چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ سرکلر ریلوے اور لوکل ٹرین کی بحالی سے متعلق حکم پر عمل درآمد ہوا کہ نہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے 5 ستمبر 2019 کا حکم پڑھ کر سنایا۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ عدالت نے ایک ماہ میں سرکلر اور لوکل ٹرین بحال کرنے کا حکم دیا تھا، ہم نے اس حوالے سے بریفنگ دی تھی، یہ پروجیکٹ اب سی پیک میں شامل ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم فریم ورک مکمل کرکے وفاقی حکومت کو 3 دفعہ بھیج چکے ہیں، جس پر سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ ہم تاخیر نہیں کر رہے جو ذمہ داری ہے پوری کر رہے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت سرکلر ریلوے چلانا ہی نہیں چاہتی۔
عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ابھی وزیراعلیٰ سندھ اور سیکریٹری ریلوے کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کرتے ہیں، میئر کراچی اور کمشنر کراچی کو بھی توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چلیں میرے ساتھ میں بتاتا ہوں کہ کیسے کام ہوتا ہے، آپ لوگ ذمہ داری پوری نہیں کرنا چاہتے، اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ سیکریٹری (ریلوے) غلط بیانی کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تجاوزات کا خاتمہ اور زمین سندھ حکومت کے حوالے کرنا ریلوے کی ذمہ داری تھی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا بھی یہی عالم ہوگا، آج کچھ کہہ رہے ہیں، کل کچھ اور کہیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لوگ صرف اپنا سیاسی ایجنڈا اور سیاسی مصلحت کی وجہ سے یہ نہیں کررہے، اسی دوران عدالت میں موجود وکیل بیرسٹر فیصل صدیقی نے بتایا کہ امیروں کی عمارتیں نہیں گرائی گئیں بلکہ صرف غریبوں کو بے گھر کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: سرکلر ریلوے کے متاثرین کو محکمے کی زمین پر گھر بنا کر دیں گے، شیخ رشید
فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ 6 ہزار 500 لوگوں کو بے گھر کردیا گیا ہے، بڑے بڑے پلازے نہیں گرائے جارہے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کس نے اختیار دیا تھا کہ جاکر قبضہ کریں۔
ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ نہیں گرائیں گے ان کا مفاد ہی اسی میں ہے، جائیں ابھی جاکر بلڈوزر چلادیں سب غیرقانونی عمارتوں پر (لیکن) آپ لوگ، لوگوں کو سہولت ہی نہیں دینا چاہتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حسن اسکوائر پر دیکھیں کیا کچھ بن گیا ہے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے سیکریٹری ریلوے کی سخت سرزنش کی اور ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے بابو کی طرح بات نہ کریں، کہانیاں مت سنائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے نہیں چلے گا ہمیں صرف یہ بتائیں کہ سرکلر ریلوے کیوں نہیں چلا، اس پر سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ سندھ حکومت رکاوٹ ہے، جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے؟
اسی دوران سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ معاہدے کے مطابق اب سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی وزیراعلیٰ کو بلا کر پوچھتے ہیں کہ کس کی ذمہ داری ہے۔
عدالت نے سیکریٹری ریلوے سے پوچھا کہ آپ بتائیں سرکلر ریلوے کی زمین آپ نے سندھ حکومت کو دے دی؟ جب آرڈر پاس ہوا تھا تو ساری چیزیں موجود تھیں آپ ان مسائل کے بارے میں نہیں جانتے تھے؟
