• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
شائع September 4, 2020 اپ ڈیٹ September 5, 2020

یہ وہ دریائے سوات ہے ہی نہیں

امجد علی سحاب

مدین سے آگے دریا کے کنارے بل کھاتی سڑک پر ہماری گاڑی فراٹے بھرتے ہوئی جا رہی تھی اور نیچے گدلا پانی دریا کے کناروں پر تعمیر شدہ پختہ پشتوں سے سر پٹخ رہا تھا۔

جھیلوں اور آبشاروں کی وادی ’سوات‘ ایک غراتے ہوئے گدلے دریا اور بپھری ہوئی لہروں کی نذر ہو، سنگ دل سے سنگ دل بندہ بھی یہ نہیں چاہے گا۔ آج جب دریائے سوات پر نظر پڑی، گدلا پانی اور سماعت خراش شور، یہ وہ دریا ہے ہی نہیں جس کے کنارے بیٹھ کر سیاح اپنی تھکن اتارنے آیا کرتے ہیں۔ جہاں جوڑے ٹھنڈے پانی میں پاؤں ڈال کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ایک دوجے میں کھو جاتے ہیں۔

ڈونچار آبشار کے راستے میں دریائے سوات کی بے مثال خوبصورتی کا ایک منظر—فوٹو: امجد علی سحاب
ڈونچار آبشار کے راستے میں دریائے سوات کی بے مثال خوبصورتی کا ایک منظر—فوٹو: امجد علی سحاب

پہاڑوں کی چوٹیوں سے پگھلتی برف کا پانی—فوٹو: امجد علی سحاب
پہاڑوں کی چوٹیوں سے پگھلتی برف کا پانی—فوٹو: امجد علی سحاب

آج یہ سرے سے وہ دریا دکھائی ہی نہیں دے رہا جس کے کنارے بچے اور من چلے سیلفیاں لیتے نہیں تھکتے، اور اس کے زمرد جیسے پانی کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کرتے ہیں۔ اس کے کنارے بھنگڑے ڈالتے اور اتنڑ (پشتون رقص) کرتے ہیں۔ بعد میں ان سیلفیوں اور تصاویر کو سوشل میڈیا کی زینت بنا کر دنیا جہاں سے داد کے ڈونگرے برسانے کی امید کرتے ہیں۔

مجھے کہنے دیجیے کہ یہ وہ دریا ہے ہی نہیں جو نہ صرف سوات بلکہ دریائے سندھ میں مدغم ہونے تک راستے میں جتنے کھیت ہیں، سب کو کسی حاتم طائی کی طرح اپنے میٹھے پانی سے نوازتا ہے، اور وہاں تک کی تمام زمینیں بدلے میں سونا اگلتی ہیں۔

ایک سیاح دریائے سوات کے کنارے مشہور سیاحتی مقام بلیو واٹر میں سکون کے لمحات کشید کر رہا ہے—فوٹو: امجد علی سحاب
ایک سیاح دریائے سوات کے کنارے مشہور سیاحتی مقام بلیو واٹر میں سکون کے لمحات کشید کر رہا ہے—فوٹو: امجد علی سحاب

بحرین کے مقام پر قائم مشہور ’سیلفی پُل‘ کے نیچے پانی کا ریلا نظر آ رہا ہے—فوٹو: رحیم صابر توروالی
بحرین کے مقام پر قائم مشہور ’سیلفی پُل‘ کے نیچے پانی کا ریلا نظر آ رہا ہے—فوٹو: رحیم صابر توروالی

لیکن آج یہ دریا بپھر گیا ہے۔ آج مجھے اسے دیکھتے ہوئے جھرجھری سی محسوس ہوتی ہے۔ آج اس کی لہریں کناروں سے نکل کر آس پاس کے کھیت کھلیانوں، باغات اور آبادی کسی چیز کو خاطر میں نہیں لا رہیں۔ آج سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہہ رہا ہے اور ہم بالکل بے بس و لاچار کسی اونچی جگہ پر کھڑے ہوکر اس کی بدولت مچنے والی تباہی کا نظارہ کر رہے ہیں۔

