وزیر اعظم نے چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کو سزا کی منظوری دے دی
وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کردی ہے۔
وزیر اطلاعات شبلی فراز نے معاون خصوص برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کہ پاکستان تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں بھی یہ فیصلہ کیا ہوا تھا کہ جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو ہم تمام ان لوگوں کا احتساب کریں گے جنہوں نے اس ملک کے عوام کو ، اس ملک کے اداروں کو اور اس ملک کے مستقبل کو داؤ پر لگایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب چینی کا بحران آیا تو وزیر اعظم عمران خان نے فوراً ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا، روایت تو ہمیشہ یہی رہی ہے کہ فوراً انکوائری کمیشن بن جاتا ہے لیکن اس کی سفارشات پر کوئی عمل نہیں کیا جاتا اور وقت کے ساتھ لوگ اسے بھول جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اس بارے میں بہت سنجیدہ تھے لہٰذا انہوں اس کمیشن کی رپورٹ کو بھی پبلک کیا، کئی لوگوں کا خیال تھا کہ اسے عوام کے سامنے نہیں لایا جائے گا، اس کے بعد فارنزک آڈٹ ہوا اور اس پر بھی لوگوں کے شکوک تھے کہ بات شاید اس سے آگے نہیں بڑھے گی کیونکہ شوگر کے شعبے میں بڑے بڑے طاقتور لوگ بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ناصرف مقررہ وقت پر فرانزک آڈٹ ہوا بلکہ اس کی تفصیلات بھی عوام کو بتائی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: چینی بحران رپورٹ: 'جہانگیر ترین، مونس الہٰی،شہباز شریف فیملی کی ملز نے ہیر پھیر کی'
شبلی فراز نے کہا کہ کئی لوگوں کا خیال تھا کہ معاملہ یہیں رفع دفع ہو جائے گا لیکن ہمارا احتساب اور اس ملک کو آگے لے جانے کا عزم اور عوام کے مفادات کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔
اس موقع پر معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ یہ رپورٹ گزشتہ پانچ سال کی سرگرمیوں کا احاطہ کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ شوگر کی صنعت میں اہم کھلاڑی اور افراد بے ضابطگی سے مافیا کے انداز میں کام کرتے ہیں اور سیاسی اثرورسوخ کے حامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شوگر انڈسٹری کے لوگ من چاہی زیادتیاں کر رہے تھے، یہ مافیا کی طرح کام کر رہے تھے اور اس میں موجود تمام ہی اہم اور بڑے افراد کسی نہ کسی طرح کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے جس کی وجہ سے فیصلہ سازی بالواسطہ یا بلاواسطہ اثرانداز ہورہے تھے اور اس کا نتیجہ غریب عوام کی جیب سے پیسہ نکالنا تھا چاہے وہ قیمت بڑھا کر ہو، ٹیکس چوری سے ہو یا سبسڈی لے کر اپنی تجوریاں بھرنا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب کے دور میں جب چینی کی قیمتں بڑھیں تو انہوں نے پاکستانی عوام سے وعدہ کیا کہ میں اس معاملے کی تحقیق کراؤں گا، اس معاملے کو منظر عام پر بھی لاؤں گا اور اس میں ملوث افراد کے خلاف ایکشن لیا جائے گا چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے کیوں نہ ہو۔
مزید پڑھیں: چینی اسکینڈل: 'شہزاد اکبر اور وفاقی حکومت ،وزیراعظم کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں'
