• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

امریکا بھی سی پیک کی مخالفت کررہا ہے، شیریں مزاری

شائع December 20, 2020
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کے مطابق کوئی بھی مخالفت کرے سی پیک آگے بڑھے گا — فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کے مطابق کوئی بھی مخالفت کرے سی پیک آگے بڑھے گا — فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا کی جانب سے پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کی مخالفت کی جارہی ہے۔

ڈان نیوز کو خصوصی انٹرویو میں شیریں مزاری نے کہا کہ سی پیک کو نشانہ بنایا جارہا ہے اور امریکا وغیرہ کی جانب سے اس کی مخالفت کی جارہی ہے لیکن کوئی بھی مخالفت کرے سی پیک آگے بڑھے گا۔

سی پیک کے خلاف سازش سے متعلق شیریں مزاری نے کہا کہ امریکا وغیرہ کی جانب سے اس کی مخالفت کی جارہی ہے، امریکا پہلے سوویت یونین کو اپنا دشمن سمجھتا تھا اور اب چین کو سمجھتا ہے۔

وفاقی وزیر نے خصوصی انٹرویو میں یہ انکشاف کیا—فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی وزیر نے خصوصی انٹرویو میں یہ انکشاف کیا—فوٹو: ڈان نیوز

انہوں نے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکا، چین کو اپنا مخالف بھی سمجھتا ہے اور ملٹری اتحاد کے ذریعے اسے روک بھی رہا ہے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سی پیک کو ان ممالک کی جانب سے نشانہ بنایا جارہا ہے جن کے مفادات کو اس منصوبے سے خدشات درپیش ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان نے سی پیک سے متعلق دعوؤں کو مسترد کردیا

شیریں مزاری نے کہا کہ سی پیک کو نشانہ تو بنایا جارہا ہے لیکن اسے روک نہیں سکتے، یہ آگے بڑھے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکا اور چین کے درمیان سب سے زیادہ تجارت ہے جبکہ ایران اور چین کے آپس میں تعلقات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ایک فائیو آئیز انٹیلیجنس گیدرنگ گروپ بنا ہے جس میں یورپی یونین، بھارت، امریکا، جاپان، آسٹریلیا گروپ میں شامل ہیں۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ اس گروپ پر پاکستان کو خدشات ہیں اور ہمیں اس کا جواب دینا پڑے گا۔

'لاپتا افراد کا معاملہ حل کرنے میں وقت لگے گا'

انسانی حقوق سے متعلق عوام کی توقعات پر پورا اترنے سے متعلق شیریں مزاری نے کہا کہ 'میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عوام کی توقعات پر پورا اتررہی ہے اور کئی شعبوں میں انہیں پورا کرچکی ہے'۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ انسانی حقوق کی بات کریں تو پچھلی حکومتوں نے انسانی حقوق کے بارے میں کچھ بھی نہیں کیا تھا، چاہے بچوں کے خلاف تشدد ہو، جبری گمشدگیوں پر تو بات ہی نہیں ہوتی تھی۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے یہ مسئلہ اٹھایا ہی نہیں تھا، وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے کمیٹی بنائی اور وزارت انسانی حقوق نے اس پر ایک بِل بھی تیار کیا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جبری گمشدگی کے ذمہ داروں کے تعین میں لاپتا افراد کمیشن ناکام رہا، آئی سی جے

شیریں مزاری نے کہا کہ لاپتا افراد کا معاملہ حل کرنے میں وقت لگے گا لیکن اس حوالے سے ہمارا بِل تیار ہے، وزیراعظم نے خاص کمیٹی بنائی ہے کہ اس مسئلے کو جلد از جلد حل کیا جائے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پہلے اس مسئلے پر کوئی حکومت بات کرتی تھی؟ یہ ایک ممنوعہ موضوع تھا۔

انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس(آئی سی جی) کی رپورٹ میں لاپتا افراد کمیشن میں توسیع نہ کرنے سے متعلق کہا گیا ہے اس حوالے سے ایک سوال پر وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ بہت لوگوں کو بازیاب کروایا گیا ہے اس کا کریڈٹ کمیشن کو جانا چاہیے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ وزیراعظم نے جو کمیٹی تشکیل دی ہے اس میں تبدیلیاں لانے سے متعلق بات چیت ہوئی ہے اور اسے مؤثر بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر کمیشن کا کام لاپتا افراد کا پتا لگانا اور انہیں بازیاب کرانا تھا یہ کام چل رہا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس حوالے سے تحقیقات ہونی چاہئیں کہ لاپتا افراد کے معاملے میں کون ملوث ہے؟اور اس ضمن میں تحقیقاتی عمل میں بہتری لانے، قانون لانے اور اسے کرمنلائز کرنے کی ضرورت ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ' ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کوئی قانون توڑا ہے یا پاکستان کے خلاف کوئی سرگرمیاں کررہا ہے تو اسے عدالت میں پیش کرکے آپ اپنے قانون سخت کرلیں لیکن لاپتا نہیں کرنا چاہیے، جمہوریت میں ایسا نہیں ہوتا، یہ ہمارا مؤقف ہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 2 سویلین حکومت جمہوری طریقے سے منتخب ہوکر آئیں انہوں نے اس پر بات تک نہیں کی۔

