• KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am
  • KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am

کورونا وائرس: مئی کے وسط میں مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے، وزیراعظم

شائع April 18, 2020 اپ ڈیٹ April 20, 2020
وزیراعظم عمران خان—فائل فوٹو: فیس بک
وزیراعظم عمران خان—فائل فوٹو: فیس بک

وزیراعطم عمران خان نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کے باعث کے پیدا ہونے والی صورتحال میں قوم متحد ہو، یہ بحران ہے اس پر سیاست نہ کی جائے کیوں کہ کورونا وائرس کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی، اس کی اس سے قبل کوئی مثال نہیں ملتی۔

اسلام آباد میں کورونا وائرس کے حوالے سے پریس بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 25 اپریل تک کورونا کے کیسز 50 ہزار تک تجاوز ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ آج کے اندازوں کے مطابق ان کی تعداد 12 سے 15 ہزار کے درمیان رہنے کا امکان ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کیسز کی اس تعداد کی حد تک ہمارے ہسپتالوں میں موجود سہولیات کافی ہیں تاہم جس طرح کیسز میں اضافہ ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہورہا ہے کہ 15 مئی سے 25 مئی تک مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے اور اس دوران ہسپتالوں پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہمارے حالات مغربی ممالک سے بہت مختلف ہیں کچی آبادیوں میں بہت گنجان آبادی ہے، جہاں ایک ایک کمرے میں 6 سے 8 افراد رہائش پذیر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: رمضان المبارک کے حوالے سے حکومت اور علما میں 20 نکات پر مشروط اتفاق

انہوں نے کہا کہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جو بھی پالیسی بنائی گئی اسے ایک خاص طبقے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کے پاس اختیار تھا اور انہوں نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا اور اب بھی میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ کمزور اور غریب طبقے کے حوالے سے ہے۔

بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک میں تقریباً تمام مزدور حکومت کے پاس رجسٹرڈ ہیں جن کی درخواست پر حکومت ان کی مدد کررہی ہے لیکن ہمارے 75 سے 80 فیصد مزدور غیر دستاویزی طور پر کام کرتے ہیں۔

انہیوں نے اعتراف کیا کہ رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے حکومت کے لیے ہر ایک تک پہنچنا ممکن نہیں اور خدشہ ہے کہ اگر لوگوں تک رسائی نہ ہوئی تو وہ سڑکوں پر آجائیں گے اور لاک ڈاؤن کا مقصد ختم ہوجائے گا اس لیے تعمیرات کا شعبہ کھولا گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے تعمیرات کے شعبے میں شرکت کے لیے ہر ایک کو دعوت دی تا کہ لوگوں کو روزگار ملے۔

ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نے سوشل میڈیا پر ایسی چیزیں دیکھی ہیں کہ لاک ڈاؤن توڑنے والوں کو ڈنڈے مارے جارہے ہیں اس لیے میں پولیس سے کہنا چاہتا ہوں کہ ڈنڈے مارنے کے بجائے غریب لوگوں کو سمجھائیں کیوں کہ ڈنڈے سے صرف ایک دو ہفتے تک لاک ڈاؤن کامیاب ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ میں کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے صرف 144 وینٹی لیٹرز ہونے کا انکشاف

رمضان المبارک میں عبادات کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ میں مساجد کے ائمہ سے کہتا ہوں کہ کورونا وائرس کے حوالے سے طے شدہ چیزوں مثلاْ سماجی فاصلے پر عمل کریں کیوں کہ اگر کورونا پھیلا تو مسجد ویران ہوجائیں گی۔

ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی

وزیراعظم نے کہا کہ کورونا کے باعث لوگوں کی جانب سے ذخیرہ اندوزی کر کے پیسہ کمانے کی کوشش سب سے بڑا خطرہ ہے لیکن ہم اس پر بہت سختی کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میں خبردار کررہا ہوں کہ جو لوگ ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہوئے ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی اور مالکان کو پکڑا جائے گا۔

