کورونا وائرس کا خطرہ اور 100 سالہ برطانوی شخص کی شادی
برطانیہ میں کورونا وائرس کے بڑھتے خطرے کے پیش نظر حکومت نے 70 سال کی عمر سے بڑے افراد کو تنہا رہنے کا مشورہ کیا دیا ایک 100 سالہ رہائشی یاور عباس میں یہ تشویش پیدا ہوگئی کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے بنائے گئے منصوبے کا ان کی جلد ہونے والی شادی پر کیا اثر پڑے گا؟
یاور عباس برطانیہ سے تعلق رکھنے والے فلم ساز اور صحافی ہیں جو 'بی بی سی' کے ساتھ بھی کام کرچکے ہیں، وہ بہت جلد اپنی ساتھی بھارتی کارکن اور لکھاری نور ظہیر کے ساتھ شادی کرنے جارہے تھے۔
ان کی شادی کی تقریب 27 مارچ کو منعقد ہونا تھی، لیکن کورونا وائرس کے باعث ان کی شادی کا منصوبہ بھی مشکل میں پڑ گیا، کیونکہ جیسے ہی برطانیہ میں کورونا وائرس کے 2 ہزار کیسز کی تصدیق اور ہلاکتوں کی تعداد 104 ہوئی تو برطانوی حکام نے بھی اجتماعات پر پابندیاں لگانے کے حوالے سے فیصلے کرنا شروع کیے۔
مزید پڑھیں: برطانوی نائب وزیر صحت بھی کورونا وائرس سے متاثر
ڈان سے بات کرتے ہوئے یاور عباس کا کہنا تھا کہ ’جب ہمیں پتا چلا کہ لوگوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہنے کی ہدایت دی جارہی ہے تو ہم فوری طور پر بس سے میرج رجسٹرار کے دفتر گئے اور پوچھا کہ ان کے لیے کوئی دوسرا پلان ہوسکتا ہے؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لیکن ان کے پاس کوئی اور منصوبہ نہیں تھا اور ہم دونوں شادی نہیں کرسکتے تھے اگر ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہنے کی پابندی لگادی گئی تو، جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم فوری طور پر شادی کرلیں گے، رجسٹرار کے پاس صرف اس وقت کا ایک گھنٹہ اور اگلے دن صبح کا ایک گھنٹہ فری تھا، اس ایک گھنٹے میں ہمارے گواہ وہاں نہیں آسکتے تھے جس کے بعد ہم نے اگلی صبح 17 مارچ کو شادی کرنے کا فیصلہ کیا‘۔
یاور عباس کے مطابق میرج رجسٹرار کے پاس ایک آپشن یہ بھی تھا کہ وہ اپنے گھر پر بھی شادی کرسکتے تھے، لیکن ایسا کرنے پر ایک نئی ایپلیکیشن کی ضرورت پڑتی جس میں ایک ماہ کا وقت درکار تھا اور ہم بالکل بھی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتے تھے۔
یاور عباس کا تعلق بھارتی ریاست اتر پردیش سے ہے، انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز جنگ عظیم دوم کے دوران برطانوی فوج میں ایک فوٹوگرافر کی حیثیت سے کیا، 1945 میں وہ ان افراد میں سے تھے جنہوں نے جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی کوریج کی، وہ 1950 سے 2009 تک بی بی سی اردو کے ساتھ وابستہ رہے۔
ان دونوں نے اپنی شادی کا جشن گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب کے ساتھ منایا جس میں صرف 6 افراد کو دعوت دی گئی۔
تقریب میں موجود مہمانوں میں سے ایک دردانہ انصاری کا کہنا تھا کہ وہ یاور عباس کی شادی کی گواہ بننے والی تھی تاہم ایسا ممکن نہ ہوسکا۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ دونوں ایک ساتھ بےحد خوش اور پرسکون نظر آرہے تھے، میں وہ خوشی بیان نہیں کرسکتی جو میں نے ان کے چہروں پر دیکھی، یہ بالکل کسی پریوں کی کہانی جیسا تھا‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ یاور عباس نے رجسٹرار کے دفتر میں تو سوٹ زیب تن کیا تھا، تاہم گھر میں منعقد تقریب کے دوران وہ سیاہ کرتے اور سرخ ویسٹ کوٹ میں نظر آئے۔
