• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

میشا شفیع سمیت 9 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے والا ایف آئی اے افسر معطل

28 ستمبر کو گلوکارہ سمیت 9افراد  کےخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا — فائل فوٹو: انسٹاگرام
28 ستمبر کو گلوکارہ سمیت 9افراد کےخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا — فائل فوٹو: انسٹاگرام

لاہور: گلوکار و اداکار علی ظفر کے خلاف سوشل میڈیا پر مذموم مہم میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر گلوکارہ میشا شفیع سمیت 9 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے والے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے عہدیدار کو سروس سے معطل کردیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹر ایف آئی اے (سائبر کرائم ونگ) عامر فاروقی کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے میں کہا گیا کہ ’سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر لاہور میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر/ سینئر انویسٹی گیٹر (بی پی ایس-17) محمد آصف اقبال کی خدمات فوری طور پر تاحکم ثانی معطل کی جاتی ہیں‘۔

اس حوالے سے ایک سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ محمد آصف اقبال کو کوئی شوکاز نوٹس جاری نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی ان کی معطلی کی کوئی وجہ بتائی گئی۔

ذرائع کے مطابق محمد آصف اقبال کو اس ٹوئٹ کی بنیاد پر معطل کیا گیا جو انہوں نے میشا شفیع اور دیگر افراد سے متعلق کیس میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن 20 کی وضاحت دینے کے لیے کیا تھا۔

مزید پڑھیں: علی ظفر کی شکایت پر میشا شفیع، عفت عمر سمیت 9 افراد کے خلاف مقدمہ درج

انہوں نے کہا کہ معطل ہونے والے افسر نے کوئی تبصرہ نہیں کیا، نہ ہی اپنی رائے دی بلکہ صرف قانونی ٹوئٹ کی تھی اور اس میں شامل سزائیں بتائی تھیں۔

خیال رہے کہ 28 ستمبر کو پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) 2016 کے سیکشن (1) 20 اور پاکستان پینل کوڈ کے آر/ڈبلیو 109 کے تحت میشا شفیع، اداکارہ و میزبان عفت عمر، لینیٰ غنی، فریحہ ایوب، ماہم جاوید، علی گل، حزیم الزمان خان، حمنہ رضا اور سید فیضان رضا کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

اس حوالے سے محمد آصف اقبال کی ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ جو بھی فرد عوامی سطح پر غلط معلومات پھیلاتا ہے جو کسی شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچاتی ہیں تو وہ سائبر کرائم ایکٹ کے سیکشن 20 کے تحت جرم کا مرتکب ہے۔

ان کی ٹوئٹ میں اردو زبان میں کہا گیا تھا کہ قانون میں سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی خبریں پھیلا کر کسی دوسرے فرد کی ساکھ کو نقصان پہنچانے میں ملوث فرد کو 3 سال قید یا 10 لاکھ روپے جرمانے یا دونوں کی تجویز دی گئی ہے۔

ذرائع نے کہا کہ ایک وزیر کی بیٹی نے محمد آصف اقبال پر سوشل میڈیا پر علی ظفر کا ترجمان ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور ان کے خلاف مہم چلائی۔

انہوں نے لکھا تھا کہ ’خواتین، سنیں کہ ریاست ہمیں کیا بتارہی ہے کہ: ہم آپ کی سنتے ہیں لیکن پروا نہیں کرتے، ایف آئی آے زیادہ بری نہیں، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم لاہور بنیادی طور پر علی ظفر کے ذاتی ترجمان ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: علی ظفر کو بدنام کرنے والے جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی تفصیلات طلب

ذرائع نے کہا کہ اسلام آباد میں ’کچھ بااثر افراد‘ نے ایف آئی اے کے افسر کو معطل کرانے میں کردار ادا کیا۔

انہوں نے کہا کہ ‘تفتیش کار کو بھی انہی بنیادوں پر (میشا شفیع کے خلاف مذموم مہم چلانے) علی ظفر کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا‘۔

محمد آصف اقبال سوشل میڈیا پر کافی سرگرم رہے کیونکہ وہ سائبر کرائم سے جڑے جرائم اور قوانین سے متعلق آگاہی دیتے رہے ہیں۔

اسلام آباد میں ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر ایکٹو ہونا افسر کی معطلی کی بنیادی وجہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ دیگر حکومتی ملازمین کی طرح ایف آئی اے کے عہدیداران کو سوشل میڈیا پر رائے نہ دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

خیال رہے کہ نومبر 2018 میں علی ظفر نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں شکایت درج کروائی تھی جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ کئی سوشل میڈیا اکاؤنٹس ان کے خلاف 'توہین آمیز اور دھمکی آمیز مواد' پوسٹ کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: جنسی ہراساں کرنے کا الزام،علی ظفر نے میشا شفیع کو جھوٹاقرار دیدیا

انہوں نے اپنے دعوے کی حمایت میں ٹوئٹر اور فیس بک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی فراہم کی تھیں۔

علی ظفر نے الزام لگایا تھا کہ اپریل 2018 میں میشا شفیع کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزام سے ہفتوں قبل کئی جعلی اکاؤنٹس نے گلوکار کے خلاف مذموم مہم کا آغاز کیا تھا۔

گلوکار و اداکار نے کہا تھا کہ ان میں سے اکثر جعلی اکاؤنٹس مبینہ طور پر میشا شفیع سے منسلک تھے۔

دسمبر 2019 میں میشا شفیع اپنے وکلا کی ٹیم کے ساتھ ایف آئی اے میں پیش ہوئی تھیں۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ میشا شفیع علی ظفر کے خلاف اپنے (جنسی ہراسانی کے) الزام کی حمایت میں کوئی گواہ پیش کرنے میں ناکام ہوگئی تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024