وزیراعظم نے متنبہ کیا کہ ذخیرہ اندوزی اور اسمگلروں کے حوالے سے آرٖڈیننس تیار کرلیا گیا ہے اور اسمگلنگ کے خلاف بھی سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ جب کوئی قومی بحران ہو اور اس سے سب متاثر ہورہے ہیں خاص کر نچلا طبقہ، ایسی صورتحال میں سیاست نہیں ہونا چاہیے لہٰذا 2 سے 3 ہفتوں سے جو سیاست چل رہی ہے اسے بند کیا جائے۔

ایک طبقہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں کورونا کے کیسز بڑھیں

انہوں نے کہا کہ میرے مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ ایک ایسا طبقہ ہے جو چاہتا ہے کہ ملک میں کورونا کے اثرات میں اضافہ ہو اور زیادہ لوگ مریں تاکہ وہ اپنی سیاست چمکائیں لیکن وہ اس وقت مایوس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیگر دنیا کے رہنماؤں میں بھی غلط فیصلے کیے لیکن ہم نے کچھ پہلے دن سے جو فیصلہ کیا وہ اللہ کا شکر سے ٹھیک ثابت ہورہا ہے اس کے باوجود اس سب کو زبردستی سیاسی رنگ دیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا متاثرین کی تعداد 7600 سے متجاوز، اموات 144 ہوگئیں

بطور خاص کراچی میں اموات کی تعداد میں اضافے کی رپورٹس کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اس قسم کی خبروں سے لوگوں میں خوف اور افراتفری پھیلے گی اور وہ ایسی حرکتیں کریں گے کہ جس سے مزید نقصان پہنچے گا یہ بہت غیر ذمہ دارانہ حرکت ہے کہ آپ نے اس کا ذکر کرنے سے پہلے تصدیق ہی نہیں کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہوا کہ حکومت کورونا سے ہونے والی اموات چھپا رہی ہے، وہ کون سی بے وقوف حکومت ہوگی جو کورونا کیسز کو چھپائے گی؟

انہوں نے کہا کہ ہم تو کوشش کررہے کہ کورونا کے مریضوں تک پہنچا جائے اور وہ اس وقت ممکن ہے جب اعداد و شمار درست آئیں گے اگر ڈیٹا درست نہیں ہوگا تو ہم فیصلے کس طرح کریں گے کہ کہاں لاک ڈاؤن کرنا ہے؟

وزیراعظم نے کہا کہ یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ ہمیں درست اعداد و شمار ملیں اور نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر میں روزانہ کی بنیاد پر چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کمشیر کے تعاون سے ڈیٹا مرتب کیا جارہا ہے اگر کسی کو شبہ ہے تو یہاں بنے سیٹ اپ کو چیک کرلیں۔

کورونا قومی بحران ہے اس پر سیاست نہ کی جائے

ان کا کہنا تھا جب تمام کام تعاون سے ہورہے ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ جب سب اتفاق کرلیتے ہیں تو ان کی جماعت کے کوئی لیڈر کوئی اور بیان دے دیتے یہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا بحران بہت بڑھ سکتا تھا لیکن اللہ کے کرم سے اتنی تیزی سے نہیں پھیلا کیوں کہ اگر پھیلا تو پوری قوم کو نقصان ہوگا اس لیے میری درخواست ہے اس پر قوم متحد ہو یہ بحران ہے اس پر سیاست نہ کریں۔

انہوں نے بتایا کہ جب کورونا کا بحران شروع ہوا تو ہر چیز کی جانب سے ہٹ کر توجہ کورونا کی جانب مبذول ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی حکومت چھوٹے تاجروں کو بغیر سود طویل مدتی قرض فراہم کرے، وزیراعلیٰ سندھ

انہوں نے پولیو کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے پیشِ نظر لاک ڈاؤن کی وجہ سے 2 پولیو مہم متاثر ہوئی ہیں اور ہم اس بات کو بھی دیکھ رہے کہ کورونا سے بچاتے بچاتے لوگ دیگر بیماریوں سے نہ مریں۔

