• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے 3 ماہ میں فعال کرنے کا حکم

شائع February 12, 2020
چیف جسٹس نے شیخ رشید کو ہدایت کی کہ  سرکلر ریلوے کی زمین آپ حاصل کر لیں اور سرکلر ریلوے کو بھی آپ چلائیں —تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس نے شیخ رشید کو ہدایت کی کہ سرکلر ریلوے کی زمین آپ حاصل کر لیں اور سرکلر ریلوے کو بھی آپ چلائیں —تصویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے حکومت کو کراچی سرکلر ریلوے منصوبہ 3 ماہ میں فعال کرنے اور مین لائن ون (ایم ایل-1) منصوبہ 2 سال کے عرصے میں مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ میں ریلوے خسارہ کیس اور کراچی سرکلر ریلوے کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

آج کی سماعت میں عدالت عظمٰی نے وزیر ریلوے شیخ رشید احمد اور وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کو طلب کررکھا تھا، دوران سماعت شیخ رشید روسٹرم پر آئے تو ان کا چیف جسٹس سے مکالمہ ہوا۔

خیال رہے کہ کراچی رجسٹری میں اس کیس کی گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے کمشنر کراچی کو حکم دیا تھا کہ ریلوے کی زمین پر تعمیر ہونے والی عمارتوں کو گرادیا جائے۔

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ لوگ، لوگوں کو سہولت ہی نہیں دینا چاہتے، جائیں ابھی جاکر تمام غیر قانونی عمارتوں پر بلڈوزر چلادیں۔

جس پر آج ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ کی جانب سے ریلوے کی زمین سے تجاوزات ختم کرنے کے حکم کے تناظر میں وزیر ریلوے نے چیف جسٹس سے کہا کہ میں آپ کا شکرگزار ہوں 12 دن میں بہت کام ہوا ہے بلکہ پوری قوم آپ کی شکر گزار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا کراچی سرکلر ریلوے کی زمین 15 روز میں واگزار کروانے کا حکم

جس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ یہ قوم کا منصوبہ ہے کسی کی ذات کے لیے نہیں ہے۔

شیخ رشید نے بتایا کہ رات کو بھی آپریشن کیا ہے سرکلر ریلوے میں بہت مزاحمت سامنے آرہی ہے، خواتین مزاحمت کررہی ہیں۔

شیخ رشید نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی اراضی خالی کرکے عدالت کے پاس ہی آئیں گے اس کے ساتھ ہی انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ مہربانی ہوگی فنڈز فراہمی کی ہدایت کردیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اگر لاہور یا کراچی میں ریلوے کی 4 سے 5 پراپرٹیز بیچ دیں ریلوے کا مالی نظام بہتر ہوجائے گا، ہم چاہتے ہیں کہ عوام کی بھلائی کے لیے کچھ ہو۔

جس پر شیخ رشید نے کہا کہ کراچی کی ایک پراپرٹی بیچنے سے بھی کام ہوسکتا ہے مگر سپریم کورٹ نے بیچنے سے روک رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی سرکلر ریلوے کی سنہری یادیں

ریلوے کی جانب سے سپریم کورٹ کی ہدایت پر جمع کروائی گئی رپورٹ کے تناظر میں چیف جسٹس نے شیخ رشید سے کہا کہ آپ نے جو رپورٹ جمع کروائی ہے اس میں سب کچھ ہے، سوائے کراچی سرکلر ریلوے کو شروع کرنے کی تاریخ کے، جس پر شیخ رشید نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے شروع کرنے سے متعلق ٹائم لائن نہیں دے سکتے۔

چیف جسٹس نے وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے استفسار کیا کہ کراچی سرکلر کو سی پیک میں شامل کیوں کیا گیا جس پر انہوں نے بتایا کہ معاشی صورتحال کی وجہ سے اس منصوبے کو سی پیک میں شامل کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ چین سے تو کراچی سرکلر کے لیے مہنگا قرض ملے گا۔

سرکلر ریلوے سندھ حکومت کو دیا تو اس کا بھی کراچی ٹرانسپورٹ جیسا حال ہوگا، چیف جسٹس

