کراچی میں کووڈ 19 ویکسین کی آزمائش پر عوام کا مثبت ردعمل
کراچی: ممکنہ کووڈ 19 ویکسین کے کلینکل ٹرائل (طبی آزمائش) کے تیسرے مرحلے کے لیے منتخب پاکستان میں 5 سائٹس میں سے ایک انڈس ہسپتال کو ٹرائل کے کم سطح پر شروع کیے جانے پر عوام کا مثبت ردعمل ملا ہے جس نے اس اُمید کو بڑھا دیا ہے کہ یہ کوششیں اپنے ہدف کو حاصل کرلیں گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چینی کمپنی کین سینو بائیو کے تعاون سے ہونے والی تحقیقی کے لیے 18 دنوں کی آزمائش میں 31 اکتوبر تک 500 سے زائد افراد نے رضاکارانہ طور پر حصہ لیا۔
واضح رہے چینی کمپنی نے بیجنگ انسٹیٹیوٹ آف بائیو ٹیکنالوجی کے اشتراک سے اڈینو وائرس ٹائپ-5 ویکٹرڈ کووڈ 19 کی ویکسین کی خوراک تیار کی تھی۔
انڈس ہسپتال میں موجود محققین کے مطابق اس مخصوص ویکسین کی چین میں پہلے ہی سے آزمائش کی جاچکی ہے جس میں یہ ویکسین بغیر کسی سنگین مضر اثرات کے محفوظ اور مؤثر ثابت ہوچکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اب آپ چین میں تجرباتی کووڈ 19 ویکسین حاصل کرسکتے ہیں
مزید کہ اس ویکسین کو اب روس، میکسیکو، چلی، ارجنٹینیا، سعودی عرب اور پاکستان جیسی بڑی آبادیوں میں ٹیسٹ کیا جارہا ہے، ملک میں 40 ہزار میں سے 8 ہزار لوگ بھرتی کیے گئے ہیں جبکہ اسلام آباد، کراچی اور لاہور میں 5 سینٹرز میں ابھی آزمائش کی جارہی ہے۔
بین الاقوامی اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ابھی 100 سے زائد کووڈ 19 کی ویکسینس تیاری کے مراحل میں ہیں جن میں سے زیادہ تر 150 سے زائد ممالک میں انسانوں پر آزمائش کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔
2 ہزار رضاکاروں کا ہدف
محققین کا کہنا تھا کہ ویکسین کے معمولی مضر اثرات کی جو وجہ بن سکتی ہیں ان میں ٹیکا لگنے کے وقت درد اور بخار ہونا شامل ہیں جو دیگر ویکسین میں بھی عام ہیں اور یہ کووڈ 19 انفیکشن کا باعث نہیں بن سکتی کیونکہ اس میں براہ راست وائرس نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیں: کووڈ 19 ویکسین کے ٹرائل کیلئے عوام سے رضاکارانہ طور پر سامنے آنے کی اپیل
انڈس ہسپتال میں ایک بڑے آہنی کنٹینر میں عارضی طور پر ایک تحقیقی مرکز قائم کیا گیا ہے جس میں اسٹاف کے اُمیدواروں سے رابطہ کرنے، ان کی ذاتی معلومات جمع کرنے اور لیبارٹری سے متعلق کام کرنے کی سہولت ہے۔
مزید یہ کہ کچھ رضاکاروں کو ویکسین کے اہداف سے تفصیلاً آگاہ کیا گیا جبکہ دیگر کو ان کی باری آنے تک انتظار کرنے کا کہا گیا۔
مشاہداتی کمرے (آبزرویشن روم) میں بیٹھے نوجوان رضاکار ناصر حسین کا کہنا تھا کہ ’میں یہاں موجود ہوں کیونکہ مجھے یہ یقین ہے کہ اگریہ پوری مشق کامیاب ہوگئی تو اس سے ان گنت جانوں کو بچایا جاسکے گا‘۔
یہ بھی پڑھیں: کووڈ 19 ہوا کے ذریعے پھیل سکتا ہے، سی ڈی سی کا اعتراف
