وہ شخص جس نے کورونا ویکسین کو محض چند گھنٹوں میں ڈیزائن کیا
برطانیہ، کینیڈا و سعودی عرب کے بعد امریکا نے بھی فائزر و بائیو این ٹیک کی کورونا ویکسین کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔
2 ڈوز میں استعمال کرائی جانے والی اس ویکسین کو انسانی آزمائش کے 3 مراحل کے بعد بیماری سے بچانے میں 95 فیصد تک موثر قرار دیا گیا اور یہ اتنی تیزی سے منظوری حاصل کرنے والی دنیا کی پہلی ویکسین بھی ہے۔
آج تک کسی بھی ویکسین کو اتنی تیزی سے تیار اور استعمال کے لیے پیش نہیں کیا گیا، اس سے پہلے جو تیز ترین ویکسین کا ریکارڈ تھا، وہ 4 سال سے زائد عرصے کا تھا۔
مگر اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ بائیو این ٹیک کے شریک بانی اوغور شاہین نے اس ویکسین کو جنوری میں محض چند گھنٹوں میں ڈیزائن کرلیا تھا۔
یہ بات وال اسٹریٹ جرنل نے ایک پوڈ کاسٹ رپورٹ میں بتائی اور بائیو این ٹیک کے ترجمان نے بھی تصدیق کی کہ اوغور شاہین نے ایک دن کے اندر ہی ویکسین کا ڈیزائن بنالیا تھا۔
اور اتنی تیزی سے ڈیزائن بننے کی وجہ اس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی ہے جو میسنجر آر این اے یا ایم آر این اے ہے۔
اس سے قبل کبھی اس ٹیکنالوجی پر مبنی کوئی ویکسین تیار نہیں ہوئی، مگر اب ایسا ہوچکا ہے اور بہت جلد ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کی اس سے ملتی جلتی ٹیکنالوجی پر مبنی ویکسین کی منظوری بھی دیئے جانے کا امکان ہے۔
ایم آر این اے ویکسین کیسے کام کرتی ہیں؟
میسنجر آر این اے ایسا جینیاتی میٹریل ہوتا ہے جو خلیات کو بتاتا ہے کہ پروٹین کو کیسے تیار کرنا ہے۔
فائزر کی ویکسین میں کورونا وائرس کے ایم آر این اے کا چھوٹا حصہ انسانی جسم میں داخل کیا جاتا ہے، یہ آر این اے وائرس کے اسپائیک پروٹین کا کوڈ ہوتا ہے، جو جسم کے اندر وائرس کو حملے میں مدد دیتا ہے، جس سے اینٹی باڈی متحرک ہوکر وائرس کو ناکارہ بناتی ہیں۔
تو ایم آر این اے ویکسین جسم میں اسپائیک پروٹین کے عمل کو تی کرکے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتی ہے۔
اس ٹیکنالوجی کے لیے کمپنیوں کو بس ویکسین ڈیزائن کرنے کے لیے محض کورونا وائرس کے جینیاتی سیکونس کی ضرورت تھی اور اسی وجہ سے ان کا کام برق رفتاری سے آگے بڑھا۔
اوغور شاہین 24 جنوری کو طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ایک مقالے کو پڑھ رہے تھے جس میں چین کے ایک خاندان کے بارے میں بتایا گیا تھا جو ووہان گئے اور کووڈ 19 کا شکار ہوگئے۔
انہوں نے وال اسٹریٹ جرنل کو بتایا کہ سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ تھی کہ خاندان کے ایک رکن میں وائرس تھا اور تشخیص بھی ہوئی مگر علامات ظاہر نہیں ہوئیں، یعنی ایسے افراد بھی وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں اور پورے چین تک اسے پہنچا سکتے ہیں۔
اس موقع پر انہوں نے اپنی کمپنی کی توجہ کورونا وائرس ویکسین پر مرکوز کرنے کا فیصلہ کیا اور اگلے ہفتے اپنی کمپنی کو آگاہ کیا کہ اب زیادہ تر آپریشن ویکسین کی تیاری اور آزمائش کے لیے ہوں گے۔
اوغور شاہین نے چینی محققین کی جانب سے 11 جنوری کو شائع کیے جانے والے وائرس کے جینیاتی سیکونس کو استعمال کرکے 10 مختلف ویکسینز کو ویک اینڈ کے دوران کمپیوٹر میں ڈیزائن کیا، جن میں سے ایک کو بعد میں بڑے ٹرائلز کے لیے منتخب کیا گیا اور اب مختلف ممالک میں اس کے استعمال کی منظوری بھی دی جاچکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس ویکسین کو چند گھنٹوں کے اندر ڈیزائن کیا گیا تھا۔
مگر بایو این ٹیک ایک چھوٹی کمپنی تھی اور اس کے پاس بڑے پیمانے پر ہونے والے ٹرائل کے لیے لاکھوں ڈوز تیار کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔
تو فروری میں اوغور شاہین نے فائر کے ویکسین ریسرچ کی سربراہ کیتھرین جینسین سے رابطہ کیا، جن کے ساتھ بائیو این ٹیک نے 2018 میں ایک فلو ویکسین کے لیے کام کیا تھا۔
کیتھرین جینسین نے اوغور شاہین کو بتایا کہ یہ وبا ایک آفت ہے جو مزید بدتر ہوگی، آپ کے ساتھ کام کرکے ہمیں خوشی ہوگی۔
مارچ کے وسط میں دونوں کمپنیوں نے شراکت داری کا اعلان کیا۔
فائزر نے ویکسین کی تیاری میں لاجسٹکس، ڈوز کی تیاری اور تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے انتظام کو سنبھالا جبکہ بائیو این ٹیک نے ویکسین کے ڈیزائن کو دیکھا۔
وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق 9 نومبر کو دونوں کمپنیوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کی ویکسین 90 فیصد تک موثر ہے، جب فائزر کے سی ای او نے یہ بات کمپنی کے اعلیٰ عہدیداران کو بتائی تو اپنی کرسیوں سے اچھل پڑے تھے۔
تیسرے ٹرائل کے حتمی نتاج اس سے بھی زیادہ بہتر تھے جن کے مطابق یہ ویکسین بیماری سے تحفظ کے لیے 95 فیصد تک موثر ہے جبکہ لوگوں میں مضر سائیڈ ایفیکٹس بھی نظر نہیں آئے۔
اس نئی ٹیکنالوجی کے فوائد تو کئی ہیں مگر ایک نقصان یہ ہے کہ لوگوں کو اس کے 2 انجیکشن کی ضرورت ہوگی جو 3 ہفتوں کے وقفے میں لگائے جائیں گے جبکہ ویکسین کو منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں منتقل کرنا ہوگا جس کے لیے ڈرائی آئس اور خصوصی فریزر کی ضرورت ہوگی۔
ابھی یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ ویکسین کتنے عرصے تک لوگوں کو کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرے گی اور کیا اس کو لگانے کے بعد وائرس سے متاثر افراد سے دیگر تک اس کی منتقلی کی روک تھام بھی ہوسکے گی یا نہیں۔