اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان 'تاریخی امن معاہدہ'
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے مابین امن معاہدہ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعلقات استوار کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔
خبررساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹوئٹ میں کہا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تعلقات کو معمول پر لانا ایک 'بہت بڑی پیشرفت' ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ 'یہ ہمارے دو عظیم دوستوں کے مابین تاریخی امن معاہدہ' ہے۔
بعدازاں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اسرائیل اور اس کے خطے میں مسلمان پڑوسیوں کے مابین مزید سفارتی کامیابیاں متوقع ہیں۔
انہوں نے کہا کہ 'کچھ ایسی پیش رفت متوقع ہیں جس کے بارے میں ابھی بات نہیں کرسکتا'۔
دوسری جانب امریکا کے سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے اسرائیل اور یو اے ای کے مابین امن معاہدے کو 'تاریخی دن اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ایک اہم قدم' قرار دیا۔
مزیدپڑھیں: او آئی سی نے ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا امن منصوبہ مسترد کردیا
مائیک پومپیو نے کہا کہ امریکا کو اُمید ہے کہ یہ قابل تحسین قدم خطے میں 72 برس کی دشمنی کو ختم کرنے والے معاہدوں کے سلسلے میں پہل ہوگا۔
امریکا میں متحدہ عرب امارات کے سفیر یوسف ال اوطیبہ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ 'سفارتکاری اور خطے کے لیے ایک فتح' ہے۔
انہوں نے مزید کہا 'یہ عرب اسرائیل تعلقات میں ایک اہم پیشرفت ہے جس سے تناؤ کم ہوتا ہے اور مثبت تبدیلی کے لیے نئی توانائی پیدا ہوتی ہے'۔
علاوہ ازیں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ، اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد النہیان کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ انہیں اُمید ہے کہ 'یہ تاریخی پیشرفت مشرق وسطیٰ میں امن کو آگے بڑھائے گی'۔
امریکا کے صدر نے کہا کہ اسرائیلی اور متحدہ عرب امارات کے وفود آئندہ ہفتوں میں سرمایہ کاری، سیاحت، براہ راست پروازوں، سلامتی اور باہمی سفارتخانوں کے قیام سے متعلق دوطرفہ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔
بیان میں کہا گیا کہ 'متحدہ عرب امارات کی حمایت کے ساتھ امریکی صدر کی درخواست پر اسرائیل، فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو منسلک کرنے کے اپنے منصوبوں کو معطل کردے گا'۔
مزید پڑھیں: مجوزہ امریکی منصوبے کے بعد فلسطین اوسلو معاہدے کا پابند نہیں رہا، محمود عباس
علاوہ ازیں مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل، عرب اور مسلم دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کو وسعت دینے پر اپنی کوششوں پر توجہ دے گا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ 'امریکا، اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کو یقین ہے کہ دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی کامیابیاں ممکن ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے مل کر کام کریں گے'۔
یہ تاریخی دن ہے، اسرائیلی وزیراعظم
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے جواب میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے عبرانی زبان میں ٹوئٹ کیا کہ 'یہ تاریخی دن' ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'میں اسرائیل کے اس تاریخی دن کے بارے میں مزید تفصیلات کے ساتھ شام 8 بجے ایک خصوصی اعلان کروں گا'۔
ایک سینئر اسرائیلی عہدے دار نے بتایا کہ مغربی کنارے کے علاقوں میں اسرائیلی خودمختاری کا معاملہ تاحال ایجنڈے میں شامل ہے۔
اس ضمن میں عہدیدار نے مزید بتایا کہ 'ٹرمپ انتظامیہ نے ہم سے (خود مختاری) پر مبنی اعلان کو عارضی طور پر معطل کرنے کے لیے کہا ہے تاکہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ تاریخی امن معاہدے پر عمل درآمد ممکن ہو سکے'۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کا اسرائیل اور فلسطین کے لیے امن منصوبے کا اعلان
متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور گرگش نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ ایک جرات مندانہ اقدام ہے، جس سے طویل عرصے سے جاری اسرائیل اور فلسطین تنازع کا حل ممکن ہوسکے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں سفارت خانے سے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس میں یقینی طور پر زیادہ وقت نہیں لے گا۔
واضح رہے کہ 27 نومبر 2015 میں اسرائیل نے متحدہ عرب امارات میں باقاعدہ سفارتی سطح کا مشن تعینات کرنے کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔
خبر رساں ادارے رائٹرز نے اسرائیلی سفارت کاروں کے حوالے سے رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل کا متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں یہ پہلا باقاعدہ سفارتی دفتر ہو گا جو ابو ظہبی میں انٹرنیشنل رینیوبل ایجنسی میں قائم ہوگا۔
واضح رہے کہ اسرائیل کے عرب ریاستوں کے ساتھ رسمی طور پر سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اسرائیل کے رسمی سفارتی تعلقات 2 پڑوسی عرب ممالک مصر اور اردن سے ہیں۔
مزیدپڑھیں: کیا عرب ممالک فلسطین کو دھوکہ دے رہے ہیں؟
2015 میں ایران کا امریکا اور دیگر مغربی طاقتوں سے جوہری پروگرام پر معاہدہ ہوا تھا جس کے بعد سے عرب ریاستوں اور اسرائیل میں قربت بڑھ گئی تھی کیونکہ اسرائیل اور عرب ممالک اس معاہدے کے خلاف رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی وجہ فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بات مدِ نظر رہے کہ اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر 1967 کی 6 روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور بعد میں اس کا الحاق کرلیا تھا جسے بین الاقوامی برادری نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔
اسرائیل پورے شہر کو اپنا دارالحکومت قرار دیتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنی مستقبل کی ریاست کے دارالحکومت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے جبکہ فلسطین نے ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبے کو پیش کیے جانے سے قبل ہی مسترد کردیا تھا۔
فلسطین اور عالمی برادری اسرائیلی آبادیوں کو جنیوا کنونشن 1949 کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے جو جنگ کے دوران قبضے میں لی گئی زمین سے متعلق ہے جبکہ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیتا ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے متعدد مرتبہ اعلان کیا تھا کہ اسرائیل کے آزاد فلسطین کے علاقوں تک توسیع اور اس کے اسرائیلی ریاست میں انضمام کے منصوبے پر یکم جولائی سے کابینہ میں بحث شروع ہوگی تاہم یہ ملتوی کردی گئی تھی۔
یاد رہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے 23 اپریل کو کہا تھا کہ اگر مقبوضہ مغربی کنارے کا اسرائیل میں انضمام کیا گیا تو فلسطینی حکام کے اسرائیل اور امریکا سے ہوئے معاہدے کو مکمل طور پر منسوخ تصور کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے امریکا اور اسرائیلی حکومت سمیت متعلقہ بین الاقوامی فریقین کو آگاہ کردیا کہ اگر اسرائیل نے ہماری زمین کے کسی حصے کا انضمام کرنے کی کوشش کی تو ہم ہاتھ باندھے نہیں کھڑے رہیں گے۔
حالیہ پیش رفت سے متعلق ماضی میں کیے جانے والے اعلانات
خیال رہے کہ 6 اکتوبر 2019 کو اسرائیل کے وزیر خارجہ اسرائیل کیز نے کہا تھا کہ وہ مستقبل کے ممکنہ معاہدوں کے پیش خیمے کے طور پر ان عرب ممالک کے ساتھ ’عدم جارحیت‘ کا سمجھوتہ کررہے ہیں جنہوں نے اسرائیل کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا۔
رپورٹ کے مطابق تجویز کی مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا تاہم یہ اسرائیل کی جانب سے ان خلیجی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی نئی کوشش ہے جس کے ساتھ اس کے سفارتی تعلقات قائم نہیں۔
اسرائیلی وزیر نے کسی خلیجی ملک کا نام لیے بغیر بتایا تھا کہ انہوں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اس حوالے سے مختلف عرب ممالک کے وزرائے خارجہ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ برا ہونے والے سفیر جیسن گرین بلیٹ سے بات چیت کی۔
اس سے تقریباً ایک سال قبل اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے عمان کے سلطان قابوس کے ساتھ اچانک ملاقات کی تھی۔
دوسری جانب اسرائیل کیز کا کہنا تھا کہ انہوں نے جولائی میں بحرینی ہم منصب سے پہلی مرتبہ دورہ واشنگٹن کے موقع پر عوامی سطح پر ملاقات کی۔
قبل ازیں جون کے اواخر میں اسرائیلی صحافیوں کے ایک گروہ نے اسرائیل اور فلسطین امن کے حوالے سے امریکی سربراہی میں بحرین میں ہونے والی اقتصادی کانفرنس میں شرکت کی تھی تاہم صورتحال اس وقت اچھی نہیں رہی جب عرب ریاستوں سے ایک گروہ اسرائیل کے دورے پر آیا۔
اسرائیلی شہریوں کو سعودی عرب جانے کی اجازت
26 جنوری 2020 کو یہ رپورٹ سامنے آئی تھی کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات پر جمی برف ہر گزرتے دن کے ساتھ پگھلتی جا رہی ہے اور اسرائیل نے اپنے شہریوں کو پہلی مرتبہ سعودی عرب جانے کی باضابطہ اجازت دے دی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ اسرائیل کے وزیر داخلہ آریائی دیری نے ملک کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے مشاورت کے بعد بیان جاری کیا کہ اسرائیلی شہریوں کو دو صورتوں میں سعودی عرب جانے کی اجازت ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی شہری مذہبی امور یعنی عمرے یا حج کی ادائیگی یا پھر کاروباری وجوہات یا سرمایہ کاری کی غرض سے 90دن کے لیے سعودی عرب کا دورہ کر سکیں گے۔
یہ یاد رہے کہ اس سے قبل اسرائیل کے عوام کسی تیسرے ملک خصوصاً اردن سے ہو کر سعودی عرب جاتے تھے لیکن اب وہ براہ راست سعودی عرب جاسکتے ہیں۔
تاہم اس بیان کے دوسرے ہی روز سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود نے واضح کیا تھا کہ اسرائیل کا پاسپورٹ رکھنے والے افراد سعودی عرب میں داخل نہیں ہوسکتے۔
امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود کا کہنا تھا کہ ‘ہم فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے اور مسئلے کے حل کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے لیے بہت ضروری ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ مسئلہ ضرور حل ہونا چاہیے اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے کے لیے ہونے والی ہر کوشش کی حمایت کریں گے’۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین کے مغربی کنارے کے اہم حصوں کو ضم کرنے سے متعلق متعدد اعلانات کے بعد مشرق وسطیٰ میں کسی نئی کشیدگی کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ، عرب لیگ (اے ایل) اور یورپی یونین نے اسرائیل سے منصوبے کو ترک کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ رواں سال 2 جون کو متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ انور قرقاش نے کہا تھا کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے انضمام کے لیے یکطرفہ فیصلہ مشرق وسطیٰ کے امن عمل کے لیے خطرناک دھچکا ہوگا۔
انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا تھا کہ 'فلسطینی سرزمین کے انضمام سے متعلق اسرائیل کی باتیں بند ہونی چاہئیں۔'