لیکن آخر یاور عباس نے کورونا وائرس کے اس خطرے کے باوجود 100 سال کی عمر میں شادی کرنے کا فیصلہ کیا کیسے؟
اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’صرف محبت نے مجھے ایسا کرنے کا حوصلہ دیا، ہم دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہوئی، پھر کوئی فرق نہیں پڑا کہ میری عمر کیا ہے، اس کی عمر 60 برس سے زیادہ ہے اور عمر کے اس فرق سے بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا، ہم دونوں ایک ساتھ بہت خوش ہیں‘۔
نور ظہیر، بھارت میں وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف ہوئے مظاہروں میں بھی کارکن کے طور پر حصہ بنیں اور یاور عباس نے اس کے لیے انہیں سراہتے ہوئے کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ بھارت میں ایک انتہا پسند جماعت کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں موجود لوگ متاثر ہوئے۔
نور ظہیر مقبول اردو مصنف سجاد اور رضیہ سجاد کی چار بیٹیوں میں سے ایک ہیں، وہ اب تک 15 کتاب شائع کرچکی ہیں، جن میں ریت پہ کہانی، میرے حصے کی روشنائی، دی ڈانسگنگ لاما اور مائے گوڈ از اے وومن شامل ہیں۔
جب نور ظہیر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بھی اس وائرس سے خوفزدہ ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’ویسے تو ہم دونوں ہی حساس ہیں، لیکن میں عالمی وباؤں سے خوفزدہ نہیں ہوتی، کیوں کہ ایک کارکن ہونے کی حیثیت سے میں نے بھارت کے کئی دور دراز علاقوں میں کام کیا اور صحت کے شدید خطرات کا سامنا بھی کرنا پڑا، یہ الگ بات ہے کہ ان کا پیمانہ اس سے کم تھا‘۔
یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس سے برطانیہ میں ہلاکتوں کی تعداد 35 ہوگئی
انہوں نے بتایا کہ شادی کے شروع کے دن یہ دونوں الگ تھلگ گزاریں گے، اس دوران یہ ایک دوسرے سے باتیں کرنے کے ساتھ کچھ نئی کتابیں پڑھیں گے۔
نور ظہر کے مطابق ’ہم دونوں ایک دوسرے کو گزشتہ 10 سال سے جانتے ہیں، لیکن تعلقات تک اس وقت بڑھے جب ہم گزشتہ سال اکتوبر میں ایک میلے کے دوران ملے، تب ہماری دوستی گہری ہوئی اور ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ہمیشہ دوست رہیں گے‘۔
جہاں لوگ یقیناً کسی 100 سالہ شخص کی شادی کی خبر سن کر حیران ہوجاتے ہیں وہیں ان دونوں کے دوستوں نے اس فیصلے پر ان کا ساتھ دیا۔
اس حوالے سے دردانہ انصاری کا کہنا تھا کہ ’یاور عباس ایک عزت دار آدمی ہیں جو اپنے رشتے کو باضابطہ کرکے نور کو عزت اور تحفظ دینا چاہتے تھے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگوں کو یقیناً 100 سالہ شخص کی شادی کا سن کر حیرانی ہوگی، لیکن اب ایسا نہیں سوچتے، یاور کا گھر اب آباد ہوجائے گا، اور وہ اب اکیلا بھی نہیں ہوگا، وہ پہلے اکیلا رہتا تھا اور کئی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ جاتا تھا لیکن اب کوئی ان کا خیال رکھنے والا موجود ہے‘۔
جب نور ظہیر سے ان کی اور یاور کی عمر کے فرق پر سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم عمر کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دیتے ہیں، تب کیا کیا جاسکتا ہے جب پیار کی کوئی صحیح عمر نہ بتائی گئی ہو‘۔
یہ خبر 19 مارچ 2020 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