جس پر سیکریٹری ریلوے نے عدالت میں کہا کہ گرین لائن بن گئی ہے لیکن سرکلر ریلوے نہیں چل سکتی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ برسوں سے صرف اجلاس چل رہے ہیں لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکالا گیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ایک اور معاملے پر کہا کہ میئر کہاں ہیں؟ ذرا قریب آجائیں یہ شہر تو آپ کی ذمہ داری ہے، ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جیلانی اسٹیشن کو ازسر نو ڈیزائن کریں اور بحال کریں۔
سماعت کے دوران عدالتی ریمارکس پر کمشنر کراچی نے کہا کہ ہمارے پاس کچھ نہیں جو بھی ہے ریلوے کے پاس ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دوسرے پر الزام لگائیں گے تو کچھ نہیں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کیلئے انسداد تجاوزات آپریشن کا فیصلہ
عدالت عظمیٰ نے ریمارکس دیے کہ ریلوے کی زمین پر بڑی بڑی عمارتیں بن گئی ہیں جاکر ایک ہفتے میں گرائیں، جس پر کمشنر نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے حکم امتناع دے رکھے ہیں۔
اس پر عدالت نے کمشنر کراچی سے کہا کہ آپ جاکر گرائیں اور کہیں کہ سپریم کورٹ کا حکم ہے۔
بعد ازاں عدالت نے ایکنک کی جانب سے سرکلر ریلوے سندھ حکومت کو دینے سے متعلق دستاویز کی کاپی طلب کرلی اور سیکریٹری ریلوے کو آدھے گھنٹے کی مہلت دی۔
الہ دین پارک کے قریب زیرتعمیر عمارت گرانے کا حکم
دوسری جانب عدالت عظمیٰ میں الہ دین پارک کے قریب زیرتعمیر عمارت اور دیگر غیر قانونی تعمیرات کے معاملے پر بھی سماعت ہوئی۔
راشد منہاس روڈ پر الہ دین پارک کے قریب زیر تعمیر عمارت پر حکم امتناع سے متعلق درخواست پر عدالت نے استفسار کیا کہ راشد منہاس روڈ پر 2 ایکڑ زمین غیرملکی کو کیسے دی جاسکتی ہے؟ جس پر کمشنر کراچی نے بتایا کہ ہم نے عمارت کا کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سرکاری زمین کو لیز کرنے کا طریقہ کار ہوتا ہے، تاہم دو ایکڑ زمین دینے کا تمام عمل غیرقانونی ہے آپ (درخواست گزار) کے پاس کوئی ثبوت نہیں کہ زمین آپ کو دی گئی ہے۔
واضح رہے کہ مذکورہ زمین 2010 میں ہورٹی کلچر کے لیے دی گئی تھی۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست مسترد کرتے ہوئے زیر تعمیر عمارت گرانے کا حکم دے دیا۔
آپ کسی کے لاڈلے ہوں گے مگر ہمارے نہیں، چیف جسٹس
اسی دوران عدالت میں غیرقانونی تعمیرات کا معاملہ آیا جس پر عدالت نے کہا کہ ایڈووکیٹ جنرل آپ ہمارا حکم نامہ مزید پڑھیں۔
چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سے پوچھا کہ کیا شہر میں دیگر غیرقانونی تعمیرات ختم ہوگئیں؟ بتائیں، پارکوں، کھیل کے میدانوں کی کیا صورتحال ہے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو کہا کہ آپ آرٹیکل 140 اے پڑھیں، کیا یہ سندھ میں لاگو نہیں ہوتا؟
ساتھ ہی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ سامنے آجائیں، ان کے سامنے آنے پر عدالت نے پوچھا کہ بتائیں، بلدیات کو فعال کیوں نہیں کر رہے، بلدیاتی نظام کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں۔
اس پر چیف سیکریٹری نے کہا کہ سندھ حکومت نے بیشتر اختیارات میئر کراچی کو ہی دے رکھے ہیں، مئیر کراچی کا یہ کہنا غلط ہے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے سارے سیکریٹری ان کا ہی تو کام کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی کے سیوریج کے نظام کو کون دیکھے گا؟ آپ ملین ڈالر لگاتے ہیں کیا آپ کا پیسہ بھی لوگوں پر لگا؟ سارا پیسہ تو آپ لوگوں کی جیبوں میں جاتا ہے۔
انہوں نے چیف سیکریٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سامنے ماسٹر نہ بنیں، آپ پاکستان کے ایک ملازم ہے، اس طرح نہ کریں، ملک کا آئین آپ لوگوں پر بھی عائد ہوتا ہے، قانون پر عمل کرنا آپ لوگوں پر بھی عائد ہوتا ہے۔