مسلسل تیسرے روز کی موسلادھار بارش نے اس دیالو دریائے سوات کو طیش دلا دیا ہے۔ ندیوں اور نالوں میں ایسی طغیانی اور سیلابی صورتحال دیکھنے کو مل رہی ہے کہ 2010ء کی تباہ کن سیلاب کی یاد تازہ ہوگئی۔

ذرا اس دکھ کو ناپنے کے لیے کوئی آلہ تو بتائیے کہ اسی دریا کے کنارے سیکڑوں سالوں سے آباد لوگ آج محفوظ علاقوں کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ اپنے بھرے پرے گھروں کو چھوڑ کر کسی کی گود میں ننھا ہے، تو کسی کے کاندھوں پر ماں یا والد کی شکل میں بوڑھی ہڈیاں اور اگر رکیں گے، تو بپھری لہروں کی نذر ہوں گے۔

ایسا ہی ایک خاندان اپنے کاندھوں پر اشیائے خور و نوش کے کچھ تھیلے اٹھائے محفوظ مقام کی طرف رواں دواں تھا۔ ہم نے اپنی گاڑی روک لی۔ اس میں 14سالہ سمیع اللہ جس کی گود میں بھیڑ کا بچہ تھا، بارش میں بھیگا ہوا، اس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہیں؟ اس نے معصومانہ انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا گھر (جھونپڑی) دریا کی لہروں کی نذر ہوئی، اس لیے اب ہم اپنے چچا کے گھر جا رہے ہیں، جو اوپر پہاڑوں میں رہتے ہیں‘۔

بحرین بازار کا منظر جہاں پانی ہوٹلوں میں داخل ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے—فوٹو: رحیم صابر توروالی
بحرین بازار کا منظر جہاں پانی ہوٹلوں میں داخل ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے—فوٹو: رحیم صابر توروالی

بپھری ہوئی لہروں کا خوفناک منظر—فوٹو: رحیم صابر توروالی
بپھری ہوئی لہروں کا خوفناک منظر—فوٹو: رحیم صابر توروالی

میرے پاس دکھ ناپنے کا کوئی آلہ نہیں، ورنہ میں اس معصوم کا دکھ ناپتا۔ شدتِ غم سے میں اس کی تصویر اتارنا بھول گیا۔ اگر نہ بھی بھولتا، تو شاید پھر بھی اتار نہ پاتا۔

محکمۂ آبپاشی ضلع سوات کے فلڈ سیل کے مطابق منگل کی صبح خوازہ خیلہ (سوات کی بڑی تحصیلوں میں سے ایک) کے مقام پر دریائے سوات میں پانی کا بہاؤ 35 ہزار 710 کیوسک اور اونچے درجے کا سیلاب ریکارڈ کیا گیا۔ فلڈ سیل کے مطابق دوپہر کو پانی کا بہاؤ 51 ہزار 280 کیوسک اور اونچے درجے کا سیلاب تھا۔ باقی خود اندازہ لگائیے، ابھی بارش کی پیش گوئی جمعہ کے روز تک ہے۔ تب تک پلوں کے نیچے کتنا پانی بہہ چکا ہوگا اور کتنی چیزیں خس و خاشاک کی طرح بہہ چکی ہوں گی، واللہ اعلم!

