• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وفاقی وزیر خزانہ کا منصب تفویض

شائع December 11, 2020
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ 19 اپریل 2019 کو مشیر خزانہ کے منصب پر فائز ہوئے تھے—اسکرین شاٹ ڈان نیوز
ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ 19 اپریل 2019 کو مشیر خزانہ کے منصب پر فائز ہوئے تھے—اسکرین شاٹ ڈان نیوز

ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے وفاقی وزیر کے عہدے کا حلف اٹھایا جس کے بعد وزیراعظم عمران خان نے انہیں وزیر خزانہ کا منصب تفویض کردیا۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق حلف برداری کی تقریب ایوان صدر میں منعقد ہوئی، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے عبدالحفیظ شیخ سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔

قبل ازیں ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ وزیر اعظم کےمشیر برائے خزانہ کے عہدے پر فائز تھے، حلف برداری کی تقریب میں اہم حکومتی اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔

وزیراعظم نے آئین کی دفعہ 91 کے تحت اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے عبدالحفیظ شیخ کو وفاقی وزیر بنانے کی منظوری دی تھی، آئین کے تحت وزیراعظم کو 6 ماہ کے لیے کسی بھی شخص کو وفاقی وزیر بنانے کا اختیار حاصل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں، شیخ رشید کو وزیر داخلہ بنا دیا گیا

حالانکہ عبدالحفیظ شیخ قومی اسمبلی کے رکن نہیں تاہم آئین کی دفعہ 91 کی شق 9 کے تحت کوئی فرد جو منتخب نہ ہو وہ 6 ماہ کے لیے وزیر کے منصب پر فائز ہوسکتا ہے اور دوبارہ وزیر بننے کے لیے اسے قومی اسمبلی کا رکن منتخب ہونا پڑے گا۔

آئین کی دفعہ 91 (9) کے مطابق : کوئی وزیر جو مسلسل 6 ماہ کی مدت تک قومی اسمبلی کا رکن نہ رہے، مذکورہ مدت کے اختتام پر وزیر نہیں رہے گا اور مذکورہ اسمبلی کو توڑے جانے سے قبل اسے دوبارہ وزیر مقرر نہیں کیا جائے گا تاوقت یہ کہ وہ اسمبلی کا رکن منتخب نہ ہوجائے، مگر شرط یہ ہے کہ اس شق مں شامل کسی امر کا ایسے وزیر پر اطلاق نہیں ہوگا جو سینیٹ کا رکن ہو۔

عبدالحفیظ شیخ پارلیمان کا رکن نہ ہونے کی وجہ سے وزیر نہیں بن سکے تھے لیکن 7 دسمبر کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے نے حکومت کو انہیں مشیر سے وزیر بنانے پر مجبور کردیا۔

اسلام ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق عبدالحفیظ شیخ کابینہ کمیٹیوں کے رکن نہیں رہ سکتے تھے، عدالت عالیہ نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کی تشکیل غیر قانونی قرار دی تھی اور قرار دیا تھا کہ مشیر خزانہ حفیظ شیخ کابینہ کمیٹی کے سربراہ نہیں بن سکتے۔

مزید پڑھیں: اسد عمر کا استعفیٰ منظور، حفیظ شیخ مشیر خزانہ تعینات، نوٹیفکیشن جاری

ان کے علاوہ مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد اور ڈاکٹر عشرت حسین بھی کابینہ کمیٹی میں نہیں رہ سکتے۔

عبدالحفیظ شیخ اپریل 2019 سے مشیر کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہے تھے اور اب انہیں وزارت میں عہدے کو برقرار رکھنے کے لیے 6 ماہ کے عرصے میں قومی اسمبلی یا سینیٹ کا الیکشن لڑکر پارلیمان کا حصہ بننا ہوگا۔

عبدالحفیظ شیخ اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر اور یوسف گیلانی کے دور میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سینیٹ کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔

عبدالحفیط شیخ نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے، وہ مایہ ناز تعلیمی ادارے ہارورڈ یونیورسٹی میں پڑھا چکے اور کئی برسوں تک عالمی بینک کے ساتھ کام کرچکے ہیں۔

صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے عبد الحفیظ شیخ 2003 سے 2006 تک وزیر برائے نجکاری اور سرمایہ کاری کے منصب پر فائز رہے۔

یہ بھی پڑھیں:مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی تعیناتی پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج

بعدازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں وہ مارچ 2010 سے 19 فروری 2013 تک وزیر خزانہ، محصولات اور اقتصادی امور کے فرائض سر انجام دیتے رہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دورِ حکومت میں اسد عمر کے وزیر خزانہ کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد 19 اپریل 2019 کو حفیظ شیخ وزیراعظم کے مشیر خزانہ کے منصب پر تعینات کیا گیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

خیال رہے کہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ کے تقرر کے علاوہ وزیر اعظم کے دیگر معاونین خصوصی اور مشیروں کی تعیناتیوں کے خلاف مختلف عدالتوں میں درخواستیں دائر ہوچکی ہیں۔

اس ضمن میں سب سے اہم پیش رفت 7 دسمبر کو سامنے آئی جب اسلام آباد ہائی کورٹ نے کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے قیام کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

عدالت نے حکم نامے میں قرار دیا تھا کہ غیر منتخب مشیر اور معاونین خصوصی حکومتی کمیٹیوں کی سربراہی نہیں کرسکتے۔

عدالتی فیصلے میں اعلان کیا گیا کہ کسی وزیر کی حیثیت سے مشیر کا تقرر ان کو اختیارات نہیں دیتا ہے کہ وہ وزیر کی حیثیت سے کام کرے یا رولز آف بزنس 1973 کے تحت اس طرح سے امور انجام دے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024