وزیراعظم نے کہا ہمیں احساس ہے جس طرح ایک دم لاک ڈاؤن ہوا اس سے سب سے زیادہ اثر بیرونِ ملک پاکستانیوں پر ہوا، اس میں جو بیرونِ ملک سیر کو گئے تھے وہ تو متاثر ہوئے ہیں لیکن سب سے زیادہ بیرون ملک موجود محنت کش طبقہ متاثر ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میں ان پاکستانیوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے ذہن سے یہ نکال دیں کہ ہم آپ کو بھول گئے یا آپ کی فکر نہیں کی بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ابتدا میں جتنے کیسز تھے وہ بیرونِ ملک سے آئے تھے اور ہمارے پاس اتنی سہولیات نہیں تھی کہ ہم باہر سے آنے والے تمام افراد کی اسکریننگ کرسکتے۔

وزیراعظم کے مطابق چونکہ ہمیں ایک تجربہ ہوچکا تھا اس لیے تمام صوبوں نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ ابھی ہمارے پاس اتنی تیاری نہیں کہ آنے والے تمام افراد کو اسکرین کیا جاسکے چنانچہ یہ وہ وجہ تھی جس کی وجہ سے بیرونِ ملک پاکستانیوں کی واپسی کو مؤخر کیا۔

وزیراعطم نے کہا کہ کورونا وائرس کے خاتمے کے حوالے سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے 6 ماہ لگیں کہ 8 ماہ لیکن اگر یہاں غربت بڑھ گئی تو مطلب ہم جنگ ہار گئے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں سازشی لوگ تبلیغی جماعت یا زائرین کو نشانہ بنارہے ہیں، شیخ رشید

بریفنگ کے دوران مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے بتایا کہ بیرونِ ملک پھنسے پاکستانیوں کی واپسی کے حوالے سے تمام تر معلومات کووِڈ کی سرکاری ویب سائٹ پر موجود ہوں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ بیرونِ ملک پروازوں کے ذریعے اور تینوں سرحدوں سے وطن واپس آنے والے افراد کے لیے ایک ہی پالیسی ہوگی کہ حکومت ان کو 2 روز قرنطینہ میں رکھے گی۔

کورونا کے حوالے تمام فیصلے مربوط طریقے سے کیے جاتے ہیں، اسد عمر

کورونا وائرس کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی اور فوکل پرس برائے کورونا اسد عمر کا کہنا تھا کہ ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں اضافہ کرلیا گیا ہے۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے لگائے گئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں کیسز کی تعداد تخمینے سے کم ہیں وہیں اس کی وجہ سے لوگوں کے روزگار پر بہت بھاری اثر پڑا ہے اور انہیں مشکلات کا سامنا ہے، ہمیں ان مشکلات کو اس طرح دور کرنا ہے کہ بیماری کے پھیلاؤ بھی نہ بڑھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے ایسا نظام لایا جارہا ہے کہ کورونا کے متاثرہ شخص تک پہننچا جائے تاکہ بیماری کا پھیلاؤ مؤثر طریقے سے روکا جاسکے اور اس کے لیے ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔

اعداد و شمار سے آگاہ کرتے ہوئے انہوں نے کہ 15 مارچ کو پاکستان میں 473 ٹیسٹ ہوئے تھے اور 25 اپریل تک ہم 25 ہزار ٹیسٹ کرنا چاہ رہے تھے تاہم اب تک ہم ٹیسٹنگ کی صلاحیت میں 15 گنا اضافہ کرچکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کے ساتھ انفرادی طور پر اور ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے متاثرہ افراد سے منسلک افراد تک پہنچنے کے لیے ایک نظام تشکیل دیا جارہا ہے تا کہ انہیں قرنطینہ کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹروں کا حکومت سے لاک ڈاؤن مزید سخت کرنے کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول میں ہونے والے اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ موجودہ نظام کو مزید مؤثر بنا کر آگے بڑھائیں گے اور ساتھ ساتھ لوگوں کا روزگار بحال کریں گے۔

