جرمنی میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ جاننے کیلئے تجرباتی میوزک کنسرٹ
جرمنی کے سائنسدانوں نے عالمی وبا کورونا وائرس کے دوران عوامی مجمعے سے جڑے خطرات پر تحقیق کے لیے ایک روز میں 3 پاپ میوزک کنسرٹس کا انعقاد کیا۔
نوول کورونا وائرس کس طریقے سے بڑے ہجوم میں پھیلتا ہے؟ سے متعلق تحقیق میں جرمنی کے انڈور کنسرٹ میں فیس ماسکس، ڈس انفیکٹنٹس اور ٹریکنگ آلات سے لیس 1500 کے قریب رضاکاروں نے شرکت کی۔
یہ تحقیق ایک ایسے وقت میں کی گئی جب جرمنی میں اپریل کے اواخر کے بعد کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
جرمنی کے رابرٹ کوچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق 2 روز قبل 22 اگست کو جرمنی میں عالمی وبا کے 2 ہزار سے زائد کیسز کی تصدیق ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ جرمنی میں نومبر تک عوامی تقریبات پر پابندی عائد ہے جس کی وجہ سے وہاں میوزیکل کنسرٹس اور انٹرٹینمنٹ سے وابستہ افراد کو شدید مالی مسائل کا سامنا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق ری اسٹارٹ 19 اسٹڈی نامی تحقیق کے تحت ہالے میں یونیورسٹی میڈیکل سینٹر کے محققین یہ پتا لگانا چاہتے ہیں کہ آبادی کے متاثر ہوئے بغیر ثقافتی و کھیلوں کے میلے اور دیگر عوامی مجمعوں کا انعقاد کیسے کیا جائے۔
اس ضمن میں لیپزگ انڈور ارینا میں جرمن گلوکار ٹم بینڈکوز نے کنسرٹ میں پرفارم کیا تھا، جہاں داخلے سے قبل رضاکاروں کو ہسپتالوں میں استعمال ہونے والے حفاظتی فیس ماسکس اور سینیٹائزر کی بوتلیں دی گئی تھیں۔
انہوں نے بتایا تھا کہ تحقیق کے نتائج آئندہ 4 سے 6 ہفتوں میں آئیں گے، جس کے لیے جرمن ریاستوں زاکسن اور زاکسن-آنہالت نے مالی مدد فراہم کی ہے۔
جرمن شہر لائپزگ میں ہالے یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ہفتے کے روز ایک خصوصی میوزیکل کنسرٹ کے دوران اس بات کا اندازہ لگانے کی کوشش کی ہے کہ ہجوم والے عوامی مقامات میں انفیکشن پھیلنے کا خطرہ کتنی حد تک بڑھ سکتا ہے۔
3 تجرباتی کنسرٹس
محققین کا کہنا تھا کہ ری اسٹارٹ تحقیق وہ حالات جاننے کے لیے کی گئی ہے تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کن حالات میں عالمی وبا کے باوجود ایسی تقریبات منعقد کی جاسکتی ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں 21 اگست کو 3 کنسرٹس کا انعقاد کیا گیا تھا۔
پہلے کنسرٹ میں عالمی وبا سے قبل معمول کے ایونٹ کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔
دوسرے کنسرٹ میں صحت کے حفاظتی اصول اور کچھ سماجی دوری شامل تھی جبکہ تیسرے کنسرٹ میں شرکا کی تعداد میں 50 فیصد کمی کی گئی تھی اور ہر شخص کے درمیان ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ تھا۔
سماجی فاصلوں کی نگرانی
برطانوی خبررساں ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس تجربے میں تقریباً 1500 صحت مند رضاکاروں نے حصہ لیا جن کی عمریں 18 سے 50 برس کے درمیان تھیں۔
تاہم کنسرٹس میں حصہ لینے والے افراد کی تعداد متوقع شرکا کی تعداد کے ایک تہائی پر مشتمل تھی۔
کنسرٹ کا حصہ بننے سے قبل تمام شرکا کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ لازمی تھا اور ان کے سماجی فاصلے کی پیمائش کے لیے فیس ماسکس اور ٹریکنگ ڈیوائسز بھی دی گئی تھیں۔
اس کے ساتھ ہی محققین نے چمکدار (فلورسنٹ) ڈس انفیکٹنٹ کا استعمال بھی کیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ شرکا نے کن سطحوں کو زیادہ چھوا تھا۔
اس کے علاوہ سائنس دانوں نے ہوا میں موجود چھوٹے ذرات ’ایروسول‘ کی نقل و حرکت بھی جاننے کی کوشش کی جو وائرس کی منتقلی کی وجہ بن سکتے ہیں۔
محققین کیا کہتے ہیں؟
تحقیق کے سربراہ اسٹیفن مورٹز نے کنسرٹ کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ میں شرکا کی جانب سے نظم و ضبط کے مظاہرے پر بہت مطمئن ہوں۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں حیران تھا کہ ہر شخص ماسک پہنے کس طریقے سے منظم تھا۔
ڈاکٹر اسٹیفن مورٹز نے کہا کہ ڈیٹا جمع کرنے کا کام بہت بہتر انداز میں چل رہا ہے لہذا ہمارے پاس اچھے معیار کے اعداد و شمار موجود ہے اور ہم ماسک پہننے اور ڈس انفیکٹنٹس استعمال کرنے میں نظم و ضبط سے بہت مطمئن ہیں۔
دوسری جانب گلوکار ٹم بینڈزکو نے کہا کہ پروگرام ان کی توقعات سے زیادہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے بہت لطف اٹھایا پہلے میں نے سوچا تھا کہ ماسک کی وجہ سے اچھا نہیں ہوگا لیکن یہ حیران کن طور پر اچھا ثابت ہوا۔
گلوکار کا کہنا تھا کہ مجھے اُمید ہے کہ ان نتائج سے جلد حقیقی کنسرٹس منعقد کرنے میں مدد ملے گی۔