• KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am
  • KHI: Fajr 5:35am Sunrise 6:55am
  • LHR: Fajr 5:13am Sunrise 6:38am
  • ISB: Fajr 5:21am Sunrise 6:48am

کراچی: ایک ماہ میں کوورنا کے مقامی کیسز کی تعداد 88 سے بڑھ کر 1033 ہوگئی

شائع April 23, 2020
ماہرین  کے مطابق لاک ڈاؤن کو ایک مہینہ گزر جانے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیابی سے متعلق صورتحال تاحال غیر واضح ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
ماہرین کے مطابق لاک ڈاؤن کو ایک مہینہ گزر جانے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیابی سے متعلق صورتحال تاحال غیر واضح ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

سندھ میں گزشتہ ایک ماہ سے نافذ لاک ڈاؤن کے باوجود کراچی میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار حکام اور ماہرین کے لیے چیلنج ہے جہاں مقامی سطح پر منتقلی کے مریضوں کی تعداد 30 روز میں 88 سے بڑھ کر ایک ہزار 3 سو ہوگئی ہے۔

صحت حکام اور فراہم کردہ ڈٰیٹا کے مطابق کراچی میں کووِڈ-19 کے مجموعی اعداد و شمار 23 مارچ کے ایک سو 50 مریضوں سے بڑھ کر 2 ہزار 2 سو تک پہنچ گئے۔

سندھ حکومت نے 22 مارچ کو عالمی وبا کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے 23 مارچ سے ابتدائی طور پر 15دن تک لاک ڈاؤن کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے حکومتی عہدیداران اور صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے نمائندوں سے اجلاس میں مشاورت کے بعد صوبے کو لاک ڈاؤن کرنے کے ساتھ لوگوں کو کسی ٹھوس وجہ کے بغیر گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دینے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔

لاک ڈاؤن کے نفاذ کے اعلان سے متعلق پیغام میں وزیراعلیٰ سندھ نے کہا تھا کہ پابندیوں کا بنیادی مقصد مقامی سطح پر وائرس کی منتقلی کو روکنا ہے۔

مزید پڑھیں: حیدرآباد: کورونا کا شکار پولیس اہلکار کے اہل خانہ کے 10 افراد متاثر

انہوں نے کہا تھا کہ مقامی سطح پر کووڈ-19 کی منتقلی کے کیسز پھیل رہے ہیں اور ہمیں اسے روکنا ہے ورنہ ہر چیز قابو سے باہر ہوجائے گی۔

23 مارچ کو کراچی میں کووڈ-19 کے ایک سو 33 مصدقہ کیسز میں 88 مقامی سطح پر منتقلی کے تھے جو اب مجموعی طور پر 2 ہزار 2 سو 7 پر پہنچ گئے ہیں ان میں سے 13 سو مقامی سطح پر منتقلی کے ہیں۔

مذکورہ تعداد سے معلوم ہوا ہے بیرون ملک کی سفری تاریخ نہ رکھنے والے افراد کی تعداد میں 1000 گنا اضافہ ہوا اور وہ صرف اپنے سماجی رابطوں کے ذریعے وائرس سے متاثر ہوئے۔

لاک ڈاؤن کو ایک ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ماہرین کا کہنا تھا کہ حکومت کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہونے سے متعلق صورتحال تاحال غیر واضح ہے۔

تاہم ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن نافذ نہ کرنے کی صورت میں مثبت کیسز کی تعداد کئی گنا بڑھ سکتی تھی۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سمجھتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کے مطلوبہ نتائج پورے نہیں ہوئے اور مقامی سطح پر منتقلی کی بات آئے تو صورتحال کو 'بدترین' قرار دیتے ہیں۔

اضافی احتیاط پر زور

گزشتہ روز جاری ویڈیو پیغام میں وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا تھا کہ یہ معمولی صورتحال نہیں ہے اور ہمیں اضافی احتیاط اور توجہ سے اس سے نمٹنا ہوگا۔

خیال رہے کہ نہ صرف وزیراعلیٰ سندھ بلکہ طبی ماہرین اور سائنسدان بھی موجودہ رجحان کو اچھا قرار نہیں دے رہے۔

تاہم طبی ماہرین صوبائی حکومت کی بروقت کارروائی کو سراہتے ہیں جس نے کسی حد تک وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار کو قابو میں رکھا ہے۔

ادویات کے پروفیسر ڈاکٹر سہیل اختر نے کہا کہ یہ آرام کرنے کا وقت نہیں ہے، وائرس کا پھیلاؤ عروج پر نہیں پہنچا لیکن اس میں اضافے کا رجحان برقرار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کوئی کورونا وائرس کا علاج نہیں کرسکتا لیکن اس کے پھیلنے سے روک سکتے ہیں اور ایک دوسرے سے رابطہ ہی اس کے پھیلاؤ کا واحد ذریعہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں کورونا کے نئے کیسز سے متاثرین 10ہزار 513 ہوگئے، 2337 افراد صحتیاب

ڈاکٹر سہیل اختر نے کہا کہ اگر ہم ایک دوسرے سے میل جول کو روکنے میں کامیاب ہوگئے تو ہم وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

خیال رہے کہ 13 مارچ سے جاری سماجی فاصلے کی مہم میں آئندہ 2 ماہ کے لیے اسکولز سمیت عوامی مقامات، شاپنگ مالز، مارکیٹس، بڑے کاروباری مقامات، سنیما، پارکس اور دیگر عوامی مقامات بند کرنے کے احکامات دیے گئے تھے۔

تاہم مکمل لاک ڈاؤن سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں مشکلات کا شکار ہوگئیں، ماہرین صحت کا ماننا ہے کہ اگر مہینے نہ بھی لگیں تو بھی وائرس کے پھیلاؤ کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے معمولات زندگی کی بحالی میں ہفتوں لگ سکتے ہیں۔

محکمہ صحت کے عہدیدار نے کہا کہ کراچی کے مختلف اضلاع میں مقامی سطح پر منتقلی کے مختلف رجحانات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں ضلع شرقی میں مقامی سطح پر منتقلی کے کیسز زیادہ ہیں، اس کے بعد ضلع غربی، کورنگی، جنوبی اور وسطی میں یہ رجحان ہے۔


یہ خبر 23 اپریل 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024