شہزاد اکبر نے بتایا کہ وزیر اعظم صاحب کا فیصلہ ہے کہ چاہے کوئی شخص کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، اس کا کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق ہو، وہ مالی طور پر یا باقی کسی طریقے سے کتنا ہی زورآور کیوں نہ ہو، اسے جواب دہی کرنی پڑے، یہی پاکستان تحریک انصاف کا منشور ہے اور یہی وہ مینڈیٹ ہے جو پاکستان کے عوام نے انہیں دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کمیشن اور وفاقی کابینہ کی ہدایات کی روشنی میں اپنی سفارشات میں نے وزیر اعظم کو جمع کرائی جس پر آج سینئر قیادت کے ساتھ بنی گالا میں تفصیلی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نے سفارشات کی منظوری دے دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو عمل کیا جائے گا اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جس میں پہلا حصہ پینل ایکشن ہے یعنی ان لوگوں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا جنہوں نے پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کی اور کسی بھی پینل ایکشن کی ضمن میں آتے ہیں جس میں سزا کے ساتھ ساتھ وصولی کا عمل بھی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوسرے حصے کے تحت انضباطی فریم ورک میں جو تبدیلیاں شامل ہیں جس میں انڈسٹری اور کمیشن کی رپورٹ کو یکجا کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ
انہوں نے کہا کہ تیسرا اور سب سے اہم حصہ یہ ہے کہ شوگر کی قیمتوں کو لے کر کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ قیمتیں اس معیار پر واپس آ جائیں جو چینی کی پیداواری قیمت ہے، پہلی مرتبہ کمیشن نے چینی کی قیمت معلوم کی ہے کیونکہ اس سے پہلے شوگر مل ایسوسی ایشن والے ہی بتاتے تھے کہ چینی کتنے میں بتاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سفارشات کو لے کر میں گیا تھا جنہیں وزیر اعظم نے منظور کر لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پینل ایکشن اور وصولیوں کے سلسلے میں 7اہم ایکشن کی سفارش کی گئی جس کی وزیر اعظم نے منظوری دے دی۔
شہزاد اکبر نے بتایا کہ ان سات ایکشن میں سے سب سے پہلا سبسڈی کی تحقیقات کی جائے کہ سبسڈی کی مد میں شوگر کمیشن کے انکشافات کو دیکھتے ہوئے کیا ایکشن لیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پورے 29ارب کی سبسڈی کا معاملہ نیب کو بھیجا جا رہا ہے، نیب اس میں کرمنل انویسٹی گیشن کرے اور ماضی اور حال میں سبسڈی دینے جس بھی عہدے پر براجمان رہے ہوں، ان کے خلاف ایکشن ہو گا۔
مزید پڑھیں: نیب کا گندم، چینی اسکینڈل کی تحقیقات کا فیصلہ
شہزاد اکبر نے کہا کہ 15-2014 میں ساڑھے چھ ارب سبسڈی دی گئی، 16-2015 میں پھر 605ارب کی سبسڈی دی گئی جو اس وقت کی وفاقی حکومت نے منظور کی، 17-2016 میں وفاقی حکومت نے 20ارب کی سبسڈی دی جبکہ سندھ کی حکومت نے بھی 4.1ارب روپے کی سبسڈی دی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ 19-2018 میں وفاقی حکومت نے نہیں بلکہ حکومت پنجاب نے سبسڈی دی ور وہ معاملہ بھی نیب کو بھیجا جا رہا ہے کہ وہ اس کی انویسٹی گیشن کرے اور اگر اس میں کسی کا کردار ہے تو نیب قوانین کے تحت کارروائی کا مجاز ہے۔
