پاکستان کے خلاف عالمی سطح پر لابی کرنے والا بھارتی نیٹ ورک بے نقاب
ڈینمارک: یورپی گروپ نے غلط معلومات پھیلانے والے ایسے بھارتی نیٹ ورک کو بے نقاب کیا ہے جو سال 2005 سے ایسے ممالک، جن کے دہلی کے ساتھ اختلافات ہوں بالخصوص پاکستان، کو بدنام کرنے کے لیے کام کررہا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس یورپی یونین کی ڈِس انفو لیب نے 65 ممالک میں بھارتی مفادات کے لیے کام کرنے والے 265 مربوط جعلی مقامی میڈیا آؤٹ لیٹس کا نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا جس میں متعدد مشتبہ تھنک ٹینکس اور این جی اوز بھی شامل تھیں۔
بھارتی کرونیکل کے عنوان سے تحقیقات میں ایک اور بھارتی نیٹ ورک بے نقاب ہوا جس کا مقصد بھارت میں پاکستان مخالف (اور چین مخالف) جبکہ بھارت کے حق میں جذبات کو تقویت دینا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی نیٹ ورک کا جعلی نیوز ویب سائٹس کے ذریعے پاکستان کو نشانہ بنانے کا انکشاف
بین الاقوامی سطح پر یہ نیٹ ورک بھارت کی قوت کو مستحکم اور تشخص کو بہتر بنانے کے ساتھ حریف ممالک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لیے کام کررہا تھا تاکہ بھارت کو یورپی یونین اور اقوامِ متحدہ جیسے اداروں کی مزید حمایت سے فائدہ حاصل ہو۔
اس کام کے لیے نیٹ ورک نے انتقال کر جانے والے انسانی حقوق کے کارکن اور صحافیوں کی جعلی شخصیت کا استعمال کیا اور میڈیا اور پریس کے اداروں مثلاً یورپی یونین آبزرور، دی اکنامسٹ اور وائس آف امریکا کی نقالی کی بھی کوشش کی۔
اس کے علاوہ نیٹ ورک نے یورپی پارلیمان کے لیٹر ہیڈ، جعلی نمبروں کے ساتھ اوتار کے تحت رجسٹرڈ ویب سائٹس کا استعمال کیا اقوامِ متحدہ کو جعلی پتے فراہم کیے اور اپنے تھنک ٹینکس کی کتابوں کی اشاعت کے لیے اشاعتی ادارے قائم کیے۔
مزید پڑھیں: بھارتی میڈیا کی پاکستانی وزارت صحت کے جعلی اکاؤنٹ کی ٹوئٹ پر بے بنیاد خبریں
مجموعی طور پر 95 ممالک میں 500 جعلی مقامی میڈیا آؤٹ لیٹس کے نیٹ ورک نے پاکستان (یا چین) کے بارے میں منفی بیانیے کے فروغ میں مدد دی، اس آپریشن میں 116 ممالک اور 9 خطوں کو کور کیا گیا۔
جعلی خبروں کے آؤٹ لیٹس
گزشتہ برس تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی بھارتی اسٹیک ہولڈرز، جس کے تھنک ٹینکس، این جی اوز اور سری واستوا گروپ کی کمپنیوں سے تعلقات ہیں وہ جعلی خبروں کے ادارے چلارہے ہیں۔
انہوں نے بقیہ بھارتی نیٹ ورک بشمول جعلی میڈیا آوٹ لیٹس مثلاً ای پی ٹوڈے، ٹائمز آف جینیوا اور نئی دہلی ٹائمز پر پاکستان مخالف مواد کو دوبارہ شائع کیا، زیادہ تر ویب سائٹس ٹوئٹر پر بھی موجود ہیں۔