وہ سیاح جو ہر سال مدین، بحرین، کالام اور دوسرے سیاحتی مقامات کا رُخ کرتے ہیں، ان کو انتظامیہ نے سیلابی صورتحال کے پیشِ نظر پہلے ہی سوات چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے علاوہ قیمتی جانوں کو بچانے کی غرض سے دریا کنارے ہوٹلوں کو بھی بند کردیا گیا ہے۔

ساہیوال سے آئے ہوئے ایک مہمان شہزاد نیازی نے کانوں کے لو کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا کہ ’میں دو بار سوات آیا ہوں لیکن پہلی مرتبہ دریا کو اس طرح غصے سے بھرپور دیکھا ہے‘۔

اب اس تباہی کے تخمینے لگائے جائیں گے، دفتر کے دفتر سیاہ کیے جائیں گے، مگر جو اطلاعات ہیں، ان کے مطابق سوات کے خوبصورت سیاحتی مقام مدین کے علاقہ بیلہ میں 3 پُل سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں، جس کی وجہ سے اکثر علاقوں کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا ہے۔ اب وہاں غذائی قلت کا سامنا ہوگا۔ صحت کے مسائل الگ سے کھڑے ہوں گے لیکن دوا دارو پہنچانے کے لیے کوئی رابطہ پل بھی نہیں رہا۔

بحرین کے ایک مقامی صحافی اور نوجوان لکھاری رحیم صابر توروالی کے مطابق ’کالام کی طرف سے آنے والے پانی نے اتنا نقصان نہیں کیا، جتنا درال جھیل سے نکلنے والے پانی نے کیا ہے‘۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’بحرین کے مقام پر درال اور کالام سے آنے والے پانی کا سنگم ہوتا ہے۔ اسی سنگم پر بحرین کا ایک چھوٹا بازار واقع ہے۔ کئی ہوٹلوں اور ریسٹورنٹ کے ساتھ یہاں ایک مسجد بھی ہے، جو سیلاب کی نذر ہوچکی۔ دریال درے میں بیشتر گھر غرق ہوچکے ہیں۔ اس طرح درال کی سڑک (جو ایک مقامی این جی او نے تعمیر کی تھی) بہہ چکی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی طور پر لکڑی سے بنائے گئے 7 سے 8 پُل بھی سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں‘۔

ہمارے اس غم سے بھرے سفر میں کئی بُری اور دل شکن خبروں میں ایک اچھی خبر تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی کہ مدین ہی کے علاقہ ’جرے‘ میں پانی کے ریلے میں پھنسے 13 افراد کو باحفاظت نکال لیا گیا۔ 13 زندگیاں بچ گئیں۔ اس سے اچھی خبر اور کیا ہوسکتی ہے!

ہم پشتون بھی بعض اوقات بڑی عجیب قسم کی حرکتیں کرنے لگ جاتے ہیں۔ ایک طرف اگر دریائے سوات کی بپھری لہریں ہیں، تو دوسری طرف ان کا مقابلہ کرنے کچھ عقل سے عاری کھوپڑیاں۔

بپھری لہریں خانۂ خدا کو لپیٹ میں لیے ہوئی ہیں—فوٹو: رحیم صابر توروالی
بپھری لہریں خانۂ خدا کو لپیٹ میں لیے ہوئی ہیں—فوٹو: رحیم صابر توروالی

درال جھیل سے نکلنے والے پانی کا خوفناک منظر—فوٹو: رحیم صابر توروالی
درال جھیل سے نکلنے والے پانی کا خوفناک منظر—فوٹو: رحیم صابر توروالی

اس سیلاب سے جہاں کچھ لوگ اپنی زندگیاں بچانے محفوظ علاقہ ڈھونڈ رہے ہیں، وہیں کچھ سرپھرے لہروں میں کود کر لکڑیاں پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ بُری خبر سننے کو ملنا کوئی انہونی نہیں کہ لکڑیاں پکڑنے کی کوشش میں 2 نوجوان لہروں کی نذر ہوگئے۔ ایک کی لاش مل چکی ہے جب کہ دوسرے کی تلاش جاری ہے۔

28 اگست کو اوّلین پانی کے ریلے میں 9 لاشیں دریا سے نکالی جاچکی ہیں جبکہ 2 افراد تاحال لاپتا ہیں۔