وزیر ریلوے نے بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے لیے گزشتہ رات عمارتیں گرائیں ہیں جس میں سندھ حکومت بھی تعاون کررہی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی سرکلر کو سندھ حکومت کو کیوں دے رہے ہیں؟ کراچی سرکلر کو سندھ حکومت کے حوالے کیا تو اس کا حال بھی وہی ہوگا جو کراچی کی ٹرانسپورٹ کا ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: ایم ایل ون منصوبے کیلئے 2 فیصد شرح سود پر 9 ارب ڈالر قرض لینے کی کوششیں

چیف جسٹس نے شیخ رشید کو ہدایت کی کہ سرکلر ریلوے کی زمین آپ حاصل کر لیں اور سرکلر ریلوے کو بھی آپ چلائیں۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ریلوے وفاقی حکومت کا سبجیکٹ ہے، کیا آپ آئین میں ترمیم کرنے جا رہے ہیں، آئین کے خلاف کوئی کام نہ کریں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم تو چاہ رہے تھے کہ سرکلر ریلوے کے بعد کراچی ٹرام بھی چلائیں، آپ کو یاد ہے کراچی میں پہلے محمد علی نامی کمپنی ہوتی تھی، نہ ہم سو رہے نہ آپ سو رہے ہیں، اپنے لوگوں سے ڈیلیور کرائیں۔

کام شروع نہ ہوا تو دوبارہ قبضہ ہوجائے گا، جسٹس اعجاز الاحسن

بعدازاں سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کراچی سرکلر ریلوے پر ایک ماہ میں آپریشنل سرگرمیاں شروع کی جائیں اور 3 ماہ میں سرکلر ریلوے کو مکمل آپریشنل کر دیا جائے، جس پر اسد عمر نے عدالت کو کہا کہ ایسا نہیں ہو پائے گا، انفرا اسٹرکچر بننے میں وقت لگے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو پھر نہ کرنے والی بات ہے، چیزوں کو طول نہ دیں، کراچی سرکلر ریلوے کی اراضی محفوظ بنانے کا حل یہی ہے کہ فوری انفرا اسٹرکچر بچھا دیا جائے۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی سرکلر ریلوے کے حقوق مانگ لیے

چیف جسٹس نے کہا کہ چین نے 10 دن میں ایک ہزار بستروں کا ہسپتال مکمل کر لیا، اس ضمن میں اسد عمر نے بتایا کہ ہم چائنیز کمپنی کو ہی ٹهیکہ دینا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تو چائنیز کمپنی یہ منصوبہ 2 ماہ میں مکمل کرے۔

اسد عمر نے عدالت کو بتایا کہ میں رات 10 بجے کام ختم کر کے گهر پہنچتا ہوں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بهی رات کو ایک بجے گهر جاتے ہیں۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ یہ پراجیکٹ 15 سال سے زیر التو ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ دیں کام نہیں ہو گا، ہر کام ممکن ہے اگر کیا جائے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نہ ہونے والی بات کررہے ہیں، ایسا ہوا تو منصوبہ تاخیر کا شکار ہوجائے گا، لوگ منتظر ہیں کہ آپ ڈیلیور کریں۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ریلوے والے اپنے لوگوں کو سونے نہ دیں بلکہ انہیں کام کرنے کا حکم دیں۔

یہ بھی پڑھیں: سرکلر ریلوے کے متاثرین کو محکمے کی زمین پر گھر بنا کر دیں گے، شیخ رشید

جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ قبضہ ختم کروانے کے بعد کام شروع نہ ہوا تو دوبارہ قبضہ شروع ہوجائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ حکومت سے کچھ نہیں ہوگا، آپ نے بات کرنی ہے تو کرلیں، شیخ رشید صاحب یہ منصوبہ آپ ہی چلائیں گے اور کوئی نہیں چلا سکتا، یہ معاملہ آپ کا ہے آپ خود حل کریں۔

اسد عمر نے عدالت سے کہا کہ سرکلر ریلوے کا منصوبہ 2 سال پہلے سندھ حکومت کو دے دیا گیا تھا، منصوبہ شروع کرنے کا سہرا سندھ حکومت کے سر ہے، سندھ حکومت سے بھی پوچھ لیں۔

