• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
Laborers work on a building construction site in Karachi, Pakistan February 25, 2016. Karachi property prices jumped 23 percent last year to a record high, outpacing other large cities and the national average of 10 percent, data from property website Zameen.com showed. Picture taken Febraury 25, 2016.  REUTERS/Akhtar Soomro

تعمیراتی صنعت کو ریلیف سے اصل فائدہ کس کو ہوگا؟

ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا سابقہ ناکامیوں سے بچنے کیلئے ڈیولپروں اور بلڈروں کو کسی قسم کے اصولوں کا پابند بنایا جارہا ہے؟
شائع April 20, 2020

وزیرِاعظم نے حال ہی میں تعمیراتی صنعت کے لیے ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے جس کے 2 اہم مقاصد ہیں

  • پہلا دیہاڑی دار طبقے کے افراد کے لیے ملازمت کے مواقع پیدا کرنا اور
  • دوسرا اقتصادی سرگرمی میں تیزی لانا۔

اس پیکج میں بلڈروں اور ڈیولپر حضرات کو نیا پاکستان ہاؤسنگ پروگرام کے تحت غربا کے لیے سستے گھروں کی تعمیر کے لیے اضافی مراعات بھی دی گئی ہیں۔

کورونا وائرس کے بحران میں سماج میں گہرائی سے پیوست عدم مساوات کا عنصر کھل کر سامنے آرہا ہے، ایسے میں غیر رسمی مزدوروں کے ذرائع آمدن کو محفوظ بنانا، معیشت کو مستحکم رکھنا اور محفوظ و مناسب پناہ گاہ کی فراہمی بہت ضروری ہے۔

مگر کیا مجوزہ اقدامات ان کاموں کو انجام دینے کے لیے مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں؟ شہری پیداوار کے تناظر میں موجودہ پیکج کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟ اور یہ قابلِ استطاعت زمین اور گھر تک رسائی میں کس طرح مددگار ثابت ہوگا؟

پہلی بات، پیکج سے متعلق دورانیوں اور منظوریوں کے مفصل اصولوں کو دیکھ کر ہم آئندہ دنوں میں زمین اور جائیداد کی قیمتوں میں فوری اضافے کی توقع کرسکتے ہیں۔

یہ ایک اہم معاملہ ہے کیونکہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق سرمایہ کاروں کو جون 2022ء تک اپنے ذرائع آمدن ظاہر نہ کرنے کی چھوٹ حاصل ہوگی، یوں اب ہر وہ فرد باآسانی ریئل اسٹیٹ میں گھر خرید کرسکتا ہے جس نے یا تو غیر قانونی طور پر مال کمایا ہو یا اپنے اس مال پر ٹیکس نہ دیا ہو۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ آبادی کی اکثریت کے لیے گھر کی خریداری پہلے ہی ناقابلِ استطاعت بنی ہوئی ہے۔ سال 2015ء سے 2016ء تک کے ہاؤس ہولڈ انٹیگریٹڈ اکنامک سروے کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ لوگوں کی بچت اور ان کے اخراجات کے رجحانات کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں محض 20 فیصد ایسے لوگ ہیں جو اپنی کمائی میں سے گھر کی خریداری کے لیے آمدن کے 33 فیصد (قوتِ استطاعت ناپنے کا ایک عام معیار) حصے کو خرچ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔

اب چونکہ بحران کے نتیجے میں لوگوں کی آمدن اور بچت میں کمی کا رجحان اور زمینوں کی قیمتوں میں اضافے کا امکان لاحق ہے اس لیے نئے پیکج کی وجہ سے قوتِ استطاعت کا بحران مزید واضح ہوکر سامنے آسکتا ہے۔

علاوہ ازیں اس شعبے میں ہونے والی لین دین میں شفافیت کا معیار پہلے سے ہی بہت کم ہے، ایسے میں اس اقدام کو متعارف کروانے سے غیر شفافیت کو مزید تقویت پہنچنے کا خدشہ ہے جس کے نتیجے میں دیگر معاملات پر اثرات مرتب ہونے کے ساتھ حکومت کو ملنے والے ٹیکس ریونیو میں بھی کمی واقع ہوسکتی ہے۔

دوسری بات یہ کہ انکم ٹیکس آرڈینینس کے سیکشن 111 میں بیان کیے گئے اصولوں سے استثنیٰ، ٹیکس میں رعایت اور کیپٹل گین ٹیکس کی چھوٹ دے کر یہ پیکج منافع کمانے یا سرمایہ کاری کے مقاصد کے لیے جائیداد کی تعمیر اور فروخت میں مزید آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ (منافع پر ٹیکس کے بجائے) طے شدہ ٹیکس وصولی سے بھی ڈیولپروں کو بڑے پیمانے پر منافع کمانے کا موقع مل سکتا ہے۔