اگر سچ کہوں، تو اس تباہی میں ہم برابر کے شریک ہیں۔ دریا کنارے آبادی کی تو پھر بھی کوئی وجہ بن سکتی ہے، لیکن دریا کی زمین گھیر کر اس پر تعمیرات کرنا کہاں کا انصاف ہے؟

جنگلات کی بے دریغ کٹائی جاری ہے، مگر ہم ہیں کہ خوابِ خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ گرمی سب کو یکساں لگتی ہے، مگر جب کوئی شجر کٹ کے گرتا ہے، تو تکلیف ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گننے والوں کو ہی ہوتی ہے۔ جب ہم قدرت کے بنائے ہوئے توازن میں بگاڑ کی کوشش کریں گے، تو سزا بھی بھگتیں گے۔ سو جان لیں کہ آج یومِ سزا ہے!

یہ ہے اس سوات کی دردناک کہانی ہے، جس کے حُسن کے قصے اکثر سناتے ہوئے پایا جاتا ہوں۔ آج اس کا نوحہ لکھتے ہوئے بخدا انگلیاں شل سی ہوئی جا رہی ہیں۔

اس موقع پر وہ مشہور ٹپہ (پشتو شاعری کی مشہور صنف) یاد آرہا ہے:

ژوند تہ پہ ورستوورستو گورم

لکہ بائیللے جوارگر چی کور تہ زینہ

ترجمہ: بیتی ہوئی زندگی پر سوچتا ہوں، تو ایسے لگتا ہے جیسے ہارا ہوا جواری بوجھل قدموں کے ساتھ واپسی کا راستہ ناپ رہا ہو!


امجد علی سحاب روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو کو بطور مضمون پڑھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (12) بند ہیں

احسان علی خان Sep 04, 2020 07:16pm
حالیہ سوات سیلاب پر اب تک کی سب سے بہترین تحریر۔
zeshan Sep 05, 2020 01:35am
the only point here is wrong constructions near to river and inside of river and thats it, no point of all this ho ha..mostly people died due to their own mistake..may Allah bless their souls..there were a lot of rains, resulted in floods. simple.
Muhammad mansoor Sep 05, 2020 07:57pm
سوات کی حالیہ تصویر کشی بہت حقیقت کے قریب تر کی گئ ہے لکھنے والے کی جرات کو سلام لو گوں کو موجودہ صورتحال سے سے باخبر رکھنے پر پر شکریہ
Dr shafiqur rehman Sep 06, 2020 06:10am
It's really sad to see this..natural disasters are happening all over world..but inshaAllah very soon beauty of Swat will return to it's original. Lot's of prayers from vehari.punjab.pakistan
Rahmat Sep 07, 2020 10:17am
We are all responsible for this . When there is no check and balance system in the country thats what happens and will be happening. We always try to build properties near dangerous points, in fact even take each Inchon land available from nature. Destroy nature in process and then keep crying like babies.
Tanveer Sep 07, 2020 11:41am
An excellent write-up
shahzad naeem Sep 07, 2020 12:18pm
good
Faisal Sep 07, 2020 03:44pm
The question is not what damage these floods will do, but the real irony is that we will continue to not learn anything from this! There should be some space between the border of the river and the construction of houses / hotels next to river. If we ignore this basic requirement, sooner or later the river will remind this rule to us.
Thanks Sep 07, 2020 05:02pm
No translation in English?
Sajida Hasnain Sep 07, 2020 06:26pm
Behtreen Urdu main behtreen Naqsha paish kiya hai.
moeen Sep 07, 2020 11:15pm
I went a week earlier from the rainy season. the valley was awesome, all these pictures of Bahrain shocked me,because the river was much cleaner at that time. Stay safe people. Needs a better management at local government level.
Najma shaheen Sep 08, 2020 12:15pm
Nice,but who is responsible?