• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

وفاق کا 'کے الیکٹرک' کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے پر غور

شائع September 6, 2020
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر—فائل فوٹو: رائٹرز
وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر—فائل فوٹو: رائٹرز

وفاقی حکومت کراچی میں بجلی کی فراہمی میں بہتری کے لیے کئی تجاویز پر غور کر رہی ہے اور حالیہ بارشوں کے بعد بجلی کی فراہمی میں ناکامی سے متعلق مختلف شکایات کے باعث ان تجاویز میں سے ایک کے الیکٹرک کا انتظامی کنٹرول سنبھالنے کا آپشن بھی ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ہفتہ کے روز کے الیکٹرک انتظامیہ سے کمپنی کے ہیڈ آفس میں ملاقات کی، جس کے بعد انہوں نے اپنے دورے کی وجوہات کے بارے میں میڈیا کو بتایا ساتھ ہی زیر بحث منصوبوں سے متعلق بھی آگاہ کیا۔

کے الیکٹرک کے ہیڈکوارٹرز کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ 'اس وقت پورے پاکستان کی توجہ کراچی پر ہے، ہم نے دیکھا ہے کہ کراچی کئی مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور بجلی کی فراہمی شہر کے اہم مسائل میں سے ایک ہے جس کا اسے گزشتہ کئی برسوں سے سامنا کرنا پڑ رہا ہے'۔

مزید پڑھیں: لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ: نیپرا نے کے الیکٹرک کو شوکاز نوٹس جاری کردیا

انہوں نے کہا کہ اسی مسئلے پر حال ہی میں سپریم کورٹ میں بھی روشنی ڈالی گئی تھی اور آج کی ملاقات اسی کراچی ترقیاتی پروگرام کا حصہ تھی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے کے الیکٹرک کی سینئر انتظامیہ سے ملاقات کی اور سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے معاملات پر تبادلہ خیال کیا اور کارکردگی میں بہتری کے لیے تجاویز کا تبادلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے لیے دیگر ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ان کی بات کے دوران یہ فیصلہ ہوا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں شہر کے بجلی کے بحران کے پائیدار حل کے لیے ساتھ بیٹھیں گی۔

اسد عمر کا کہنا تھا کہ 'اب کے الیکٹرک انتظامیہ اور صوبائی حکومت کے ساتھ ہمارا جو بھی بات چیت ہوئی ہے وہ وزیراعظم کے سامنے رکھی جائے گی'۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'ہمیں سنجیدگی سے اس آپشن کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ہمیں کے الیکٹرک کی موجودہ انتظامیہ کو ہی معاملات کو چلانے کی اجازت دینی چاہیے یا وفاقی حکومت کو معاملات اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے آگے آنے کی ضرورت ہے'۔

واضح رہے کہ سیاسی جماعتوں کے بڑھتے احتجاج، صارفین میں بڑھتا غصہ اور گرمی کے دوران کے الیکٹرک کی مسلسل خراب کارکردگی نے حکام کو متوجہ کیا تھا، مزید یہ کہ بارشوں نے بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے کمزور ڈھانچے کو مزید بدتر کردیا تھا جس کی وجہ سے کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی نہیں ہوسکی تھی جبکہ کمپنی تاخیر کا ذمہ دار علاقوں میں سیلابی صورتحال کو قرار دیتی رہی تھی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے یہ تنبیہ مرکز کی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے احتجاج کے بعد سامنے آئی۔

یہی نہیں کے الیکٹرک کی مسلسل خراب کارکردگی نے کراچی کے پوش علاقوں جیسے ڈی ایچ اے اور کلفٹن کے شہریوں کو بھی سڑکوں پر آنے پر مجبور کیا اور انہوں نے حکام سے طویل لوڈ شیڈنگ، بندش اور زائد بلنگ سے فوری ریلیف دینے کا مطالبہ کیا۔

'کراچی کیلئے بجلی ٹیرف میں اضافہ جائز'

تاہم جہاں ایک طرف وفاقی حکومت نے یہ تنبیہ دی وہی وفاقی وزیر نے نیشنل الیکٹرک اینڈ پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے کراچی کے لیے بجلی کے ٹیرف میں حالیہ اضافے کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نے آزاد ریگولیٹری باڈی کے فیصلے کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ 'کراچی کے بجلی صارفین کے لیے ٹیرف میں حالیہ اضافے کے پیچھے وجہ ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: کے-الیکٹرک کیخلاف اقدامات پر حکم امتناع خارج، نیپرا قانون کے سیکشن 26 پر عملدرآمد کا حکم

اسد عمر کے مطابق '2 سال قبل ملک بھر میں بجلی کے نرخ بڑھائے گئے تھے لیکن کراچی کے کچھ صنعتکاروں اور تاجروں نے عدالت سے رجوع کی اور کراچی کے لیے ٹیرف نہیں بڑھایا گیا، تاہم اب عدالت نے معاملے کو خارج کردیا (لہٰذا) کراچی کے لیے بھی ٹیرف بڑھ گیا'۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے فوری اطلاق کے ساتھ کراچی میں صارفین کے لیے بجلی کے نرخ میں 26 فیصد اضافے کی منظوری دی تھی۔

اقتصادی رابطہ کمیٹی نے کے الیکٹرک کی جولائی 2016 سے مارچ 2019 تک کی 11 سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کے تعین کیے لیے پاور ڈویژن کی جانب سے بھیجی گئی سمری کی منظوری دی تھی۔


یہ خبر 06 ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024