بعد ازاں چیف جسٹس نے کہا کہ میئر کراچی کی کہانی بھی نہیں سنیں گے، میئر کراچی گیت سناتے ہیں مگر نہیں سنیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ لوگ سوٹ پہن کر دفاتر میں بیٹھ جاتے ہیں، ساتھ ہی چیف سیکریٹری سے مکالمہ کیا کہ یہ بتائیں آخری بار کون سی سڑک کا دورہ کیا۔
ریمارکس کو جاری رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ، لوگوں سے مذاق کر رہے ہیں، آپ کسی کے لاڈلے ہوں گے مگر ہمارے نہیں۔
ملک کا آدھا پیسہ تو تنخواہوں میں نکل جاتا ہے، چیف جسٹس
عدالت عظمیٰ کی کراچی رجسٹری میں سماعت کے دوران شہر کی اصل حالت میں بحالی اور تجاوزات کے خاتمے کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔
اس دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ بتائیں شہر کو خوبصورت کیوں نہیں بتاتے آپ لوگ؟ ساتھ ہی ایڈووکیٹ جنرل کو آئین کا آرٹیکل 140 پڑھنے کا حکم دیا، جس کے بعد یہ پوچھا کہ جو کچھ آپ لوگ کررہے ہیں یہ آئین کی خلاف ورزی نہیں؟
ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آرٹیکل 6 کا کیس بنتا ہے آپ لوگ آئین توڑ رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میئر کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سوال کا جواب دیں، میئر کیوں جواب نہیں دیتے؟ آگے آئیں میئر صاحب آپ کی انتظامی ذمہ داری ہے۔
اس پر سیکریٹری بلدیات نے کہا کہ یہ لوکل گورنمنٹ اور بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اختیارات نہ ہونے کا میئر کا دعوی درست نہیں، بلدیاتی اداروں کے پاس مکمل مالی اختیارات ہیں۔
سیکریٹری بلدیات کی بات پر میئر کراچی نے عدالت کے سامنے کہا کہ آپ نے سندھ حکومت کو متنازع معاملات پر اجلاس کا حکم دیا تھا، تاہم متعدد یاد دہانیوں کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی، ہمیں 7 ارب روپے تنخواہوں اور پینشن کے ملتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ملک کا آدھا پیسہ تو تنخواہوں میں نکل جاتا ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ نے سڑکیں بنائی ہیں؟ کہاں سڑک بنائی ہے؟ جس پر میئر کراچی نے کہا کہ ناظم آباد میں چھوٹی گلیوں کی سڑکیں بنائیں ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہاں کوئی چھوٹی گلیاں نہیں ہیں، ریکارڈ پیش کریں کتنی سڑکیں بنائی ہیں؟
اس دوران عدالت میں موجود ایک خاتون نے کہا کہ ایک ہی سڑک تین دفعہ توڑ کر بنادی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے شہر کے لوگ کہہ رہے ہیں کچھ نہیں بنا۔
جس پر میئر کراچی نے کہا کہ میں ریکارڈ پیش کردوں گا، اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ تاکہ آپ بعد میں لائیں گے ریکارڈ، ابھی بتائیں آپ نے شہر کے لیے کیا کیا ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کبھی لیاری، منگھوپیر، پاک کالونی، لالو کھیت اور ناظم آباد گئے ہیں؟
کراچی، پاکستان کا نگینہ ہوا کرتا تھا، مفاد پرستی میں اس کا کیا حشر کردیا، عدالت
سماعت کے دوران عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ وزیراعلیٰ سے رپورٹ لے کردیں کہ کام کیوں نہیں ہورہا، جس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ کے ایم سی کے پاس ریونیو جنریشن کے کئی ادارے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم کئی بار کہہ چکے ہیں، تاہم میئر کے پاس کون سے ادارے نہیں؟ کے ایم سی کے پاس چارج پارکنگ ہے اور دیگر محکمے ہیں۔