منافع اور سرمایہ کاری کی غرض سے ہونے والی گھروں کی خریدو فروخت ایک ایسا پہلو ہے جو لوگوں تک قابلِ استطاعت گھروں کی فراہمی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ یہ مارکیٹ میں تعمیر شدہ زمین کی دستیابی گھٹا دیتی ہے اور ان کا محور گھر کا خریدار نہیں بلکہ سرمایہ کار ہوتا ہے۔

اس پر قابو پانے کے لیے کسی قسم کے اقدامات کی تجویز نہیں کی گئی ہے بلکہ جس طرح اوپر بھی بتایا گیا ہے کہ مجوزہ اقدامات گھروں پر سرمایہ لگانے اور ان سے منافع کمانے کی سرگرمیوں میں مزید آسانیاں پیدا کر رہے ہیں۔

ایک طرف جہاں ملک میں گھروں کی کمی ہے وہیں بلند آمدنی والے گروہوں اور سرمایہ کاروں کے پاس کم آبادی والے علاقوں میں ایک سے زیادہ رہائشی آپشن ہوتے ہیں۔ پنجاب میں اربن یونٹ کی جانب سے 2019ء میں کیے گئے مطالعے کے مطابق صوبے بھر کی تمام تسلیم شدہ ہاؤسنگ اسکیموں میں 68 فیصد پلاٹ خالی پڑے ہیں جبکہ 10فیصد زیرِ تعمیر ہیں۔

کیا نئی رعایتیں ایسی اضافی اسکیموں کو لانے کے لیے دی جارہی ہیں، جو آمدن کے مواقع تو شاید پیدا کرتی ہیں مگر آبادی کے ایک بڑے حصے کی پہنچ سے باہر رہتی ہیں اور زیادہ تر مواقع پر تعمیراتی پھیلاؤ کی وجہ بنتی ہیں؟ دیہاڑی دار طبقے کے لیے آمدن کے مواقع پیدا کرنے اور معیشت میں تیزی لانے کے اور بھی کئی بہتر طریقے ہیں (ان میں سے چند تحریر کے آخر میں تجویز کیے گئے ہیں)۔

مگر آپ یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس پیکج کا بنیادی مقصد تو نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت غربا کو اپنا گھر بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے، لیکن کیا سابقہ ناکامیوں سے بچنے کے لیے ڈیولپروں اور بلڈروں کو کسی قسم کے اصولوں کا پابند بنایا جارہا ہے؟

عین ممکن ہے کہ ڈیولپر نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کے تحت نئے گھروں کو دُور دراز کے ایسے علاقوں میں تعمیر کریں جہاں زمین سستی ہوگی اور علاقے کے چناؤ، طویل مدتی قوتِ استطاعت، قبضہ، مینٹیننس اور سماجی انفرااسٹرکچر سے متعلق کوئی میکینزم موجود نہیں ہوگا۔

قبضہ، قوتِ استطاعت، کمیونٹی تعمیرات اور مینٹیننس کے حوالے سے معیارات کی ایک حد مقرر کرنی ہوگی اور ان پر پورا اترنے پر ہی ڈیولپروں کو حکومتی رعایتوں سے مستفید ہونے کی اجازت دی جائے۔

اگرچہ یہ عمل کامیابی کا ضامن ثابت نہیں ہوسکتا لیکن ٹیکس چھوٹ سے فائدہ اٹھانے والے ڈیولپروں سے اس مارکیٹ کی سمجھ کا عملی مظاہرہ دکھانے سے متعلق تقاضا کرنے میں کوئی حرج نہیں جس کے لیے وہ تعمیرات کی پیش کش کر رہے ہیں۔ وگرنہ ہمارے سامنے شاید نئے تعمیر شدہ گھر تو ہوں گے لیکن خالی، یا شاید وہ آگے چل کر بلند آمدن والے گروہ کو منافع کما کر دیں گے۔

یہ نتائج پاکستان کے لیے اجنبی نہیں ہوں گے۔ ملائشیا میں 1980ء کی دہائی میں حکومت نے اسپیشل لو کوسٹ ہاؤسنگ اسکیم پروگرام کا اعلان کیا تھا۔ اسے اقتصادی بالخصوص تعمیراتی صنعت میں ہونے والی مندی سے نمٹنے کے لیے متعارف کیا گیا تھا۔ اس اسکیم کا اہم مقصد کم اور متوسط آمدن والے افراد کے لیے گھروں کی فراہمی بڑھانا اور معیشت کو مستحکم بنانا تھا۔