چیف جسٹس نے وزیر ریلوے کو مخاطب کرتے ہوئے کہ کہ شیخ صاحب منصوبے کا فیتہ کب کاٹیں گے؟

مزید پڑھیں: 'کراچی سرکلر ریلوے پر کام رواں سال شروع ہوگا'

اسد عمر نے کہا کہ اس وقت ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں، اس منصوبے کے لیے بڑی فنانسنگ اصل معاملہ ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ منصوبے کے لیے جائیکا جاپان والے آپ کو بار بار کہہ رہے تھے، اسد عمر نے جواب دیا کہ اس معاملے پر سندھ حکومت کو بلا کر معلوم کرلیں۔

اسد عمر کا مزید کہنا تھا کہ سندھ حکومت کو ہدایت کریں کہ سرکلرریلوے منصوبے پر عملدرآمد کا پلان لائے جس پر سپریم کورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے سے متعلق حکومت سندھ سے بھی جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسد عمر آپ ہمارے لیے بہت محترم ہیں لیکن آپ ریلوے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔

ایکنک اپریل میں ایم ایل-1 کی منظوری دے گی، اسد عمر

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ عملدرآمد کا شیڈول تو بتادیں جس پر اسد عمر نے بتایا کہ ایم ایل-1، 9 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے جس کا پی سی –1 رواں ماہ کے آخر تک ریلوے کو دے دیں گے۔

اسد عمر نے عدالت کو بتایا کہ قومی اقتصادی کونسل کی انتظامی کمیٹی (ایکنک) اپریل تک ایم ایل ون کی منظوری دے گی اور انشاء اللہ ایم ایل ون کا کام شیخ رشید کے ہاتھوں ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی کو ہٹانے کا حکم

اسد عمر نے کہا کہ ایک ہزار 880 کلومیٹر طویل ایم ایل-1 منصوبہ 10 مارچ کو سی ڈی ڈبلیو میں پیش کیا جائے گا اور 12 اپریل کو قومی اقتصادی کونسل کی انتظامی کمیٹی (ایکنک) منصوبے کی منظوری دے گی۔

شیخ رشید نے کہا کہ ایم ایل -1 منصوبہ جس دن شروع ہوگا اس سے 5 سال میں مکمل ہوگا انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اس منصوبے پر چینی بھی مطمئن ہوگئے ہیں۔

جس پر سپریم کورٹ نے ایم ایل-1 منصوبہ 2 سال کے عرصے میں فعال بنانے کا حکم دیا۔

بعدازاں کراچی سرکلر ریلوے کی سماعت 21 فروری کو کراچی رجسٹری میں مقرر کردی گئی جس میں چیف سیکریٹری سندھ اور چیئرمین ریلوے کو طلب کرلیا۔

دوسری جانب ریلوے خسارہ کیس کی سماعت 2 ماہ کے لیے ملتوی کردی جس میں بزنس پلان پر پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ ٹائم لائن پر عملدرآمد نہ ہونے کے نتائج خطرناک ہوں گے۔

گزشتہ سماعت کا احوال

خیال رہے کہ ریلوے خسارہ کیس کی گزشتہ سماعت میں ریلوے کی آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی تھی جس پر عدالت عظمیٰ نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ریلوے سے زیادہ کرپٹ کوئی ادارہ نہیں۔

عدالت عظمیٰ میں وزیر ریلوے کا نام لیے بغیر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ وزارت سنبھالنا، ان کا کام نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا تھا کہ محکمہ ریلوے میں نہ مسافر ہیں نہ مال گاڑیاں چل رہی ہیں، ریلوے پر سفر کرنے والا ہر فرد خطرے میں سفر کر رہا ہے، نہ ریلوے اسٹیشن درست ہیں نہ ٹریک اور نہ سگنل ٹھیک ہیں۔

علاوہ ازیں چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا دنیا بلٹ ٹرین چلا کر مزید آگے جارہی ہے لیکن پاکستان میں آج بھی ہم اٹھارویں صدی کی ریل چلا رہے ہیں۔

بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے تھے کہ ریلوے کو اربوں روپے کا خسارہ ہورہا ہے، رپورٹ نے واضح کردیا کہ ریلوے کا نظام چل ہی نہیں رہا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024