اسد عمر کے مطابق طبی سہولیات کی گنجائش میں اضافہ کیا گیا ہے تاہم ہم اس سطح تک نہیں پہنچ سکے جتنا ہم چاہتے تھے تاہم پوری دنیا میں یہی صورتحال جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سے قبل کسی ایمرجنسی پر اتنے مربوط فیصلے نہیں کیے گئے جس طرح اس وبا کے حوالے سے کیے جارہے ہیں اور یہ تمام فیصلے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) میں کیے جاتے ہیں جس میں 4 جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنما شامل ہیں اور 9 دفعہ اجلاس کی سربراہی وزیراعظم نے کی اور اس میں اتفاقِ رائے سے فیصلے کیے جاتے ہیں۔

ان کاکہنا تھا کہ بعدازاں ان فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریٹنگ سینٹر کا اجلاس ہوتا ہے اور اس میں بھی چاروں صوبوں کے نمائندے اس میں شامل ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 14 اپریل کو جو ہوا اس سے مجھے تکلیف پہنچی اور وزیراعلیٰ سندھ کا نام لیے بغیر کہا کہ ایک وزیراعلیٰ نے اجلاس میں کہا کہ کسی فیصلے پر پہنچنے سے قبل انہیں کچھ معلومات کی ضرورت ہے جس پر وزیراعظم نے آئندہ روز اجلاس کرنے پر اتفاق کیا۔

چنانچہ اگلے روز نیشنل کمانڈ اینڈ آپریٹنگ سینٹر میں تفصیلی بات چیت کے بعد اتفاق رائے سے صبح فیصلہ ہوا اور دوپہر میں اجلاس ہوا تھا اور دیگر وزرائے اعلیٰ نے اس فیصلے کی توثیق کی تاہم اجلاس کے کچھ دیر بعد ایسی صورتحال سامنے آتی ہے کہ جیسے ہم نے ایسا فیصلہ کردیا جو سب کی مرضی کے خلاف تھا۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ اس سے ملک کو فائدہ نہیں ہورہا اور نہ کسی کو سیاسی فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ عوام سب کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں لہٰذا اس معاملے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔

مزید پڑھیں: عالمی برادری وائرس کو روکنے کیلئے کم لاگت کی ویکسین فراہم کرے، آئی ایم ایف

اسدعمر کا مزید کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک میں جو ہوتا ہے اس کی بازگشت یہاں شروع ہوجاتی ہے حالانکہ ہمیں پاکستان کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فیصلے کرنے ہیں بلکہ آج مغرب میں وہ بات ہورہی ہے جو ایک ماہ پہلے ہم کررہے تھے۔

چھوٹے اور درمیانے کاروبار کیلئے بڑی اسکیم لارہے ہیں، حماد اظہر

پریس بریفنگ میں بات کرتے ہوئے وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا کہ جو افراد نوکری سے فارغ یا بے روزگار ہوئے ہیں ان کی امداد کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی اور احساس پروگرام شراکت داری سے ایک بہت بڑا پروگرام لایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں چھوٹے اور درمیانے طبقے کے کچھ کاروبار بند ہونے کا اندیشہ ہے لیکن ہم اس بندشوں کے اندر انہیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے اس سلسلے میں ہم بجلی کے بلز کے حوالے سے آئندہ دو ہفتوں میں ایک اسکیم لارہے ہیں۔

اس اسکیم کے تحت ان کاروبار کے بحال ہونے پر ابتدائی کچھ عرصہ میں بجلی کے بلز میں امداد دی جائے گی جس کے لیے بجلی کی کھپت کے حوالے سے اعداد و شمار جمع کیے جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ بہت سے کاروبار کو مالی امداد کی ضرورت ہوگی کیوں کہ کسی سہارے کے بغیر ان کے ہمیشہ کے لیے مفلوج ہونے کا اندیشہ ہے لہٰذا قرضِ حسنہ کی طرح کی کوئی اسکیم کا اعلان کیا جائے گا۔

حماد اظہر کا مزید کہنا تھا کہ رمضان کے دوران روزمرہ ضرورت کی اشیا کی فراہمی میں کمی نہ ہو اس کے لیے ان اسٹورز پر اشیائے خوراک کا 10 گنا زیادہ اسٹاک پہنچایا جارہا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024