کمیشن میں توسیع کے بعد اس کے سربراہ جاوید اقبال کو تبدیل کرنے سے متعلق سوال پر وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ کمیشن کے کام، قواعد میں تبدیلی آنی چاہیے۔

وزارت انسانی حقوق کے اقدامات

انہوں نے مزید کہا کہ وزارت انسانی حقوق نے ایک ایپ بھی لانچ کی ہے کہ کورونا وائرس کے دوران خاص طور پر جو خواتین تشدد کا سامنا کررہی ہیں ان کی مدد کی جاسکے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ایپ کے ذریعے علم ہوجائے گا کہ خاتون پر تشدد ہورہا ہے اور متاثرہ خاتون کی لوکیشن معلوم کی جاسکے گی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے سینئر سٹیزن سے متعلق بھی ایک بِل پیش کیا تھا جو ایک سال کے عرصے انسانی حقوق کی کمیٹی میں التو کا شکار ہے، اب ذیلی کمیٹی کی جانب سے منظوری دی جاچکی ہے لیکن جب تک بلاول بھٹو زرداری کمیٹی اجلاس کی سربراہی کے لیے وقت نہیں نکالیں گے اس پر مزید کام نہیں ہوسکے گا۔

مزید پڑھیں: زینب الرٹ بل ترمیم کے ساتھ قومی اسمبلی سے بھی منظور

انہوں نے کہا کہ اس بِل کا کوئی سیاسی پہلو نہیں ہے لیکن پھر بھی بلِ تاخیر کا شکار ہے۔

شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ پارلیمانی نظام کا ایک طریقہ کار ہے تو اس سے تاخیر بہت ہوتی ہے، اسی طرح اینٹی ریپ قانون، آرڈیننس کے ذریعے نافذ کیا گیا، ٹرانس جینڈرز کا قانون پہلے بنا تھا لیکن عملدرآمد نہیں ہوا تھا اور اب اس پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے سب سے اہم کام یہ کیا ہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں چائلڈ ڈومیسٹک لیبر پر پابندی لگادی ہے اور کوئی بھی صوبہ اس پابندی کو اپنا سکتا ہے۔

انسانی حقوق کمیشن کا سربراہ نہ ہونے سے متعلق انہوں نے کہا کہ پچھلے سربراہ عدالت چلے گئے تھے، اس پر سال بھر اسٹے ہوتا رہا پھر عدالت نے کہا کہ دوبارہ اشتہار دیں تو اشتہار دے دیا ہے، درخواست گزاران کی فہرست وزیراعظم کو بھیج دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کابینہ کمیٹی نے سخت سزاؤں کیلئے انسداد ریپ آرڈیننس کی منظوری دے دی

انہوں نے کہا کہ نیشنل کمیشن آف ویمن کے سربراہ کی فہرست 6 ماہ قبل اپوزیشن کو بھیجی تھی لیکن اپوزیشن کا جواب نہیں آیا تھا۔

بچوں سے بدسلوکی اور ریپ کے واقعات میں کمی آنے سے متعلق وفاقی وزیر نے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ اب سوشل میڈیا، میڈیا کے ذریعے یہ کیسز زیادہ ہائی لائٹ ہورہے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریپسٹ کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے، جوسزائیں منظور کی ہیں وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہیں۔

'اگر پچھلی حکومتیں کچھ کرتیں تو شاید بھارت 5 اگست کا اقدام نہ اٹھاتا'