ناصر حسین نے بتایا کہ اپنے ایک دوست، جس نے خود کو رضاکارانہ طور پر اس آزمائش کے لیے پیش کیا تھا، ان سے مثبت رائے ملنے پر انہوں نے اس کا انتخاب کیا۔
محققین کے مطابق صرف 18 سال سے بڑی عمر کے صحت مند اور مستحکم افراد جن کا کووڈ 19 کا ٹیسٹ لیبارٹری سے تصدیق شدہ ہو یا وہ کسی بے قابو یا لاعلاج بیماری میں مبتلا نہ ہوں یا کسی معذوری کا شکار نہ ہوں وہ اس آزمائش میں شریک ہیں جو آئندہ 2 ماہ تک جاری رہے گی۔
ڈاؤ میڈیکل کالج کی تھرڈ ایئر کی طالبہ فضا آصف، جو ہسپتال میں رضاکار ٹیم کا حصہ بھی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ہمارا کام ہے کہ کلینکل ٹرائل میں شامل ہر مرحلے پر اس کی ضرورت، شرکا کی ضروریات، اس کے خطرات اور ممکنہ فوائد سے متعلق تفصیل سے بیان کریں تاکہ لوگ ایک معلوماتی فیصلہ لے سکیں۔
مزید پڑھیں: کورونا کے شکار چند افراد متعدد کیسز کا باعث بن سکتے ہیں، تحقیق
ماہرین کے مطابق شرکت کے لیے جو معیار رکھے گئے ہیں ان میں یہ بھی ہے کہ ایک سال تک ہسپتال کی جانب سے ہفتہ وار کال کا جواب دینے کا جذبہ ہو، کووڈ کی طرح کی علامات سمیت کسی بیماری پر رپورٹ کرنے اور اندراج کروانے کے دن اور اس کے ایک سال بعد تک خون کا ٹیسٹ کرانے کے لیے رضامند ہونا شامل ہے۔
انڈس ہسپتال کے ریسرچ سینٹر کی سربراہ ڈاکٹر نائیلہ بیگ انصاری کا کہنا تھا کہ ‘انکار اور مسترد ہونے کے کئی کیسز ہیں چونکہ شمولیت کا ایک طریقہ کار یہ ہے کہ خواتین کو ویکسین کے بعد 90 دن میں حاملہ ہونے یا دودھ پلانے یا حاملہ ہونے کی منصوبہ بندی نہیں کرنی چاہیے’۔
یہ بھی پڑھیں: چین کی کورونا ویکسین ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں بھی محفوظ اور موثر قرار
انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ہر رضاکار کو داخلے کے روز 3 ہزار روپے دیے جاتے ہیں جبکہ ایک سال کے بعد آخری مرتبہ آنے پر یہ رقم 5 ہزار روپے ہوجائے گی، ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ یہ قدم بین الاقوامی طور پر رائج طریقہ کار بہت حد تک مطابقت رکھتا ہے۔
ٹیم نے اُمید ظاہر کی کہ وہ 2 ماہ کے دوران ٹرائل کے لیے 2 ہزار رضاکاروں کا ہدف حاصل کرلے گی۔
یہ کیسے کام کرے گا
انڈس ہسپتال کی مرکزی تحقیق کار ڈاکٹر نسیم صلاح الدین کے مطابق یہ ’رینڈمائزڈ پلیسبو کنٹرولڈ ٹرائل‘ ہے جو نئی ویکسین کی افادیت اور محفوظ ہونے سے متعلق ابتدائی تجربہ ہے، جس کا مطلب ہے کہ رضاکاروں کی ایک تعداد کو ویکسین دی جائے گی جبکہ دیگر کو ویکسین کے فعال اجزا کے بغیر ایک انجکشن لگایا جائے گا۔
ڈاکٹر بیگ انصاری نے اس طریقہ کار کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے کہا کہ ’پلیسبو‘ دینے کا سبب دونوں گروپ کے آنے والے نتائج کا موازنہ کرنا ہے۔
جانبداری کو روکنے کے لیے ہر رضاکار کو انجیکشن کے لیے کمپیوٹرائز اسٹڈی آئی ڈی اور کوڈ دیا جاتا ہے جبکہ اس کوڈ سے متعلق معلومات طبی عملے اور رضاکاروں کو ظاہر نہیں کی جاتیں۔