• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

میر شکیل الرحمٰن کی 8 ماہ بعد ضمانت منظور

شائع November 9, 2020
12 مارچ کو احتساب کے قومی ادارے نے جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو اراضی سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی
12 مارچ کو احتساب کے قومی ادارے نے جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو اراضی سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا — فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ کیس میں گرفتار جنگ اور جیو گروپ کے مالک میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت منظور کر لی۔

سپریم کورٹ میں جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ نے جنگ اور جیو کے مالک میر شکیل کی درخواست ضمانت سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

مزید پڑھیں: سی ای او جنگ گروپ میر شکیل الرحمٰن کا ضمانت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

دوران سماعت جسٹس قاضی امین نے دریافت کیا کہ کیا خواجہ حارث آج موجود ہیں جس پر میر شکیل الرحمٰن کے وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہ ان کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔

امجد پرویز نے کہا کہ میر شکیل کو 13 مارچ کو گرفتار کیا گیا، انکوائری اسٹیج پر میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری عمل میں لائی گئی اور 13 مارچ کو ہی وارنٹ گرفتاری بهی جاری ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ 4 لوگوں کے خلاف ریفرنس دائر ہو گیا ہے جن میں سابق وزیر اعلیٰ محمد نواز شریف بهی شامل ہیں۔

استغاثہ کا کہنا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ، ڈی جی لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) اور ڈائریکٹر لینڈ نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا۔

امجد پرویز نے کہا کہ درخواست گزار کے علاوہ کسی ایک کو بھی گرفتار نہیں کیا گیا، چئیرمین نیب نے ڈی جی ایل ڈی اے اور ڈائریکٹر لینڈ دونوں کے وارنٹ گرفتاری جاری نہیں کیے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کے جج کی جنگ گروپ کے مالک کے مقدمے کی سماعت سے معذرت

ان کا کہنا تھا کہ 180 کنال 18 مرلہ کل رقبہ ہے، محمد علی جوہر ٹاؤن بنانے کے لیے یہ اراضی ایل ڈی اے نے 1982 میں حاصل کی، اس اراضی کا مالک فوت ہو گیا اور یہ وراثت 1985 میں تقسیم ہو جاتی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ورثا اراضی پر عبوری تعمیرات کے لیے 1986 میں درخواست دیتے ہیں، اس وقت کے ڈی جی ایل ڈی اے اس درخواست کو مسترد کر دیتے ہیں۔

جسٹس امین نے دریافت کیا کہ یہ اراضی درخواست گزار نے کب حاصل کی جس پر امجد پرویز نے جواب دیا کہ 22 مئی 1986 کو میر شکیل الرحمٰن کے نام اسی اراضی کی پاور آف اٹارنی ملی۔

میر شکیل کے وکیل نے بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل ایل ڈی اے نے میر شکیل الرحمٰن کو خط لکها، رقبہ پالیسی کے مطابق 54 کنال 5 مرلہ بنتا ہے، اس پورے معاملے میں قومی خزانے کا ایک ڈھیلے کا نقصان نہیں ہوا، میر شکیل الرحمٰن کو 54 پلاٹ ملے ہیں۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے میر شکیل الرحمٰن کی رہائی کی درخواست مسترد کر دی

جسٹس قاضی امین نے سوال کیا کہ کیا نیب نے قومی خزانے کو نقصان کا کوئی سوال اٹهایا ہے جس پر وکیل صفائی نے جواب دیا کہ نہیں، نیب نے ایک روپے کے بھی نقصان کا سوال نہیں اٹهایا، اس کیس میں ایک نجی شخص نے شکایت کی ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے دریافت کیا کہ کیا اس وقت میر شکیل کے قبضے میں 54 کنال سے زیادہ اراضی ہے جس پر وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن پر 64 لاکھ 75 ہزار اور 4 کنال 12 مرلے اراضی زائد قبضے میں ہونے کا الزام ہے حالانکہ یہ اراضی راستے کے طور پر دی گئی اور 60 ہزار روپے کنال رقم رکھی گئی، نیب کا یہ کیس نہیں کہ اراضی کی رقم ادا نہیں کی گئی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے نیب سے استفسار کیا کہ کیا یہ رقم آج بھی واجب الادا ہے، جس پر نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ جی یہ کیس بھی ہے۔

میر شکیل کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ایل ڈی اے کو رقم پالیسی کے مطابق ادا کردی گئی ہے، نیب کا کیس ہے کہ پالیسی کے تحت رقم ادا نہیں کرنی تھی بلکہ مارکیٹ ریٹ پر ادا کرنی تھی۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ دیکھنا ہے کہ آپ کا کیس پالیسی کے تحت درست بنتا ہے، اس سارے عمل میں کوئی چیز بھی پالیسی کے برعکس نہیں تھی، نیب نے بتانا ہے کہ جس جج کے پاس میر شکیل کا کیس ہے اس کے پاس اس سے پہلے کتنے مقدمات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: غیرقانونی پلاٹ کیس: نواز شریف اور میر شکیل الرحمٰن کے خلاف ریفرنس دائر

سپریم کورٹ نے 10 کروڑ روپے کے ضمانتی مچلکوں کے عوض جنگ اور جیو کے مالک میر شکیل الرحمٰن کی ضمانت منظور کر لی۔

واضح رہے کہ کئی ماہ سے قید میں موجود میڈیا ٹائیکون نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے توسط سے لاہور ہائی کورٹ کے 8 جولائی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ اپیل دائر کی جس میں ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔

میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری

خیال رہے کہ 12 مارچ کو احتساب کے قومی ادارے نے جنگ اور جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کو اراضی سے متعلق کیس میں گرفتار کیا تھا۔

ترجمان نیب نوازش علی کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ ادارے نے 54 پلاٹوں کی خریداری سے متعلق کیس میں میر شکیل الرحمٰن کو لاہور میں گرفتار کیا۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ میر شکیل الرحمٰن متعلقہ زمین سے متعلق نیب کے سوالات کے جواب دینے کے لیے جمعرات کو دوسری بار نیب میں پیش ہوئے تاہم وہ بیورو کو زمین کی خریداری سے متعلق مطمئن کرنے میں ناکام رہے جس پر انہیں گرفتار کیا گیا۔

واضح رہے کہ میر شکیل الرحمٰن کو 28 فروری کو طلبی سے متعلق جاری ہونے والے نوٹس کے مطابق انہیں 1986 میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی جانب سے غیر قانونی طور پر جوہر ٹاؤن فیز 2 کے بلاک ایچ میں الاٹ کی گئی زمین سے متعلق بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 5 مارچ کو نیب میں طلب کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: احتساب عدالت نے اہلخانہ کو میر شکیل سے ملاقات کی اجازت دے دی

دوسری جانب جنگ گروپ کے ترجمان کے مطابق یہ پراپرٹی 34 برس قبل خریدی گئی تھی جس کے تمام شواہد نیب کو فراہم کردیے گئے تھے، جن میں ٹیکسز اور ڈیوٹیز کے قانونی تقاضے پورے کرنے کے دستاویز بھی شامل ہیں۔

نیب نے غیرقانونی پلاٹ کیس میں لاہور کی احتساب عدالت میں نواز شریف اور میر شکیل الرحمٰن سمیت ہمایوں فیض اور سابق ڈائریکٹر لینڈ ڈیولپمنٹ میاں بشیر احمد کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024