مقبوضہ کشمیر سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت نے خود اپنے دفتر خارجہ کو کہا تھا کہ کشمیر پر بات نہ کریں، آپ ریکارڈ ٹریس کرلیں، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے بیانیہ تبدیل کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی قراردار میں اس مرتبہ کشمیر کا ذکر آیا ہے، اس سے بھارت کا میڈیا اپ سیٹ ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ میں نے پچھلی اسمبلی میں بہت مرتبہ یہ سوال کیا کہ کشمیر کمیٹی میں کتنا پیسہ خرچ ہوا، مولانا فضل الرحمٰن جب سے کمیٹی کی سربراہی کررہے تھے، کتنے دورے ہوئے اور اس کا کیا اثر ہوا، آپ بطور میڈیا تحقیقات کرلیں کہ فرق صاف ظاہر ہوگا پہلے کیا ہوا تھا۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ہماری حکومت کی جانب سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے مبصرین، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمشنر، انسانی حقوق کونسل کو خطوط بھیجے گئے ہیں پہلے ایسا کبھی بھی نہیں ہوا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جو تنقید کررہے ہیں وہ یہ تو دیکھیں کہ انہوں نے کشمیر کاز کو نہ صرف پسِ پشت ڈالا بلکہ خود پاکستان کی پچھلی حکومتوں نے کہا کہ کشمیر پر بات نہیں کرنی۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اگر پچھلی حکومتیں کچھ کرتیں تو شاید بھارت یہ (5 اگست) کا اقدام نہ اٹھاتا، ہم نے اس کے خلاف ایکشن لیا ہے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ہم سمجھتے تھے کہ بھارت ایک جمہوری ملک ہے تو ایک معقول طریقہ ہوگا لیکن اب واضح ہوگیا کہ مودی کا تو فاشزم ایجنڈا ہے لیکن اب وہ اپنے شہریوں، اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کو شہریت سے محروم کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ فلسطین پر 3 قراردادیں منظور ہوئی ہیں تو ہمیں بھی اقوام متحدہ میں کشمیر کے معاملے پر زیادہ لابنگ کرنی چاہیے تاکہ اس حوالے سے قراردادیں منظور ہوسکیں۔

'جو منتخب نہیں، پارلیمان سے باہر ہیں وہ زیادہ شور کررہے ہیں'

اپوزیشن کی آواز دبانے کی کوشش، انٹرویوز پر پابندی ہونے اور انہیں جلسے جلوس نہ کرنے دینے سے متعلق تنقید کے سوال پر شیریں مزاری نے کہا کہ اس سلسلے میں عدالت نے کہا ہے کہ انہیں ٹائم دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ سزا یافتہ ملزمان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی آواز کون روک رہا ہے؟ بی بی سی کو بھی اسحٰق ڈار نے انٹرویو دیا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم جلسے نہیں روک رہے حالانکہ انہیں خود احساس نہیں ہے کہ کووڈ-19 کتنا پھیل رہا ہے۔

اپوزیشن کے مطالبات ماننے سے متعلق شیریں مزاری نے کہا کہ ان کے مطالبات کیا ہیں کہ 'حکومت استعفیٰ دے دے اور ہم کسی طرح اقتدار میں آجائیں'۔

شیریں مزاری نے مزید کہا کہ دلچسپ بات ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن بری طرح الیکشن ہارے ہیں، بلوچستان سے اچکزئی بری طرح ہارے ہیں، اب یہ اس کا رونا رو رہے ہیں، اگر انہیں لوگوں نے منتخب کرنا ہوتا تو کرلیتے یہ اپنی جماعتوں کے لیڈرز تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جو منتخب ہیں انہیں مسئلہ نہیں، جو منتخب نہیں، پارلیمان سے باہر ہیں وہ زیادہ شور کررہے ہیں کہ ہم نے حکومت بنانی ہے۔

اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جاری سیاسی جنگ پارلیمان میں داخل ہونے سے متعلق وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت ان کے ہاتھ نہیں آئے گی، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت آگئی تو کرپشن، منی لانڈرنگ بچالیں گے، کس طریقے سے انہوں نے ملک کو لوٹا ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دے دیا

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے سندھ میں ہر چیز میں کمیشن لیا، پاکستان مسلم لیگ(ن) نے غریب لوگوں کے نام پر ٹی ٹیز بھیجیں، یہ کیا ہوا ہے ، لوٹ مار سرعام ہورہی ہے، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ حکومت میں آجائیں اور احتساب کا یہ عمل ختم ہوجائے۔

'نواز شریف میں ہمت ہے تو واپس آئیں'

سابق وزیراعظم نواز شریف سے متعلق شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ نواز شریف چل پھر رہے ہیں، ان میں اتنی ہمت ہے تو واپس آئیں قانون کے سامنے پیش ہوں۔