پروگرام میں نجی شعبے کو گھروں کی تعمیر کے لیے رعایتیں دی گئی تھیں، یاد رہے کہ 60 فیصد تعمیرات سرکاری زمینوں پر ہونا تھی۔ اس پروگرام کے تحت ملنے والی رعایتوں میں انفرااسٹرکچر کے معیارات میں کمی، قوانین اور زمین منتقلی جیسے کاموں میں تیزی پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ تاہم تعمیر شدہ گھروں کی تعداد میں اضافے کا رجحان کم رہا۔

دراصل مہنگی قیمتوں، مقامات اور گھروں کے خراب ڈیزائن کی وجہ سے گھروں کی طلب کم رہی جبکہ انتظامی رکاوٹوں نے مزید مسائل کو جنم دیا۔ اسی نوعیت کے نتائج ان ممالک میں بھی برآمد ہوئے جہاں بڑی حد تک کامیاب ہاؤسنگ پروگراموں پر عمل درآمد کیا گیا تھا، وہاں معیار کے بجائے تعداد کو فوقیت، علاقوں کا خراب چناؤ اور دیگر عناصر کے ساتھ کرپشن میں اضافہ دیکھنے کو ملا جبکہ انہیں مدِنظر رکھتے ہوئے حکومتیں پالیسیوں اور پروگرام ڈیزائن میں ردوبدل کرتی رہیں۔

حال ہی میں روانڈا کے شہر کگالی پر ٹام گڈفیلو کا تحقیقی کام یہ دکھاتا ہے کہ حکومت نے تعمیراتی مال کی درآمدات پر ٹیکس چھوٹ، سرمایہ کاروں کو 30 دنوں کے اندر منظوریوں کے وعدے کے ساتھ ساتھ ون اسٹاپ سینٹر اور آسان رساں ہاؤسنگ فنانس کی صورتوں میں رعایتیں دیں تھی، تاہم گھروں کی رسمی فراہمی بنیادی طور پر بلند آمدن والے افراد اور بیرونِ ملک مقیم افراد کی ضروریات پوری کرتی رہی۔ عمارتوں پر سرمایہ لگانا عام ہوگیا اور چونکہ بلند منافعوں کی لالچ میں ریئل اسٹیٹ میں کم تجربہ رکھنے والے سرمایہ کاروں نے اس کاروبار میں قدم رکھ دیا اس لیے وہ اپنی جیب خالی کر بیٹھے تھے، یوں زیادہ تر عمارتیں آدھی ہی تعمیر ہوسکیں۔

لہٰذا ہم ایک اہم موڑ پر آ پہنچے ہیں۔ کورونا وائرس کے بحران میں کون گھر طلب کرنے اور خریدنے کی مالی حیثیت رکھتا ہوگا؟ بحران کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔ اس لیے (بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سمیت) متوسط اور کم آمدن والے افراد بیروزگاری، ذرائع آمدن سے جڑے معاملات میں غیر یقینی کی صورتحال اور بچت میں کمی کا شکار ہیں۔

اس لیے موجودہ حالات میں بیشتر لوگوں کی گھر خریدنے کی مالی حیثیت مزید کم ہوگئی ہے۔ ماضی میں بھی بینک ان گروہوں کو قرضہ دینے سے ہچکچاتے تھے اور موجودہ حالات میں تو وہ یقیناً رسک لینا نہیں چاہیں گے۔ ماضی میں غیر رسمی آمدن کی تصدیق اور بلند شرح سود اہم مسائل رہے ہیں۔

چونکہ بحران کے موجودہ حالات میں رسمی اور غیر رسمی آمدن شدید متاثر ہوئی ہے اس لیے صرف شرح سود میں کمی لانے سے لوگوں کو گھروں کی خریداری میں سہولت فراہم نہیں کی جاسکتی۔ کم اور متوسط آمدن والے گروہوں کو نئے گھروں تک رسائی میں سہولت دینے کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کو ہاؤسنگ قرضوں کے ذریعے حکومتی رعایتیں دینے کے بجائے انہیں ضرورتمند طبقے کو فائدہ پہنچانے کے واضح میکینزم کے ساتھ ہر پہلو کو دھیان میں رکھتے ہوئے مرتب کیا جائے۔

اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اقدامات تجویز کیے جاتے ہیں۔

  • پہلا، بے گھر آبادی کو فوری مدد درکار ہے۔ کراچی میں بے گھر افراد سے متعلق نعمان احمد کی تحقیق کے مطابق بے گھر آبادی کے ایک بڑے حصے کے پاس شناختی کارڈ موجود ہی نہیں جبکہ موجودہ بحران میں ان کی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ وزیراعظم کے پناہ گاہ منصوبے میں توسیع لانی چاہیے اور بے گھروں کے لیے پناہ گاہوں کو تعمیر کیا جانا چاہیے۔