معاون خصوصی نے بتایا کہ وزیر اعظم کی جانب سے اہم فیصلہ کیا گیا ہے کہ شوگر کے 5 سالہ فرانزک آڈٹ میں جو چیز سامنے آئی ہے سبسڈی کی مد میں، اس میں بلاتفریق زیادتی نظر آ رہی ہے اور ان کو سامنے رکھتے ہوئے نیب کو گزشتہ 20 سے 25سال میں جتنی بھی سبسڈی دی گئی ہیں، نیب کو ان سب کی تفتیش کے لیے ریفرنس بھیجا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خود احتسابی کی اس کے علاوہ کوئی مثال نہیں ملتی کہ ہم اپنی صوبائی حکومت کی جانب سے دی گئی سبسڈی کو بھی تفتیش کے لیے نیب میں بھیج رہے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پینل ایکشن کے تحت دوسرا مرحلہ آمدن اور سیلز ٹیکس فراڈ کی تحقیقات اور بے نامی ٹرانزیکشن کا پتہ چلانا ہے اور یہ معاملہ ایف بی آر کو تفویض کیا جا رہا ہے کیونکہ پانچ سال میں تمام ملوں میں سیلز ٹیکس فراڈ اور انکم ٹیکس کم دینے کے شواہد ملے ہیں اور بے نامی ٹرانزیکشن شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سلمان شہباز چینی اسکینڈل کے مرکزی کردار ہیں، شبلی فراز
انہوں نے کہا کہ یہ ایف آئی اے کو اس لیے بھیجا جا رہا ہے تاکہ اس میں وصولیاں ہوں اور ایف بی آر کو حکم دیا جا رہا ہے کہ 90دن میں کارروائی ہونی چاہیے اور 90 دن کے اندر ہی وصولی بھی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایف بی آر کو کہہ رہے ہیں کہ ان 9 ملوں کے علاوہ جو ملیں ہیں ان کا بھی آڈٹ کریں کیوکہ اس کی بدولت خاطر خواہ وصولی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حمزہ شوگر ملز کا ایک سال میں 1.19ارب کا ٹیکس فراڈ سامنے آیا، دوسرے سال 2.88ارب جبکہ العریبیہ کے دو سال کی سوا سے ڈیڑھ ارب کی ٹیکس چوری سامنے آئی۔
شہزاد اکبر نے اس سلسلے میں تیسری چیز گٹھ جوڑ کی تحقیقات ہے اور یہ معاملہ مسابقتی کمیشن کو سونپا جارہا ہے اور انہیں 90 دن کا وقت دیا جا رہا ہے اور ان کا یہ کام ہے کہ یہ گروہ بندی نہ ہو کیونکہ یہ لوگ اپنے دھڑے بنا کر عوام کو لوٹتے ہیں اور من مانی کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسابقتی کمیشن اس سلسلے میں رپورٹ دے گا اور اس سلسلے میں قانون کے تحت جرمانے کیے جائیں گے اور وصولیاں بھی ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں چوتھی چیز برآمدات کی تحقیقات، قرض کی عدم ادائیگی، وصول نہ ہونے والی رقوم اور پلیج اسٹاکس شامل ہیں اور اس کی تحقیقات اسٹیٹ بینک آف پاکستان کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس میں جعلی برآمدات دکھا کر سبسڈیز لی جاتی ہیں یا برآمدات نہ کر کے غیرملکی زرمبادلہ کو حلال کرا لیا جاتا ہے اور یہ فراڈ کے ضمن میں آتا ہے جس کے شواہد اس کمیشن کے سامنے موجود ہیں۔
شہزاد اکبر کے مطابق شوگر کی صنعت میں لیے گئے قرض ادا نہیں کیے گئے اور رقوم بھی موصول نہیں ہوئیں، ان تمام کی تحقیقات کے لیے اسٹیٹ بینک کو 90دن کا وقت دیا جا رہا ہے جس میں وہ رپورٹ بنا کر کارروائی کریں گے۔
معاون خصوصی برائے احتساب کے مطابق اس سلسلے میں پانچویں چیز کارپوریٹ فراڈ کی تحقیقات ہے، اس میں پبلک لمیٹیڈ اور پرائیویٹ لمیٹیڈ کمپنیوں میں فراڈ کا پتا چلا ہے، شیئر ہولڈرز، اسٹاکس کے فراڈ سمیت مختلف معاملات ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ ایف آئی اے اور سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن بھجوایا جا رہا ہے اور انہیں 90 دن کے اندر اپنی تحقیقات مکمل اور متعلقہ عدالتوں میں معاملہ فائل کرنا ہے۔
