• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ایران کو بات چیت سے قبل اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا، سعودی عرب

شائع February 15, 2020 اپ ڈیٹ February 16, 2020
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان—فوٹو: اے ایف پی
سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان—فوٹو: اے ایف پی

میونخ: سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا ہے کہ تہران اور دیگر ممالک کے درمیان کسی بھی طرح کی بات چیت سے قبل ایران کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔

عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق جنوبی جرمنی کے شہر میونخ میں 56ویں سیکیورٹی کانفرنس کے موقع پر شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب بھی کشیدگی میں کمی چاہتا ہے لیکن ایران مسلسل ’غیر محتاط رویے‘ اور ’عالمی معیشت کو دھمکی‘ دینے میں مصروف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ کشیدگی میں کمی کے لیے کوئی خفیہ پیغامات یا براہ راست رابطہ نہیں ہوا۔

مزید پڑھیں: سعودی عرب نے ایران کو او آئی سی اجلاس میں شرکت سے روک دیا

دوران گفتگو سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جب تک ہم عدم استحکام کے اصل ذرائع کے بارے میں بات نہیں کرتے، گفتگو بے نتیجہ رہے گی۔

یمن سے متعلق بات کرتے ہوئے شہزادہ فیصل کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ملک میں ہمیشہ سیاسی حل کی حمایت کی ہے اور امید ہے کہ حوثی، ایران کے نہیں بلکہ یمن کے مفادات کو پہلے رکھیں گے۔

کانفرنس میں امریکا کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ دونوں ریاستوں کے مشترکہ مفادات ہیں اور تاریخی رشتہ ہے جبکہ ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکی کانگریس کے ساتھ بات چیت کے لیے ریاست کے پاس اچھے راستے ہیں۔

علاوہ ازیں انہوں نے کہا سعودی عرب کا اس 'جی 20' سمٹ کی سربراہی کے لیے ایک اہم منصوبہ ہے جو اس سال نومبر میں ریاض میں منعقد ہوگی۔

یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان طویل عرصے سے پراکسی جنگ جاری ہے اور دونوں ممالک مشرق وسطیٰ میں اپنے اثر و رسوخ کے لیے ایک دوسرے سے مقابلے میں ہیں اور دونوں شام اور یمن میں مخالف گروہوں کی حمایت میں مصروف ہیں۔

سعودی عرب یمن جنگ میں مسلسل ایران پر الزام عائد کرتا رہا ہے کہ وہ حوثی باغیوں کی مدد کر رہا ہے جہاں متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک ان کے اتحادی ہیں جبکہ ایران ان دعوؤں کو مسترد کرتا آیا ہے۔

تاہم سعودی عرب اور ایران کے درمیان جاری اس کشیدگی میں شدت گزشتہ برس 14 ستمبر کو پیش آئے اس واقعے کے بعد آئی تھی جس میں سعودی عرب کی سرکاری تیل کمپنی آرامکو کی تنصیبات پر حملے کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ایران کا سعودی عرب سے یمن میں جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ

ان حملوں کے بعد سعودی عرب نے کہا تھا کہ یہ حملے یمن سے نہیں بلکہ ایران سے کیے گئے جبکہ امریکا نے بھی ان حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی۔

جس کے بعد خطے کی مجموعی صورتحال کافی کشیدہ ہوگئی تھی جبکہ اس کشیدہ صورتحال کا اثر رواں ماہ فروری میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں بھی نظر آیا تھا جہاں ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق سعودی عرب نے جدہ میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس میں ایرانی وفد کو شرکت سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 5 فروری کو عراق میں تعینات ایرانی سفیر ایرج مسجدی نے کہا تھا کہ ایران چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اختلافات جلد سے جلد ختم ہوجائیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024