  • دوسرا یہ کہ ان تمام کم آمدن اور نچلی متوسط آمدن والے گروہوں کو مدد فراہم کی جانی چاہیے جو روزگار کی بندش کے باعث ماہانہ کرایوں کی ادائیگیاں کرنے سے قاصر ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان افراد کی بھی مدد کی جائے جن کی آمدن ان ادائیگیوں پر منحصر ہے۔

  • تیسرا، بے ضابطہ بستیوں کے حالات کو بہتر بنانے (مثلاً پانی اور نکاسی آب کی سہولیات میں بہتری لانے) میں مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ مالی امداد کو 'ایک اضافی کمرے' کی تعمیر میں مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایک جگہ پر حد سے زیادہ لوگوں کی موجودگی اس وقت اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس نوعیت کا کوئی پروگرام رہائشی حالات کو بہتر بنانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔

  • چوتھا، جیسا کہ اوپر بھی بیان کیا گیا ہے کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کے تحت ڈیولپروں کے لیے معیارات مرتب کیے جائیں۔ آبادی کے بیچ خالی پڑی زمینوں پر تعمیرات، مختلف طبقوں کے لیے اور مختلف طریقوں سے استعمال کے قابل رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ موجودہ ضابطہ بندی کے طریقہ کار کو کم لاگت والے گھروں کی فراہمی آسان بنانے کے لیے اس میں تبدیلیاں لائی جائیں اور سرکاری رعایتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایک مؤثر اہدافی نظام تیار کیا جانا چاہیے۔

  • پانچواں، روزگار اور رہائشی سہولت کی فراہمی کے لیے پبلک ورکس پروگراموں اور سماجی ہاؤسنگ منصوبوں کو زیرِ غور لایا جائے۔ اقوامِ متحدہ کے نمائندہ خصوصی برائے حقِ رہائش کورونا وائرس کے بحران میں کرایہ دار، بے گھر آبادیوں اور بے ضابطہ بستیوں میں رہنے والوں کے تحفظ سے متعلق مفصل ہدایات شائع کرچکے ہیں، اس پر بھی نگاہ ڈالی جاسکتی ہے۔

مذکورہ بالا باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو فیصلے آج لیے جائیں گے ان کے طویل مدتی اقتصادی، سماجی اور ماحولیاتی ناقابلِ تلافی نتائج بھگتنا پڑسکتے ہیں۔

ایل ایس ای کے ایک مطالعے کے مطابق 'سڑکوں اور عمارتوں جیسے بڑی حد تک بھاری اور ناقابلِ واپسی لاگت کے ساتھ تعمیر کیے جانے والے شہری انفرااسٹرکچر کی زندگی 30 سے 100 سال تک ہوتی ہے اور شہری ڈھانچوں سے حاصل کردہ تجربات کی روشنی میں ان کی زندگی مزید بڑھائی جاسکتی ہے‘۔

دنیا کے مختلف شہر خطرے میں گھری اپنی آبادی کو مدد فراہم کرنے کے لیے نئے نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ اگرچہ ہم اس بات سے اتفاق کرسکتے ہیں کہ حکومت کے سامنے مشکل آپشن ہیں لیکن تعمیراتی صنعت کو سہارے کی ضرورت ہے اور چونکہ حکومت حقیقی معنوں میں غریبوں کی مدد کرنا چاہتی ہے ایسے میں ہمیں یہ کام اس طریقے سے انجام دینا ہوگا کہ جس سے بلڈروں اور ڈیولپروں کے بجائے ناتواں طبقاتی گروہ کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔


انگلش میں پڑھیں۔


فضہ سجاد شہری منصوبہ بندی کا پس منظر رکھتی ہیں۔ وہ شہروں اور انفرااسٹرکچر پر بطورِ محقق کام کرتی ہیں، جس میں ان کے موضوع خاص ٹرانسپورٹ پلاننگ میں صنفی مساوات، قابل استعطات ہاؤسنگ اور ایک سے دوسری جگہ منتقلی اور آباد کاری ہیں۔

فضہ سجاد

فضہ سجاد شہری منصوبہ بندی کا پس منظر رکھتی ہیں۔ وہ شہروں اور انفراسٹرکچر پر بطورِ محقق کام کرتی ہیں، جس میں ان کے موضوع خاص ٹرانسپورٹ پلاننگ میں صنفی مساوات، قابل استعطات ہاؤسنگ اور ایک سے دوسری جگہ منتقلی اور آباد کاری ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