سرحدوں کی باڑ، جو ہمارے شہروں تک آگئی
اگر منصوبے کے مطابق گوادر شہر کے گرد باڑ لگائی گئی ہے، تو سیکیورٹی خدشات کے باعث سیل ہونے والا یہ پاکستان کا پہلا شہر ہوگا۔
اس منصوبے کے فوائد و نقصانات، عوامی ردِعمل اور حزبِ ختلاف کی تنقید کے علاوہ اس اقدام سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سیکیورٹی چیلنجز پر ریاست کس طرح کا ردِعمل دینا چاہتی ہے۔ عام طور پر سرحد کو محفوظ بنانے میں باڑ لگانے کو بالکل آخری قدم کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے شہروں کے گرد باڑ لگانے کے لیے مزید مضبوط دلائل کی ضرورت ہے۔
یقینی طور پر گوادر شہر کو سیکیورٹی خطرات لاحق ہیں۔ یہ شہر بلوچ عسکریت پسندوں کے نشانے پر ہے جو گزشتہ 3 سالوں میں اس ضلع میں دہشت گردی کی کم از کم 5 کارروائیاں کر چکے ہیں جن میں سے ایک گوادر شہر میں ہوئی تھی۔ باقی کارروائیاں پسنی، اورماڑا اور جیوانی کے مضافات میں ہوئی تھیں۔ ان حملوں میں تقریباً 20 سیکیورٹی اہلکار اور 20 شہری جان سے گئے تھے۔
مئی 2019ء میں گوادر کے پرل کانٹیننٹل ہوٹل پر ہونے والا حملہ یہاں ہونے والے خطرناک تریں حملوں میں سے ایک تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔ بی ایل اے نے اس حملے میں دھماکا خیز مواد اور راکٹوں کا استعمال کیا تھا جس کی وجہ سے عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور عمارت کی چوتھی منزل مکمل طور پر تباہ ہوگئی۔
اسی طرح رواں سال اکتوبر میں شرپسندوں نے گوادر سے کراچی آنے والے آئل اینڈ گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ کے قافلے پر مکران کوسٹل ہائی وے پر حملہ کیا۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچ شرپسندوں کے اتحاد براس نے قبول کی۔ اس حملے میں فرنٹیئر کور کے 7 جوانوں سمیت 14 افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے۔
ان حملوں نے بندرگاہ اور سی پیک کے منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی حفاظت پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ماہرین کہتے ہیں کہ شہر کے گرد باڑ لگانا خطرے کو ضرورت سے زیادہ سنگین بناکر پیش کرنے کے برابر ہے۔
بلوچستان حکومت کا کہنا ہے کہ شہر کے کچھ علاقوں میں باڑ لگانا شہر کے ماسٹر پلان میں شامل ہے۔ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خطرے اور عوام کی طرف سے کچھ علاقوں میں مزید سیکیورٹی کے تقاضے پر کچھ علاقوں کو سیف سٹی منصوبے کے تحت باڑ لگا کر محفوظ بنایا جارہا ہے۔ تاہم مقامی افراد کے بیانات اس سے مختلف ہیں۔
اکثر افراد کا کہنا ہے کہ اگرچہ حکومت نے پرانے شہر کی بحالی کے پروگرام کا آغاز کردیا ہے لیکن اس منصوبے سے اب بھی بجلی اور پانی کی فراہمی کا پرانا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ وفاقی حکومت نے حال ہی میں بلوچستان کے 9 جنوبی اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 600 ارب روپے کے پیکچ کا اعلان کیا ہے، لیکن مقامی افراد کو اس بات کی امید نہیں ہے کہ انہیں اس میں سے کچھ ملے گا یا پھر ان فنڈز کا درست استعمال ہوگا۔ اس کے علاوہ مکران کے تاریخی خطے کو ’جنوبی بلوچستان‘ کا نام دینے سے بھی مقامی افراد کو خدشات ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ اس خطے کو انتظامی لحاظ سے باقی صوبے سے الگ کرنے کا منصوبہ ہے۔
نئے منصوبے کے مطابق 2 داخلی اور خارجی راستے قائم کیے جائیں گے جس سے شہر کے غیر مقامی رہائشیوں اور چینی باشندوں کو تحفظ کا احساس ہوگا۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس سے سیکیورٹی خدشات کم ہوں گے؟
