• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ریپ کے ملزمان کو ان کی مرضی سے نامرد کرنے کی تجویز

شائع November 27, 2020
ریپ کے ملزمان کو ان کی مرضی سے نامرد کرنے کی تجویز دی گئی ہے— فائل فوٹو: ڈان
ریپ کے ملزمان کو ان کی مرضی سے نامرد کرنے کی تجویز دی گئی ہے— فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: انسداد ریپ کے مجوزہ قانون میں ریپ کے عادی مجرموں کی رضامندی سے انہیں نامرد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر قانون ڈاکٹر فروغ نسیم کی زیر صدارت قانون سازی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس میں جمعرات کو انسداد ریپ (انویسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020 اور فوجداری قانون (ترمیمی) آرڈیننس 2020 کی منظوری دی گئی، اس آرڈیننس کو وفاقی کابینہ نے پہلے ہی اصولی طور پر منظور کرلیا ہے۔

مزید پڑھیں: کابینہ نے سخت سزاؤں کے لیے انسداد ریپ قوانین کی منظوری دے دی

پہلے یا بار بار جرم سرزد کرنے کے لحاظ سے کیمیائی طریقے سے نامرد کرنے کا تصور بنیادی طور پر بحالی کی ایک شکل کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اس کا انحصار مجرم کی رضامندی پر ہے۔

وزیر قانون کے مطابق یہ لازمی ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت مجرم کو نامرد کرنے کی سزا سنانے سے پہلے اس کی رضامندی لی جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کیمیائی طریقے سے نامرد کرنے کا حکم مجرم کی رضامندی کے بغیر دیا گیا ہو تو وہ اس کو عدالت میں چیلنج کرسکتا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مجرم نامرد ہونے پر راضی نہیں ہوتا ہے تو اس کے ساتھ پاکستان پینل کوڈ کے مطابق کارروائی کی جائے گی جس کے تحت عدالت اسے سزائے موت، عمر قید یا 25 سال قید کی سزا سن سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'ریپ کے مجرموں کو نامرد بنانے کا طریقہ کار وضع کیا جائے گا

تاہم فروغ نسیم نے واضح کیا کہ سزا کا فیصلہ کرنا عدالت پر منحصر ہے، جج کیمیائی طریقے سے نامرد کرنے یا پاکستان پینل کوڈ کے تحت سزا کا حکم دے سکتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ عدالت محدود مدت یا زندگی بھر کے لیے نامرد کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی زیر قیادت حکومت ریپ کے مقدمات کی جلد سماعت کے سلسلے میں خصوصی عدالتیں قائم کرنے کے لیے دونوں آرڈیننسز کو نافذ کرنے کے لیے تیار ہے۔

کمیٹی کے تین اراکین پارلیمنٹ پارلیمانی سیکریٹری برائے قانون بیرسٹر ملائکہ بخاری، سیکریٹری قانون راجہ نعیم اکبر اور مشیر بیرسٹر امبرین عباسی نے دونوں آرڈیننس کو حتمی شکل دے دی ہے۔

یہ دونوں قانون سازی آئینی ضمانتوں اور بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق ہیں، مجوزہ قوانین خواتین اور بچوں کے ساتھ زیادتی اور جنسی زیادتی کے مظالم کے واقعات کی روک تھام کے لیے طریقہ کار فراہم کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: حکومت کا ریپ کیسز کے تیز ٹرائل کیلئے خصوصی عدالتوں کے قیام کا منصوبہ

انسداد ریپ (انوسٹی گیشن اینڈ ٹرائل) آرڈیننس 2020 کی نمایاں خصوصیات میں خصوصی عدالتوں کا قیام، کمشنرز یا ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں انسداد ریپ کرائسز سیل کی تشکیل ہے جس کے ذمہ داریاں درج ذیل ہیں۔

  • ایف آئی آر کا فوری اندراج، میڈیکل معائنہ اور شواہد کے عدالتی تجزیے وغیرہ کو یقینی بنائے گی۔

  • میڈیکل قانونی معائنے کے دوران ریپ کا شکار افراد کے لیے غیر انسانی اور دو انگلی کے ٹیسٹ کو ختم کرے گا۔

  • ریپ کا شکار ملزم کے ذریعے جانچ پڑتال پر پابندی لگانا، اس طرح صرف ججوں اور ملزموں کے وکلا کو بند کمرہ سماعت میں ایسا کرنے کی اجازت ہو گی۔

  • متاثرین اور گواہوں کا تحفظ، تحقیقات اور جانچ کے دوران جدید آلات کا استعمال۔

  • قانونی امداد اور انصاف اتھارٹی کے ذریعے متاثرین کی قانونی امداد۔

  • متاثرین کو مدد فراہم کرنے کے لیے آزاد مشیروں کا تقرر۔

  • خصوصی عدالتوں کے لیے خصوصی استغاثہ کا تقرر۔

  • ضلعی پولیس افسران کی سربراہی میں جے آئی ٹی کے ذریعے تفتیش، قانون پر مجموعی طور پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے رضاکارانہ بنیادوں پر خصوصی کمیٹی تشکیل دینا۔

  • خصوصی کمیٹی کی سفارش پر میڈیکو لیگل معائنے کا اجرا کرنا۔

  • نادرا کے ذریعے جدید تکنیکوں اور آلات کے استعمال کے ساتھ ساتھ جنسی جرائم پیشہ افراد کے اعداد و شمار مرتب کرتے ہوئے تحقیقات کرنا۔

مجوزہ قانون کے تحت عوامی رپورٹنگ کا طریقہ کار متعارف کرایا جائے گا کیونکہ قوم نے خواتین اور بچوں کے خلاف جنسی جرائم کی لعنت سے لڑنے کا مطالبہ کیا ہے۔

فوجداری قانون (ترمیمی) آرڈیننس 2020 پاکستان پینل کوڈ کی موجودہ دفعہ 375 کو تبدیل کرتا ہے جس میں عصمت دری کی ایک نئی تعریف فراہم کی جاسکتی ہے جس میں ہر عمر کی خواتین اور 18 سال سے کم عمر مرد شامل ہیں، ریپ کے علاوہ اجتماعی عصمت دری کے جرم کو بھی مجوزہ قانون میں شامل کیا گیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

احمد Nov 27, 2020 12:14pm
مرضی سے سزا ۔ یہ کونسی سی سزا ہوئی۔؟

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024