• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

مولانا شیرانی کے بیان پر کمیٹی بن چکی ہے، اجلاس طلب کرلیا گیا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

شائع December 23, 2020
فض الرحمٰن نے کہا کہ ایک طرف میری سیکیورٹی واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالنا دوسری طرف شیخ رشید کا بیان متضاد باتیں ہیں — فائل فوٹو
فض الرحمٰن نے کہا کہ ایک طرف میری سیکیورٹی واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالنا دوسری طرف شیخ رشید کا بیان متضاد باتیں ہیں — فائل فوٹو

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ مولانا شیرانی کے بیان پر کمیٹی بن چکی ہے اور اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔

نجی چینل 'جیو نیوز' کے پروگرام 'کیپیٹل ٹاک' میں بات کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'میری ذات کے حوالے سے تو میں مولانا شیرانی کو پوری زندگی برداشت کرتا رہا ہوں، وہ میرے بزرگ ہیں اور میں ان کا احترام کرتا ہوں لیکن اگر جماعت کے حوالے سے کوئی ایسی بات کی جاتی ہے جو اس کے نظریات اور منشور کے خلاف ہو تو جماعت نے اس کا نوٹس لیا ہے، کمیٹی بن چکی ہے اور اجلاس طلب کیا جاچکا ہے'۔

مولانا شیرانی کی طرف سے سلیکٹڈ کہنے پر ان کا کہنا تھا کہ 'میرے الیکشن میں تو مولانا محمد خان شیرانی خود موجود تھے، ان کا زانو میرے زانو سے ملا ہوا تھا اور وہ مجھ سے قبل اس اجلاس میں پہنچے ہوئے تھے جس میں میرا انتخاب ہونا تھا'۔

انہوں نے کہا کہ 'میرا انتخاب بلامقابلہ ہوا، نہ شیرانی صاحب نے اور نہ کسی اور نے خود کو امیدوار کے طور پر پیش کیا، جبکہ سلیکٹڈ کا لفظ انہوں نے وہاں سے لیا ہے جو ہم عمران خان کے لیے استعمال کرتے ہیں'۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینئر رہنما اور اسلامی نظریاتی کونسل کے سابق چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کوئٹہ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مولانا فضل الرحمٰن، وزیر اعظم عمران خان کو کیسے سلیکٹڈ کہہ سکتے ہیں جب وہ خود سلیکٹڈ ہیں۔'

یہ بھی پڑھیں: پی ڈی ایم کی تحریک مفاہمت کیلئے ہے تاکہ ان کو بھی حصہ ملے، مولانا شیرانی

مولانا فضل الرحمٰن سے اختلاف سے متعلق واضح جواب دیے بغیر انہوں نے کہا کہ 'ہماری قسمت ایسی ہے کہ علما اور قومی زعما جب ان پر صاف ستھرا جھوٹ ثابت ہوجائے نہ وہ شرماتے ہیں نہ ان کے چہرے پر نہ آنکھوں میں کوئی تغیر آتا ہے، بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ تو حکمت عملی ہے اور جب وعدہ خلافی ان پر ثابت ہوجائے تو کھل کھلا کر کہتے ہیں کہ یہ تو سیاست ہے، رات گئی بات گئی'۔

ان کا کہنا تھا کہ جب دھوکا ثابت ہوجائے تو پھر بڑے آرام سے تکیہ لگا کر کہتے ہیں کہ یہ تو مصلحت ہے، جب خود غرضی ثابت ہوجائے تو کہتے ہیں کہ یہ تو دانائی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کے مولانا فضل الرحمٰن سے سمیت 20 سیاستدانوں کی جانوں کو خطرات لاحق ہونے کے بیان پر ان کا کہنا تھا کہ 'میں حیران اس بات پر ہوں کہ ایک طرف ڈیرہ اسمٰعیل خان کی پولیس مجھ سے کہتی ہے کہ ہم پر دباؤ ہے کہ فضل الرحمٰن سے سیکیورٹی واپس لے لی جائے، دوسری طرف شیخ رشید کا بیان متضاد باتیں ہیں'۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن سمیت 20 سیاستدانوں کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہیں، وزیر داخلہ

وزیر اعظم کی جانب سے اس چیلنج پر کہ پی ڈی ایم جماعتیں ایک ہفتہ بھی اسلام آباد میں دھرنا نہیں دے سکتیں، مولانا فضل الرحمٰن نے طیش میں آکر کہا کہ 'ہم کتنے دن بیٹھیں گے یہ طے کرنے والے عمران خان کون ہوتے ہیں، یہ میری مرضی ہے کہ میں ایک گھنٹہ، ایک دن یا دس دن بیٹھوں، یہ فیصلہ ہم کریں گے اور اپنی حکمت عملی کے تحت کریں گے'۔

حکومت کی جگہ اپوزیشن کو بند گلی میں دھکیلنے سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'تحریکیں خود اعتمادی سے آگے بڑھتی ہیں، اس میں خطرہ ہے اس کی سیاست اُس کی سیاست، کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے اس طرح سیاست نہیں چلتی، آپ کو واضح سمت کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا اور پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے ہدف کی طرف بڑھنا ہوگا'۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے استعفوں کو ایٹم بم کہنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 'یہاں ایٹم بم کے الفاظ حکومت کو تباہ کرنے اور ملک کو بچانے کے لیے استعمال ہورہے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیں: استعفے ہمارے ایٹم بم ہیں، اس کے استعمال کی حکمت عملی مل کر اپنائیں گے، بلاول

موجودہ اسمبلیوں کو جعلی قرار دینے اور انہی اسمبلیوں کے تحت ہونے والے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے متعلق سربراہ جے یو آئی (ف)نے کہا کہ 'یہ حزب اختلاف کا فیصلہ تھا، نواز شریف نے پہلے شہباز شریف اور پھر مجھے براہ راست خط لکھا کہ اسمبلیوں میں نہ جانے اور حلف نہ اٹھانے کی آپ کی رائے درست تھی، لیکن تمام اپوزیشن جماعتوں نے کہا کہ اسمبلیوں میں جانا ہے تو اس میں آپ نے بھی ہمارا ساتھ دیا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'جس حکمران کو قوم تسلیم نہیں کر رہی اور جو حکومت ناجائز بھی ہے اور نااہل بھی ثابت ہوئی ہے تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ ایسے شخص کی بات کا میں جواب بھی دوں یا نہ دوں'۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024