• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

معاوضہ ادائیگی کی درخواست: بلدیہ فیکٹری کے مالک، صوبائی حکام کو عدالتی نوٹسز جاری

شائع December 13, 2020
درخواست مہلک حادثات ایکٹ 1855 کے تحت جمع کروائی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی
درخواست مہلک حادثات ایکٹ 1855 کے تحت جمع کروائی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی کی مقامی عدالت نے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں آتشزدگی واقعے میں جاں بحق ہونے والے دو ملازمین کے ورثا کی جانب سے دائر کی گئی معاوضے کی ادائیگی کی درخواست پر فیکٹری کے مالک اور سرکاری محکموں کو نوٹسز جاری کردیے۔

خیال رہے بلدیہ ٹاؤن میں قائم گارمینٹس کی فیکٹری میں 11 ستمبر 2012 کو آتشزدگی کے نتیجے میں 260 مزدور جاں بحق ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس: کب کیا ہوا؟

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینئر سول جج (غربی) جاوید اقبال ملک نے 5 جنوری کو دائر کی گئی درخواست پر نوٹسز جاری کیے، جس میں مہلک حادثات ایکٹ 1855 کے تحت ایک کروڑ 46 لاکھ 64 ہزار روپے کے معاوضے کی ادائیگی کا دعویٰ دائر کیا گیا تھا۔

معاوضے کا کیس محمد انس اور محمد حسن کی جانب سے دائر کیا گیا ہے، جس میں فیکٹری کے چیف ایگزیکٹو آفیسر علی انٹرپرائزز شاہد بھالیہ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل جبکہ لیبر، انڈسٹریز اور کامرس کے صوبائی محکموں کے سیکریٹریز کو فریق بنایا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بلدیہ فیکٹری کے مرکزی ملزمان کی سفاکی

درخواست گزاروں کی عمریں 8 اور 10 سال ہیں، جنہوں نے اپنی والدہ، الماس اور نازنین، کے ذریعے علی انٹر پرائزز کے خلاف معاوضے کی درخواست دائر کی تھی، جہاں ملازمت کے دوران 2012 میں فکٹری میں ہونے والے واقعے میں ان کے خاوند جاں بحق ہوگئے تھے۔

درخواست گزار کے وکیل عثمان فاروق نے عدالت کو بتایا کہ واقعے سے کچھ ہفتے قبل ملازمین کے مناسب تحفظ سے متعلق فیکٹری کو بین الاقوامی سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا تھا، لیکن دوسری جانب صنعتی یونٹ مبینہ طور پر چائلڈ لیبر میں ملوث تھا بلکہ یہاں کام کی جگہ بھی بند تھی جو ملازمین کے لیے ایک جیل کی مانند تھی۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس: ایم کیو ایم کے رحمٰن بھولا، زبیر چریا کو سزائے موت، رؤف صدیقی بری

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ آتشزدگی کے موقع پر فیکٹری میں 300 سے 400 ملازمین موجود تھے اور حکام نے دعویٰ کیا کہ فیکٹری کے دروازے لاک تھے جبکہ متعدد کھڑکیوں میں بھی لوہے کی سلاخیں لگی ہوئی تھیں، جس کے باعث ملازمین کو نکلنے میں مشکل ہوئی اور بیشتر سانس میں دشواری کی وجہ سے جاں بحق ہوئے۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ صوبائی محکمہ لیبر اس بات کا ذمہ دار ہے کہ صوبے میں لیبر قوانین پر عمل درآمد کروائے اور صنعتوں میں کام کرنے والے ملازمین کی سوشل سیکیورٹی کو یقینی بنائے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024