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پرل کانٹیننٹل پر حملے میں دہشت گردوں نے شہر کے راستے کا انتخاب کیا تھا۔ ان دہشت گردوں کی موجودگی بہرحال ایک خطرہ تو ہے لیکن شہروں کے گرد باڑ لگادینا اس کا حل نہیں ہے۔ بلوچ عسکریت پسندوں کے پاس داعش، طالبان یا القاعدہ کی طرح بڑے حملے کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود اگر وہ اتنا بڑا حملے کرنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو ایسے حملے کی کامیابی پر بھی سوالیہ نشان موجود رہیں گے۔
اس کے علاوہ ان شرپسندوں سے نمٹنے کے لیے ریاست کی حکمتِ عملی پر بھی سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ سیکیورٹی ادارے دفاعی حکمتِ عملی کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں؟ کیا اس سے ان شرپسندوں میں کامیابی کا احساس پیدا نہیں ہوگا؟
سب سے زیادہ ضروری سوال یہ ہے کہ ریاست ان سے نمٹنے کے لیے مفاہمت سمیت دیگر سیاسی اقدامات کا سہارا کیوں نہیں لے رہی جو ناصرف کم خرچ ہیں بلکہ دیرپا استحکام کے لیے ضروری بھی ہیں؟ ریاست نے کچھ سیاسی اقدامات تو کیے لیکن ان میں خود ریاست کی بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور وہ دوسری طرف کو راغب کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوئی۔
معاشی ترقی کے لیے تحفظ کی فضا بہت ضروری ہے اور یہ فضا قومی یگانگت سے ہی بنتی ہے۔ تاہم یہ قومی یگانگت یا بھائی چارہ نہ ہی خود تیار کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بزور قوت نافذ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک دوسرے پر اعتبار ہونا چاہیے اور یہ اعتبار صرف آپس میں بات جیت اور معاشرتی میل ملاپ سے ہی ممکن ہے۔
سب سے پہلے بھارت نے پاکستان کے ساتھ اپنی سرحد پر باڑ لگائی تھی۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ سرحد پر باڑ لگنے کے بعد پاکستان مکمل طور پر باڑ سے گہرا ہوا ملک بن جائے گا۔ شاید پاکستان کو اپنی قومی سلامتی کی ترجیحات اور اقدامات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
باڑ لگا کر خود کو محفوظ کرنے کا جو عمل افغان سرحد سے شروع ہوا تھا وہ ایران کی سرحد سے ہوتا ہوا اب ہمارے شہروں تک آگیا ہے۔ لیکن باڑ اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ اب دہشت گرد اپنی کارروائیاں ترک کردیں گے۔ وہ متبادل تلاش کرلیں گے جیسا کہ ہم افغان سرحد پر دیکھ رہے ہیں۔
گزشتہ حکومتیں قومی سلامتی پالیسی کی تیاری کی کوششیں کرتی رہیں اور اس میں بہت وقت بھی لگ گیا۔ اب قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے امید دلائی ہے کہ 2021ء کے اوائل تک قومی سلامتی پالیسی کا مسودہ تیار ہوجائے گا۔ اس کی کیا شکل ہوگی اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں، لیکن یہ وعدہ ضرور کیا گیا ہے کہ یہ پالیسی سیکیورٹی کی روایتی اور غیر روایتی دونوں جہتوں کا احاطہ کرے گی اور اس میں انسانی تحفظ پر خاص توجہ دی جائے گی۔
بہرحال اس قومی سلامتی پالیسی سے بہت زیادہ امیدیں نہیں رکھی جاسکتیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ پالیسی پارلیمان اور عوامی فورمز میں ہونے والی بحث کی جگہ بیوروکریسی کی مشاورت کا نتیجہ ہوگی۔ پھر بھی اگر اس پالیسی میں قومی اتحاد کی حکمتِ عملی کو اختیار کیا گیا جس سے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان بات چیت شروع ہو تو یہ کئی حوالوں سے فائدہ مند ہوگی۔ کم از کم اس سے ملک اور اس علاقے کے پیچھے رہ جانے والے فراد کو کوئی امید حاصل ہوسکے گی۔
یہ مضمون 13 دسمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (5) بند ہیں