• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان ’استعفوں‘ کے معاملے پر تنازع

شائع December 25, 2020
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے دونوں اراکین کو خطوط جاری کیے—فائل فوٹو: اے ایف پی
قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے دونوں اراکین کو خطوط جاری کیے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان اس وقت ایک تنازع کھڑا ہوگیا جب سیکریٹریٹ کی جانب سے مانسہرہ اور ایبٹ آباد سے 2 لیگی قانون سازوں کو خطوط جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ وہ اپنے ’استعفوں‘ کی تصدیق کے لیے اسپیکر اسد قیصر کے سامنے پیش ہوں جبکہ دو قانون سازوں نے اسپیکر کو کسی قسم کے استعفے بھیجنے سے انکار کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسی طرح کا ایک خط ایبٹ آباد سے مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے سردار اورنگزیب نالوتھا کو خیبرپختونخوا اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے بھی جاری کیا گیا۔

تاہم مسلم لیگ (ن) نے ان استعفوں کو ’جعلی‘ قرار دیتے ہوئے دونوں اسمبلیوں کے اسپیکرز سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں اور ہمیں بتائیں کہ ان کے پاس یہ استعفے کس نے جمع کروائے تھے۔

مزید پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کے دو ارکان کے استعفے اسپیکر کو موصول، مریم اورنگزیب کی تردید

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے اراکین کے مانسہرہ سے رکن قومی اسمبلی محمد سجاد اور ایبٹ آباد سے مرتضیٰ جاوید عباسی کو علیحدہ خطوط جاری کیے، جس میں ان سے درخواست کی گئی کہ وہ اپنے استعفوں کی تصدیق کے لیے اسپیکر کے سامنے پیش ہونے کے لیے حتمی تاریخ مقرر کرنے کے لیے قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے رابطہ کریں۔

دونوں قانون سازوں کو بتایا گیا کہ 14 دسمبر کو آپ کے سرکاری لیٹرہیڈ پر آپ کے قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفے موصول ہوئے اور ’قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کے ریکارڈ کے مطابق اس پر موجود آپ کے دستخط اصلی پائے گئے‘۔

دونوں اراکین کو آگاہ کیا گیا کہ ’7 روز میں ذاتی طور پر‘ اسپیکر اسمبلی کے سامنے پیش ہونے کی حتمی تاریخ دیں، اگر وہ اس کا جواب دینے میں ناکام رہتے ہیں تو اس کا یہ مطلب تصور ہوگا کہ وہ کچھ نہیں کہنا چاہتے اور قواعد کے مطابق ان کے استعفے منظور کرلیے جائیں گے۔

مرتضیٰ جاوید عباسی، جو گزشتہ اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر رہ چکے ہیں اور وہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنما ہیں جبکہ محمد سجاد مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر کے بھائی ہیں۔

علاوہ ازیں اسی طرح کا ایک خط خیبرپختونخوا اسمبلی سیکریٹریٹ سے مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے سردار اورنگزیب نالوتھا کو بھی جاری کیا گیا۔

ترجمان کے پی اسمبلی سیکریٹری کا کہنا تھا کہ سردار اورنگزیب کا عہدے سے استعفیٰ موصول ہوا تھا اور پھر ان کو نوٹس جاری کیا گیا کہ استعفے کی تصدیق کے لیے اسپیکر اسمبلی کے سامنے پیش ہوں۔

تاہم جب سردار اورنگزیب سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے اسپیکر کو استعفیٰ بھیجنے کی تردید کی اور کہا کہ انہوں نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے لیے گئے فیصلے پر اپنا استعفیٰ پارٹی کے صوبائی صدر امیر مقام کے حوالے کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں سیکریٹریٹ سے کوئی خط موصول ہوا ہے اور وہ اسپیکر کے سامنے پیش ہوکر اپنی پوزیشن واضح کریں گے۔

اسی حوالے سے جب مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پارٹی کے قانون سازوں کے استعفے ’جعلی‘ لگتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے قانون سازوں کو کہا تھا کہ وہ اس معاملے پر باقاعدہ تحقیقات کا مطالبہ کریں اور تحریک استحقاق بھی جمع کرائیں کیونکہ اسپیکر کے اس قدم سے ان کے استحقاق مجروح ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کی اپنے اراکین پنجاب اسمبلی کو استعفیٰ جمع کرانے کیلئے ڈیڈلائن

دوسری جانب مرتضیٰ جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ وہ کیسے استعفیٰ اسپیکر کو بھیج سکتے ہیں جب وہ خود پارٹی قیادت کے فیصلے کی روشنی میں اراکین قومی اسمبلی سے استعفے جمع کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے ایک بیان میں کہا کہ پارٹی قیادت نے اراکین کے لیے پارٹی قیادت کو استعفے جمع کرانے کی ڈیڈلائن 31 دسمبر رکھی تھی۔

انہوں نے کہا کہ تمام مسلم لیگ (ن) کے اراکین پہلے ہی اپنے استعفے پارٹی قیادت کو جمع کراچکی ہے جس کی بنیاد پر پی ٹی ایم قیادت حتمی فیصلہ کرے گی۔

خواجہ آصف نے کہا کہ پارٹی کی قیادت کی جانب سے تاریخ کا انتخاب کرنے پر اسپیکر کو استعفے جمع کروائے جائیں گے اور کوئی رکن براہ راست اپنا استعفیٰ اسپیکر کو نہیں جمع کراسکتا۔


اس خبر میں پشاور بیورو نے بھی معاونت کی۔

یہ خبر 25 دسمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024