• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سپریم کورٹ کا وزیراعظم کو انصاف وکلا فورم کی تقریب میں شرکت پر نوٹس

شائع October 12, 2020
سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نوٹس جاری کیا—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ
سپریم کورٹ نے وزیراعظم کو نوٹس جاری کیا—فائل فوٹو: عدالت عظمیٰ ویب سائٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے وزیراعظم عمران خان کو تحریک انصاف لائرز فورم (آئی ایل ایف) کی تقریب میں شرکت کرنے پر نوٹس جاری کردیا۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم عدالت عظمیٰ میں پنجاب میں زمینوں سے متعلق ایک کیس کی سماعت کے دوران سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیراعظم عمران خان کو کنوینشن سینٹر میں وکلا کی تقریب پر شرکت کرنے پر نوٹس جاری کیا۔

اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم پورے ملک کے ہیں کسی ایک گروپ کے نہیں، عمران خان ریاست کے وسائل کا غلط استعمال کیوں کررہے ہیں؟ یہ معاملہ آئین کی تشریح اور بنیادی حقوق کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بظاہر کنوینشن سینٹر میں وزیراعظم نے ذاتی حیثیت میں شرکت کی۔

مزید پڑھیں: ججز اور مسلح افواج کے افسران پلاٹس کے حقدار نہیں، جسٹس عیسیٰ

انہوں نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کی کسی خاص گروپ کے ساتھ لائن نہیں ہوسکتی، انہوں نے وکلا کی تقریب میں شرکت کرکے کسی ایک گروپ کی حمایت کی۔

ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ انچارج کنوینشن سینٹر بتائیں کہ کیا اس تقریب کے اخراجات ادا کیے گیے؟ایڈووکیٹ جنرل بھی کنوینشن سینٹر میں ہونے والے سیاسی اجتماع میں بیٹھے رہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا رتبہ بہت بڑا ہے، یہ تقریب کسی نجی ہوٹل میں ہوتی تو اور بات تھی، تقریب کے لیے ٹیکس دہندگان کی جگہ کا استعمال کیا گیا جبکہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب ایسی سرگرمیوں سے شریک ہوئے جن کا اس سے تعلق نہیں، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بننے کے بعد وہ اس قسم کی سرگرمیوں میں کیسے شریک ہوسکتے ہیں، کنوینشن سینٹر کسی کی ذاتی جائیداد نہیں،کیا سپریم کورٹ کا جج وکلا پینل کی تقریب منعقد کراسکتا ہے۔

اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل قاسم چوہان نے عدالت کو بتایا کہ ہر سیاسی جماعت کا ایک ونگ ہے، آئین کا آرٹیکل 17 جلسے جلوس کی اجازت دیتا ہے۔

بعد ازاں عدالت نے وزیراعظم عمران خان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے معاملے پر بینچ تشکیل دینے کے لیے عدالتی حکم نامہ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کو ارسال کردیا۔

اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب، انچارج کنوینشن سینٹر اور متعلقہ وزارتوں کو نوٹسز بھجوا دیے۔

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 9 اکتوبر 2020 کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے کنوینشن سینٹر میں انصاف لائرز فورم کی تقریب میں شرکت کی تھی۔

اس تقریب میں وزیراعظم عمران خان نے سابق وزیراعظم نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وقت بھارت کا ایجنڈا لے کر چلنے والے لوگ یہ ہیں، آئی ایس آئی کو ان کی چوری کا پتا ہوتا ہے اس لیے ہر آرمی چیف سے ان کو مسئلہ ہے کیونکہ یہ فوج کو پنجاب پولیس بنانا چاہتے تھے۔

سابق وزیراعظم کی بیماری سے متعلق انہوں نے کہا تھا کہ 'ہماری کابینہ کا اجلاس ہو رہا تھا، ہمیں ایک عدالت نے کہا کہ نواز شریف کو کچھ ہوگیا تو حکومت ذمہ دار ہوگی، اب عدالت کا بھی احترام کرتے ہیں، کابینہ کا 6 گھنٹے اجلاس ہوا جہاں ڈاکٹر بیٹھے ہوئے ہیں اور بیماریاں بتارہے ہیں، ہم سب پریشان ہیں ایک آدمی کو اتنی ساری بیماریاں کیسے ہوسکتی ہیں'۔

مزید پڑھیں: سابق حکمران فوج کو پنجاب پولیس بنانا چاہتے تھے، عمران خان

عمران خان کا کہنا تھا کہ 'جب ان کی ساری بیماری بتائی گئیں تو ہماری انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کی آنکھوں میں آنسو آگئے، اگر شیریں مزاری کی آنکھوں میں آنسو آئے تو سوچیں کس طرح کی بیماریاں ہمیں بتائی گئی ہوں گی، ہمیں خوف آگیا کہ یہ جہاز کی سیڑھیوں پر بھی چڑھ سکے گا یا نہیں'۔

انہوں نے نواز شریف کے بارے میں کہا تھا کہ ‘انہوں نے پاکستانی فوج پر جو حملے کیے اور زبان استعمال کی ہے، اس پر ایک بات کہوں گا کہ اگر اس وقت کوئی بھارت کا ایجنڈا لے کر پھرتا ہے تو وہ یہ ہیں، پاکستانی فوج کے لیے جو زبان استعمال کر رہے ہیں یہ وہی ایجنڈا ہے جو ایف اے ٹی ایف کا ہے اور پاکستان کو بلیک لسٹ کرنے کے لیے بھارت پوری کوشش کر رہا ہے’۔

عمران خان نے کہا کہ ‘مجھے پاکستانی فوج سے کوئی مسئلہ کیوں نہیں ہے، کون سا ایسا کام ہے جس میں فوج نے ہمارے منشور پر عمل نہیں کیا’۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024