اس پر جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ چارج پارکنگ وصول کرنے والے کی تنخواہ بھی نہیں بنتی، جہاں کروڑوں روپے آتے ہیں وہ محکمے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ ان کے پاس تو بجلی کے بل دینے کے پیسے تک نہیں، ہم نے پیسے دلوائے ورنہ سارا کراچی کالا ہوجاتا۔
اسی دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر میئر سے کام نہیں لینا تو ان کو گھر بھیج دیں؟ کیوں رکھا ہوا ہے؟
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں جو کچھ ہورہا ہے یہ کیوں ہونے دیا؟ یہ کوئی گاؤں نہیں ہے، کراچی کبھی پاکستان کا نگینہ ہوا کرتا تھا (لیکن) آپ لوگوں نے مفاد پرستی میں اس کا کیا حشر کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پورے کے پورے پارکس، قبرستان اور رفاہی پلاٹس غائب ہوگئے ہیں، کراچی کو چلانا ہے تو چلا کر دکھائیں، طوطا کہانیاں مت سنائیں یہاں بیوروکریٹ اس طرح باتیں نہیں کرتا، کام کرتا ہے۔
دوران سماعت پولیس کی نمائندگی کے لیے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن بھی عدالت میں موجود تھے۔
ان کی موجودگی میں عدالت نے پوچھا کہ تجاوزات کے خاتمے کے حوالے سے پولیس کی کیا حکمت عملی ہوگی؟ جس پر غلام نبی میمن نے جواب دیا کہ ہمارا کام سیکیورٹی فراہم کرنا ہے، حکومت جب کہے گی ہم سیکیورٹی دیں گے۔
ایڈیشنل آئی جی نے جواب دیا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن میں پولیس اپنا کردار ادا کررہی ہے۔
آپ نے لوگوں کو کیا کیا خواب دکھائے ہوئے ہیں، عدالت
تجاوزات کے خاتمے اور شہر کی اصل شکل میں بحالی سے متعلق معاملے کی سماعت میں میئر کراچی نے کہا کہ جب میں میئر بنا میں نے فائل دیکھی تھی جس میں ساری سی این جی بسیں تھیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو لاہور اور اسلام آباد والا کام نہیں کرنا چاہیے تھا، صرف ایک لائن مختص کردینی چاہیے تھی گرین لائن بس کے لیے۔
جس پر عدالت کو جاپانی کمپنی جائیکا کے بارے میں بتایا گیا، جس پر عدالت نے کہا کہ جائیکا کی بات مت کریں، جاپان والا کام نہیں چلے گا ہمیں یہاں اپنی زمین دیکھنی ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے گراؤنڈ میٹنگ کی ہے؟ ایک بس کے لیے اتنا بڑا انفرا اسٹرکچر بنادیا آپ نے؟ پورے پاکستان میں یہی صورتحال پیدا کی ہوئی ہے آپ لوگوں نے؟ ہمارے لیے کام کررہے ہیں یا کسی اور کے لیے؟
عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ ٹریفک انجینئرنگ کا مسئلہ ہے، جس پر حکام نے بتایا کہ صابری نہاری تک بسیں چلانے کے لیے ایک سال کا وقت ہے، اس پر عدالت نے پوچھا کہ بسیں صابری نہاری پر کھڑی ہوں گی؟
اس پر حکام نے بتایا کہ نہیں وہاں سے گھوم کر واپس سرجانی جائیں گی، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم نے ورثے کی عمارت کا بھی اس میں خیال رکھا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے لوگوں کو کیا کیا خواب دکھائے ہوئے ہیں۔
عدالت عظمیٰ کا کڈنی ہل پارک مکمل طور پر بحال کرنے کا حکم
اسی کیس کی سماعت کے دوران ہل پارک کے اطراف تجاوزات کے خاتمے کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔
جس پر عدالت نے کڈنی ہل پارک کو مکمل طور پر بحال کرنے کا حکم دے دیا، ساتھ ہی عدالت نے باغ ابن قاسم میں بنائی گئی کمرشل بلڈنگ کا ملبہ ہٹانے کا حکم بھی دے دیا۔
دوران سماعت میئر کراچی نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ کراچی کی 60 فیصد زمین، وفاق اور 30 فیصد سندھ حکومت کے پاس ہے جبکہ صرف 10 فیصد میرے پاس ہے، جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پھر آپ الیکشن جیت کر آئے کیوں کچھ کر ہی نہیں سکتے۔
اس پر میئر کراچی نے کہا کہ اختیارات ہی نہیں ہیں میرے پاس، میرے اختیارات لے لیے گئے ہیں، جس پر عدالت نے کہا کہ آپ جاکر چیلنج کریں، اس پر میئر کراچی وسیم اختر نے جواب دیا کہ جی عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔
سماعت کے دوران ہی شہر قائد میں ٹریفک کے معاملے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورا شہر جام پڑا ہوا ہے، جس پر حکام نے بتایا کہ سرجانی سے گرومندر تک 2 میگا پروجیکٹ بن رہے ہیں، جس میں ایک گرین لائن ہے اور دوسرا منصوبہ بحریہ سے ٹاور تک آنا تھا۔
اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ بحریہ کون ہے؟ جس پر حکام نے جواب دیا کہ بحریہ ٹاون نے اعلان کیا تھا۔
اسی دوران چیف جسٹس نے پوچھا کہ کراچی میں ہزار، ہزار بسیں آئیں ہیں، ان کا افتتاح ہوتا ہے لیکن کہاں جاتی ہیں یہ بسیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ میرے سامنے اتنا بڑا افتتاح ہوا تھا کہاں گئی وہ بسیں دوسرے دن ہی وہ بسیں غائب تھیں، کیا وہ بسین خود سے کہیں چلی گئیں، اتنی بڑی بڑی بسیں تھیں، جس پر حکام نے کہا کہ وہ کے ایم سی کے پاس ہیں، اس پر چیف جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ بتائیں کس کو عطیہ کردیں گئیں۔
اس پر حکام نے بتایا کہ وہ کنٹریکٹ پر لی گئی تھیں وہ کنٹریکٹر سندھ ہائی کورٹ چلا گیا، ساتھ ہی میئر کراچی نے کہا کہ باقی بسیں ورک شاپ اور پارکنگ میں پڑی ہیں، اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ لوگوں سے ٹکٹ نہیں لیتے تھے کیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے میئر کراچی سے پوچھا کہ پاکستان جب بنا تھا کراچی کا ٹرانسپورٹ کس کے پاس تھا، جس پر وسیم اختر نے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ساری ڈبل ڈیکر بسیں چند سالوں میں ختم ہوگئیں۔
طویل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ سے کہیں زیبرا کراسنگ، فٹ پاتھوں کی صفائی، بالائی گزرگاہیں (اوور ہیڈ برجز) بنائیں۔
پوری قوم کو دکاندار بنادیا ہے، اب تو جوتے تک یہاں نہیں بن رہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی زیبرا کراسنگ پر لینڈ کروزر کھڑی کردے تو آپ ہٹا نہیں سکتے، پارکنگ کی جگہوں پر تو دکانیں بنی ہوئی ہیں اور ایس بی سی اے ساتھ ملی ہوئی ہے، دکانیں ایسے بن رہی ہیں ان کی بھرمار ہے جبکہ اس میں درآمدی چیزیں فروخت ہورہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پوری قوم کو دکاندار بنادیا ہے اب تو جوتے بھی نہیں بن رہے بلکہ جوتے تک چین سے آرہے ہیں، یہاں برتن تک نہیں بن رہے، سوئی لینے جائیں تو وہ بھی چائنا کی ہے، یہ ملک کس طرف جارہا ہے؟ ہم کیا کررہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ کون کام کرے گا؟ کوئی مریخ سے آئے گا کیا؟ مٹی، دھواں گرد وغبار، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں یہ حال ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ سائٹ ایریا تو جاکر دیکھیں، کیا حال ہے، آپ چاہتے ہیں صنعتیں کام کریں تو انہیں سہولت بھی دیں۔
غیر قانونی تعمیرات کراچی کے لیے تباہی ہیں، عدالت
سماعت کے دوران جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ ناظم آباد میں ہرگلی، محلے میں پیسے لے کر پورشن بن رہے ہیں، ساتھ ہی ڈی جی ایس بی سی اے سے مکالمہ کیا کہ کیا میرے ساتھ ابھی جا کر دیکھیں گے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ سرکاری نمبر پلیٹ کی گاڑیاں کھڑی کرکے غیر قانونی تعمیرات کی جا رہی ہیں، ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ مکمل طور پر کراچی شہر کے لیے تباہی ہے۔
دوران سماعت بوٹ بیسن کے اطراف پارک کی زمین پر عمارتیں بنانے کا معاملہ زیر غور آیا تو ایک خاتون شہری نے کہا اس جگہ پر کئی عمارتیں بنائی گئی ہیں، میں آپ کو ماسٹر پلان کے تحت نقشے بھی فراہم کرسکتی ہوں۔
اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کے ڈی اے کے پاس کوئی الاٹمنٹ ہے، بینظیر بھٹو پارک کا؟ جس پر وکیل کے ڈی اے نے بتایا کہ بورڈ آف ریونیو نے یہ زمین الاٹ کی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کے ڈی اے کی زمین کی الاٹمنٹ پر بورڈ آف ریونیو کیسے الاٹمنٹ کر سکتا ہے۔
اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے بینظیر بھٹو پارک کی جگہ پر عمارت بنانے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور عمارت کے مالک اخلاق میمن کو نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ بتایا جائے کہ پارک کی جگہ پر عمارت کی تعمیر کیسے ہوئی۔
ساتھ ہی عدالت میں سندھی مسلم سوسائٹی میں غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ بھی زیر غور آیا، جہاں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھی مسلم سوسائٹی میں چائنا کٹنگ کر دی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پوری شاہراہ کشمیر پر ہی چائنا کٹنگ کردیں، جس پر بورڈ آف ریونیو نے کہا کہ یہ زمین سندھی مسلم سوسائٹی نے دیگر لوگوں کو الاٹ کی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی شاہراہ فیصل الاٹ کردے تو کیا کریں گے، یہاں سب کچھ الاٹمنٹ کرنے کے لیے لیٹر جاری ہوجاتا ہے۔
چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سندھی مسلم سوسائٹی میں نالے کی زمین پر کیسے عمارت بن گئی۔
اس پر عدالت عظمیٰ نے شاہراہ قائدین نالے پر پیٹرول پمپ اور دیگر تجاوزات فوری ختم کرنے حکم دے دیا۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے مکالمہ کیا کہ آپ کا یہ محکمہ بہت کرپٹ ہے، جس پر انہیں ایڈووکیٹ جنرل نے کہا میں تسلیم کرتا ہوں مگر کچھ ایماندار افسران بھی ہیں۔
عدالت کا حکم
علاوہ ازیں عدالت نے ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو فوری طور پر ہٹانے کا حکم دے دیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چیف سیکریٹری، ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول کو آج ہی ہٹائیں، یہ تاثر عام ہے کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی پیسے لے کر تعمیرات کراتی ہے، وزیراعلی سندھ خود ذاتی طور پر اس سنگین معاملے کو دیکھیں۔
ساتھ ہی عدالت نے چیف سیکریٹری کو ایس بی سی اے کی ازسرنو ترتیب کا حکم دیا اور کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ تمام کرپٹ اور نااہل افسران کو فارغ کریں۔
عدالت نے کہا کہ جب تک نیا ڈی جی نہ لگے چیف سیکریٹری خود معاملات کنٹرول کریں۔
عدالت کے باہر بحریہ ٹاؤن و دیگر ہاؤسنگ سوسائٹی کے متاثرین کا احتجاج
مذکورہ معاملات کی سماعت سے قبل عدالت عظمیٰ کے باہر بحریہ ٹاؤن، سندھ گورنمنٹ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے الاٹیز نے احتجاج کیا۔
متاثرین نے کہا کہ سندھ گورنمنٹ کوآپریٹو سوسائٹی 1970 میں بنی، 15 ہزار سے زائد الاٹیز ہیں اس کے لیکن ابھی تک پلاٹ کا قبضہ نہیں ملا، ہم نے تمام واجبات ادا کردیے ہیں، تاہم ہمیں بتایا گیا ہے کہ آدم جوکھیو سمیت تین افراد نے پلاٹوں پر قبضہ کیا ہوا ہے، لہٰذا ہماری چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ پلاٹ پر سے قبضہ واگزار کرایا جائے۔
دیگر متاثرین نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن نے ہمیں سہانے خواب دکھا کر پھسایا، بحریہ ٹاؤن کے مالک اگر ہمارے معاملات حل نہیں کریں گے تو ہمارا احتجاج وسیع ہوگا۔
متاثرین نے کہا کہ 35 فیصد اضافی کٹوتی غیر قانونی غیر آئینی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے حکم کے تحت ہمیں ریفنڈ بھی نہیں کیے جارہے۔