شیریں مزاری نے کہا کہ انہوں نے جو جرائم کیے، عام شخص تو جیل میں جاتا ہے یہ پیسے لے کر باہر بھاگ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف چل پھر رہے ہیں، یہاں جو پلیٹلیٹس کی تعداد کم تھی لندن پہنچ کر ٹھیک ہوگئی، کیا تماشا ہے، قانون کی دھجیاں اڑارہے ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ نواز شریف میں ہمت ہے تو واپس آئیں، یہ سزا یافتہ ہیں اور بھاگ گئے ہیں، برطانیہ کی حکومت کو اس پر کارروائی کرنی چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے اپوزیشن کے کہنے پر دھاندلی سے متعلق کمیٹی بنائی تھی وہ لوگ آتے ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم ان کی تقریریں سنتے ہیں، وہ ہماری تقریروں کے وقت بھاگ جاتے ہیں ان میں برداشت ہی نہیں ہے تو کیا پارلیمان پر بات رکھتے ہیں۔

'کلبھوشن کے معاملے پر آئی سی جے کا دائرہ کار کیوں منظور کیا گیا؟'

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت میں اس حوالے سے تشکیل کردہ کمیٹی میں، میں اور شیری رحمٰن تھے، ہم نے کچھ سوال اٹھائے تھے، اس کیس میں آئی سی جے کا دائرہ کار کیوں منظور کیا گیا؟

انہوں نے کہا کہ کیس سے پہلے مارچ میں ملیحہ لودھی کے ذریعے خط لکھا گیا تھا ہم آئی سی جے کا دائرہ کار محدود کررہے ہیں اور قومی سلامتی کے مسائل پر قبول نہیں کریں گے جو ہر ملک کرتا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 2008 میں پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاہدہ ہوا تھا، اقوام متحدہ کا نظام یہ ہے کہ ہر دو طرفہ معاہدہ وہاں رجسٹر نہیں ہوتا تو وہ تسلیم نہیں ہوتا، ہم نے نہیں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ کیس کا دائرہ کار قبول کیا، گریڈ 20 کے جونیئر افسر کو پاکستان کا نقطہ نظر عدالت میں دینے کے لیے بھیجا جب انہوں نے اس معاہدے کا حوالہ دیا تو آئی سی جے نے پوچھا کون سا معاہدہ اس کے بعد یہ رجسٹر ہوا۔

شیریں مزاری نے کہا کہ یہ کس حکومت کی کوتاہیاں ہیں جن کی وجہ سے ہم پھنسے ہیں، فیصلے میں تھا کہ پاکستان کو قونصلر رسائی دینی چاہیے تو ماننا پڑا۔

'اطلاعات ہیں کہ پی ڈی ایم کو باہر سے فنڈنگ آرہی ہے'

اپوزیشن کی جانب سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی تحریک سے متعلق شیریں مزاری نے کہا کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ اس سلسلے میں کافی فنڈنگ باہر سے آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اس کے ٹھوس شواہد آتے ہیں تو حکومت کا فرض ہے کہ اس کے خلاف اقدام کرے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ ہم تو کہتے ہیں کہ استعفے دے دیں تاکہ ہم ضمنی انتخابات کروالیں اگر ساری اپوزیشن بھی استعفے دے اور ہمارا کورم رہے تو ہم ضمنی انتخابات کروائیں گے۔

'سوشل میڈیا قوانین کو لچکدار بنایا گیا ہے'

سوشل میڈیا پر پابندیوں سے متعلق انہوں نے کہا کہ قوانین کو بہت لچک دار بنایا گیا ہے میں بھی اس کمیٹی میں تھی، یا تو پیکا کا قانون ہٹادیں کیونکہ اس کے رولز بنتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈیٹا پروٹیکشن کا قانون بھی بننا چاہیے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ بلاول بھٹو نے صحافیوں کے صرف ایک گروہ کو بلایا باقی خواتین صحافیوں نے بھی وہی اپیل بھیجی تو انہیں کیوں نہیں بلایا گیا؟

انہوں نے کہا کہ کسی پر تنقید کرنا گالی نہیں ہے، اگر کسی نے غلط کہا ہو حقائق بیان کیے ہوں تو یہ غلط نہیں ہے، ہمیں سوشل میڈیا پر گالیاں دی جاتی ہیں، ہمیں اپنی پارٹی کے ٹرولز سے گالیاں دی جاتی ہیں۔

نیب کو بلیک لسٹ کرانے سے متعلق سلیم مانڈی والا کے بیان پر شیریں مزاری نے کہا کہ نیب کو بلیک لسٹ نہیں کراسکتے، اگر انہوں نے کچھ غلط کام نہیں کیا تو پیش ہوکر صفائی دیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024