مفلسی جرائم کو جنم دیتی ہے-2
(دوسرا حصہ)
اس مضمون کے پہلے حصے کا مطالعہ کرنے کے لیے کلک کیجیے۔
غربت جرائم اور نفرتوں کو جنم دیتی ہے۔ غربت کو فروغ دیا جائے گا تو ساتھ میں اُس کی اولادوں کو بھی بھگتنا پڑے گا۔ سلجھی ہوئی سوچ کے حامل بہت سے دانشور اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ دنیا میں دہشت گردی کی موجودہ لہر کے اسباب میں دراصل معاشی انصافیاں بھی شامل ہیں۔
آج جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں، اُسے علم، شعور اور سائنس و ٹیکنالوجی کے عروج کا دور کہا جاتا ہے۔ اس عروج یافتہ دور میں بھی کروڑوں انسانوں کا حال یہ ہے کہ اُنہیں اتنی خوراک بھی میسّر نہیں ہے کہ وہ جسم و جاں کے رشتے کو برقرار رکھ سکیں۔
اقوامِ متحدہ کے ادارۂ خوراک FAO کے ایک سروے کے مطابق دنیا بھر میں 87 کروڑ افراد قلّتِ خوراک کا شکار ہیں اور اُن میں سے 24 ہزار افراد بھوک و افلاس سے روزانہ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ دنیا بھر میں ہر آٹھ افراد میں سے ایک بھوک کا شکار ہے۔ ادارے نے 2012ء کی رپورٹ میں متنبہ کیا تھا کہ بھوک کے خلاف لڑائی سست ہوتی جارہی ہے۔
آج جبکہ ہر طرف وسائل کے انبار لگے ہوئے ہیں اور انسان یہ سوچ رہا ہے کہ وسائل پر اُس کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے.....آج لاعلاج امراض کے علاج دریافت ہونے کے مژدے سنائے جارہے ہیں، ڈی این اے کوڈ پڑھ لیے جانے کے بعد اب یہ کوشش ہورہی ہے کہ اِس سے پہلے کہ کوئی مرض کسی کے جسم میں جگہ بنائے، اُسے قبل ازوقت ہی ختم کردیا جائے..... خلائی تسخیر اور ستاروں پر کمندیں ڈالنے کے ضمن میں ہر روز نئی پیش رفت سامنے آرہی ہے، لیکن ان سب کے باوجود آخر ایسا کیوں ہے کہ ہر لمحہ ترقی کی جانب گامزن اِسی دنیا میں روزانہ چوبیس ہزار انسان محض دو وقت کی روٹی نہ ملنے کی وجہ سے ہلاک ہورہے ہیں؟
خوراک کی قلّت کے شکار اِن 87 کروڑ افراد میں سے نصف کے قریب جنوبی ایشیا یعنی پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں آباد ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی مذکورہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں5 سال سے کم عمر کے پندرہ کروڑ تیس لاکھ بچوں میں سے 60 لاکھ بچے ہر سال کم خوراکی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ آج دنیا کے 31 ممالک میں بسنے والے پچاس کروڑ 80 لاکھ افراد کو پینے کا صاف پانی بھی مناسب مقدار میں میسر نہیں..... اور یہ اندیشے بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ آئندہ جنگیں پانی اور خوراک کی بنیاد پر ہوں گی۔
عالمی ادارہ خوراک وزراعت اور عالمی خوراک پروگرام کا کہنا ہے کہ 2009ء کے دوران آنے والے خوراک اور مالیاتی بحران کی وجہ سے دنیا بھرمیں ایک ارب سے زیادہ افراد بھوک کا شکار ہو گئے تھے اور یہ تعداد 2008ء کے مقابلے میں دس کروڑ زیادہ تھی۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ جہاں لوگ مفلسی اور بھوک کے باعث ہلاک ہورہے ہیں وہیں اسی دنیا میں سالانہ 1.3 ارب ٹن خوراک ضائع ہوجاتی ہے۔ جبکہ خوراک کی عدم دستیابی اور ناقص خوراک کے استعمال سے دنیا میں یومیہ 20 ہزار بچے ہلاک ہوجاتے ہیں ۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ خوراک کے زیاں کے مسائل انتہائی اہمیت کے حامل ہیں تاکہ ان کے سدباب سے دنیا میں بھوک کا خاتمہ کیاجاسکے ۔ دنیا میں غذائی قلت کے شکار لوگوں کی اکثریت کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ کراہ ارض پرانسانی ضروریات کی تکمیل کیلئے وافر خوراک پیدا کی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں خوراک کے ضیاع کو روک کر غذائی قلت کی کمی کے شکار ممالک کی غذائی ضروریات کو پورا کیاجاسکتا ہے۔
عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی زندگی بسر کر رہی ہے،عالمی سطح پر خط غربت یومیہ دو ڈالر یا دو سو روپے آمدن کے برابر ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق پاکستان کے 60 فیصد افراد کی آمدن یومیہ دو ڈالر یا دو سو روپے سے بھی کم ہے، جبکہ اکیس فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔ روزانہ بمشکل ڈیڑھ سو روپے ہی حاصل کر پاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خطے کے دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تو پاکستان کے مقابلے سری لنکا اور نیپال میں غربت کی شرح کہیں کم ہے۔ اس وقت سری لنکا میں شرح غربت 23.9 اور نیپال میں 57.5 ہے، جبکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں پاکستان سے زیادہ غربت پائی جاتی ہے۔ بھارت میں غربت کی شرح 68.7 اور بنگلہ دیش میں 76فیصد ہے۔ رپورٹ کے تجزیئے کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے اکتیس فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔
آج حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ پاکستان کے 16 کروڑ افراد اپنی آمدنی کا سوفیصد حصہ صرف خوراک کے حصول پر صرف کرتے ہیں، خوشحال لوگ بھی قرضوں کے جال میں جکڑے جارہے ہیں، دوہری ملازمتوں کے باوجود بھی اب ایک اوسط گھر کا بجٹ چلانامشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا جارہا ہے ۔ غذائی اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کے باعث گزشتہ ایک ماہ کے دوران ان کی طلب میں 50 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے، اشیائے خوراک کی روزانہ فروخت اور طلب میں تیزی سے ہونے والی کمی عام صارف کی قوت خرید میں کمی ہے۔
گرانی کی اس ہولناک لہر نے سب سے زیادہ متوسط طبقے کو متاثر کیا ہے جسے سفید پوشی کے بھرم کو قائم رکھنے کے لیے شدید ذہنی اذیتوں سے گزرنا پڑرہا ہے۔ اس طبقے کا المیہ یہ ہے کہ اس طبقے کا فرد راتوں رات کروڑ پتی تو کیا لکھ پتی بھی نہیں بن سکتا اور نہ ہی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتا ہے، اسے بیک وقت اپنی بدترین غربت کے داغ کو کسی نہ کسی طرح دنیا کی نظروں سے چھپاکر اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے خوشحال، خوش پوش اور مطمئن نظر آنے کی اداکاری بھی کرنی پڑتی ہے، لیکن ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے اور شاید اب بہت سی حدیں ٹوٹ چکی ہیں یا ٹوٹنے والی ہیں۔
پیٹرولیم کی مصنوعات کی قیمتوں، بجلی کے نرخوں اور غذائی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے گھریلو خواتین بھی شدید ذہنی دباؤمیں مبتلا ہوگئی ہیں اور خدشہ ہے کہ آسمان کو چھوتی مہنگائی بہت سے گھر وں کے چولہے ٹھنڈے کردے گی۔ واضح رہے آٹا، چینی، دودھ، دالیں، گوشت ، سبزی اور مصالحہ جات وغیرہ چھ سات سال پہلے کی بہ نسبت سو گنا مہنگے ہوچکے ہیں۔
ماہرین معیشت یہ خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ پیٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافے کے بعد گڈز ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں 15 سے 20 فیصد تک اضافہ ہوجائے گا، جس سے لامحالہ گھریلو استعمال کی اشیاء سمیت ہر شے کی قیمت میں اضافہ ہوجائے گا۔آج ہی صورتحال یہ ہے کہ چھ افراد پر مشتمل کنبہ جس کی آمدنی ماہانہ دس ہزار ہو، اب ہفتے میں ایک دن ہی گوشت کھاسکتا ہے۔ لیکن دال سبزی بھی اب سستی نہیں رہی چنانچہ لوگوں کی اکثریت فاقہ کشی کا شکار اور ذہنی وجسمانی امراض میں مبتلا ہوجائے گی۔
ایک ماہرِ نفسیات کے مطابق اشیائے خوردونوش اور دیگر اشیاء کی مہنگائی سے نفسیاتی امراض میں بے پناہ اضافہ ہوتا جارہا ہے، خصوصاً خواتین شدید متاثر ہیں، گھریلو جھگڑے بڑھ گئے ہیں، اب پانچ چھ افراد کی چائے ناشتے کی دعوت پر ہی چار سے پانچ سو روپے خرچ ہوجاتے ہیں چنانچہ مہمان نوازی کی روایت پر منفی اثر پڑرہا ہے، لوگ خودغرض اور مطلب پرست ہوتے جارہے ہیں، جس سے فائدے کی توقع ہو اس سے ہی تعلقات جوڑے جاتے ہیں، گھر کی چھوٹی تقریبات جس میں انتہائی قریبی عزیز ہی شریک ہوتے ہیں، کا انعقاد بھی اکثر لوگوں کے لیے ممکن نہیں رہا بلکہ اکثر خواتین کا تو یہ کہنا ہے کہ مہمانوں کی آمد کا سن کر ہی انہیں ٹینشن شروع ہوجاتی ہے۔
متوسط طبقہ جس کی کمر گرانی کے سبب پہلے ہی دوہری ہوچکی ہے، کی پشت پر اسی طرح ظلم وستم کے وار جاری رہے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں انتشار بڑھتا جائے گا جس سے مذہبی انتہا پسندی کے رجحان کو فروغ ملے گا، پھر طالبانائزیشن کو ملک میں بڑھاوا دینے کے لیے مایوس نوجوان کی بڑی تعداد میسر آجائے گی۔ ویسے بھی ملکی نوجوانوں کی بڑی تعداد جرائم کے راستے پر قدم رکھ ہی چکی ہے، ان کی تعداد میں اضافے کی جو رفتار ہے حالیہ حکومتی اقدامات اس رفتار کو تیز تر کردیں گے۔
ہمارے خیال میں معاشی فلاح کا تصور اُس وقت حقیقت بن سکتا ہے جب ایسے تمام افراد جنہیں کسی بھی دائرے میں کچھ اختیارات حاصل ہیں وہ اپنی ذمہ داریاں خلوص اور مخلوقِ خدا کی خدمت کے جذبے کے تحت پوری کریں۔
غربت و افلاس کی جس صورتحال کی مذکورہ سطور میں نشاندہی کی گئی ہے، اُس طرز کی صورتحال میں اخلاقی اور معاشرتی قدریں مفقود ہوجاتی ہیں اور بعض صورتوں میں یہ محرومیاں، بھوک اور مفلسی معاشرے میں جرائم، قتل و غارت گری اور فتنہ و فساد کے فروغ کا باعث بن جاتی ہیں۔
جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