گزشتہ برس اس نیٹ ورک کے بے نقاب ہونے کے بعد کچھ ڈومین کو صرف اس لیے غیر رجسٹرڈ کردیا گیا تا کہ انہیں مختلف نام سے دوبارہ پیدا کیا جاسکے مثلاً ای پی ٹوڈے کو 'ای یو کرونیکل' کے نام سے رواں برس مئی میں دوبارہ سامنے لایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی میڈیا کو پاکستان میں ’خانہ جنگی‘ کے جھوٹے دعوؤں پر منہ کی کھانا پڑگئی
ای پی ٹوڈے اور ای یو کرونیکل کے پسِ پردہ کرداروں نے این جی اوز، تھنک ٹینکس، میڈیا آؤٹ لیٹس، یورپی پارلیمنٹ کے غیر رسمی گروہوں، مذہبی اور امام تنظیموں، غیر واضح اشاعتی اداروں اور معروف شخصیات کے 550 ڈومین نام رجسٹرڈ کروا رکھے تھے۔
ان ڈومین کے ناموں کا ایک نہ نظر انداز کیا جانے والا تناسب پاکستان کے ساتھ سائبر وار کے تناظر میں خریدا گیا تا کہ ان ڈومین ناموں کو خرید لیا جائے جو بعد میں پاکستان استعمال کرنا چاہے جبکہ ویب سائٹس بھی بظاہر جعلی صحافی چلا رہے تھے۔
محققین نے لکھا کہ تحقیقی نتائج نے ان کے اس یقین کو تقویت دی کہ معلومات کا یہ آپریشن بھارت سے منسلک ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ 'ہم بھارتی کرونیکل کا تسلسل دیکھ کر تشویش میں پڑ گئے جس نے ہماری پہلی رپورٹ اور وسیع پریس کوریج کے باوجود اپنا 15 سالہ آپریشن جاری رکھا حتیٰ کے حال ہی میں ای یو کرونیکل نامی جعلی یورپی یونین ادارہ بھی شروع کیا۔
اے این آئی کا کردار
رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی نے خبریں بنانے کے لیے اس جعلی یورپی میڈیا آؤٹ لیٹ کے مضامین کو بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔
اس کے علاوہ بھارتی خبررساں ادارے نے جعلی این جی اوز کی چھتری تلے بعض اوقات مشکوک طریقوں کے ساتھ لابی کی کوششوں کو بھی کور کیا۔
مزید پڑھیں: پاکستان مخالف گمراہ کن معلومات پھیلانے والا بھارتی نیٹ ورک بے نقاب
ای یو کرونیکل کے مضامین کی اے این آئی نیوز پر دوبارہ اشاعت کا مطلب یہ ہے کہ جعلی یورپی میڈیا آؤٹ لیٹ کا مواد زیادہ ناظرین تک پہنچ سکتا ہے۔
اس طرح اے این آئی کے مواد کو دوبارہ استعمال کرنے والے بھی کچھ میڈیا آؤٹ لیٹس ای یو کرونیکل کی ترویج کا سبب بنے۔
ای یو ڈس انفو لیب نے 13 واقعات کا پتا لگایا جس میں ای یو کرونیل پر رواں برس مئی میں خبروں کے مضامین کے طور پر شائع ہونے والے زیادہ تر پاکستان اور بعض اوقات چین مخالف تبصروں کو اے این آئی نے شائع کیا۔
ای یو ڈس انفو لیب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر الیگزینڈر الفلیپ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'اس قسم کی منصوبہ بندی اور ایسے کاموں کو جاری رکھنے کے لیے آپ کو ایک سے زائد چند کمپیوٹرز کی ضرورت ہوتی ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقی نتائج کو فیصلہ سازوں کو کارروائی کے مطالبے کے طور پر دیکھنا چاہیے تا کہ بین الاقوامی اداروں کے غلط استعمال اور غلط معلومات پھیلانے میں ملوث ان کرداروں پر پابندی لگانے کے لیے متعلقہ فریم ورک نافذ کیا جاسکے۔