شہزد اکبر نے بتایا کہ چھٹا ایکشن پوائنٹ افغانستان کو ممکنہ جعلی برآمدات اور منی لانڈرنگ ہے اور یہ معاملہ بھی ایف آئی اے کو دیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شوگر کمیشن کی رپورٹ میں واضح طور پر ثبوت ملے ہیں کہ ایک ٹرک جو 15 سے 20 ٹن وزن اٹھا سکتاہے ، اس میں80 ٹن کی رسیدیں کٹی ہوئی ہیں کہ افغانستان چینی برآمد کی جا رہی ہے۔
مزید پڑھیں: اپنی شوگر ملز کے فرانزک آڈٹ پر کوئی اعتراض نہیں، جہانگیر ترین
معاون خصوصی نے کہا کہ جو چینی ہمارے کاغذوں میں وہاں جا رہی ہے، وہ چینی وہاں پہنچ نہیں رہی، اس میں منی لانڈرنگ کا بھی عنصر ہے کیونکہ جو چینی آپ اپنی دستاویزات میں دکھاتے ہیں، وہ دراصل گئی ہی نہیں لیکن اس کے بدلے یہاں پیسے آتے ہیں تو دراصل وہ بلیک منی ہے جسے برآمدات دکھا کر وائٹ کیا گیا ہے۔
ان کا کہناتھا کہ یہ معاملہ بھی ایف آئی اے کو تفویض کیا جا رہا ہے جس کے تحت 90 دن کے اندر انہیں کیسز عدالتوں میں جمع کرانے ہوں گے۔
شہزاد اکبر نے بتاہا کہ ساتواں معاملہ یہ کہ بہت سے صوبائی قوانین کو توڑا گیا ہے، بہت سی شوگر ملوں میں انہوں نے اپنی استعداد میں اضافہ کیا ہے، ایسی ملیں ہیں کہ اگر ان کے پاس 8ہزار میٹرک ڈیلی کرشنگ کا لائسنس ہے تو انہوں نے 8 ملوں تک کی استعداد بڑھا لی ہے اور اس سلسلے میں کوئی منظوری بھی نہیں لی گئی، اس کا مطلب ہے کہ وہ جتنی بھ یاضافی چینی اور گنا لے کر جاتے ہیں اس کا کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا مسئلہ گنے کی کم ادائیگی، وقت پر ادائیگی نہ کرنا اور گنے کے وزن میں کٹوتی شامل ہے جبکہ علاقے کی ترقی کی مد میں جو رقم لی جاتی ہے اس میں بھی فراڈ نظر آ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان تمام چیزوں کو پنجاب، سندھ اور خیبر پختونخوا اینٹی کرپشن یونٹ کو بھیجا جا رہا ہے جس کے بعد وہ قانون کے تحت کارروائی کریں گے۔
معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ دوسرا ایکشن انضباطی کارروائی کی مد میں ہے تاکہ دوبارہ یہ فراڈ نہ ہو سکے اور اس سلسلے میں ہم سفارشات کررہے ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کا استعمال کرتے ہوئے شوگر کی بوریوں پر آئی آر کوڈز استعمال کیے جائیں، آن لائن اسٹاکنگ ایف بی آر سے منسلک ہو کہ کس کے پاس کتنا اسٹاک پڑا ہوا ہے اور وہ فیکٹری سے بار کوڈ کے ساتھ نکلے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے چینی کی قیمتوں کو لے کر تیسری چیز کی منظوری دی ہے اور پہلی مرتبہ آزادانہ بنیادوں پر حکومت نے یہ تخمینہ لگایا ہے کہ چینی کی پیداواری لاگت کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس کی پیداواری لاگت کی بنیاد پر ہمیشہ سے قیمت کا تعین کیا جاتا تھا وہ شوگر ملز ایسوسی ایشن پیداواری لاگت کا تعین کرتی تھی اور اسی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جاتا تھا لیکن پہلی مرتبہ کسی آزاد اور تیسرے فریق نے اس کا تخمینہ لگایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیداوری لاگت کا تخمینہ لگایا گیا تو اس میں بڑا واضح فرق ہے اور وزیر اعظم نے سفارشات کی منظوری دی ہے کہ وزیر صنعت کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنے گی جو شوگر پالیسی اور چینی کی قیمت پر پالیسی سازی کریں گے۔