سینیٹ کمیٹی اجلاس، زیادتی کے مجرموں کی سرعام پھانسی کا بل منظور
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے زیادتی کیس کے مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کے بل کی منظوری دے دی۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کےسینیٹر اور سابق وزیرداخلہ رحمٰن ملک کی صدارت میں ہوا۔
مزید پڑھیں: ریپ میں ملوث افراد کو سرعام پھانسی یا نامرد کردینا چاہیے، وزیر اعظم
چیئرمین کمیٹی رحمٰن ملک نے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے جو قابل تشویش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کمیٹی نے کم سن زینب سے زیادتی اور ان کے قتل کا از خود نوٹس لیا تھا،ر ظالم قاتل کی سزا تک مقدمے کی پیروی کی اور انجام تک پہنچ گیا۔
انہوں نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ ایسے ظالم مجرموں کو سخت سزا دی جائے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے بچوں کے ساتھ زیادتی کے بل پر بحث کی اور اکثریت کے ساتھ منظور کرلیا۔
اس موقع پر قائدایوان سینیٹر شہزاد وسیم نے بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسسز میں سرعام پھانسی کے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ زیادتی کے کیسز میں پہلے ہی دو آرڈیننس آ چکے ہیں جس پر چیئرمین کمیٹی اور قائد ایوان کے درمیان گرما گرمی ہوئی۔
رحمٰن ملک نے کہا کہ سرعام پھانسی کے بل کے ساتھ پہلے سے بنے آرڈیننس بھی فاروڈ کیے جائیں گے اور حکومت کو حق ہے کہ وہ کسی بھی بل کی مخالفت کرے۔
شہزاد وسیم نے کہا کہ کورم پورا ہونے تک اس بل کو روکا جائے لیکن آپ نے اگر بل ایسے ہی بلڈوز کرنے ہیں تو کمیٹی کا ڈراما کیوں کیا اور اس کے ساتھ ہی وہ احتجاجاً کمیٹی سے واک آؤٹ کرگئے۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی: بچوں سے زیادتی، قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد منظور
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر جاوید عباسی کی جانب سے میت کی بے حرمتی اور ان کے ساتھ ریپ سے متعلق بے حرمتی کا بل کمیٹی میں پیش کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ میت کے ساتھ ریپ کے کیسز بہت زیادہ ہیں، اگر یہ بل پاس نہ ہوا تو کل کو ہمارے اپنوں نے بھی قبر میں جانا ہے۔
کمیٹی نے مردوں کی بے حرمتی پر سزاوں کا بل بھی مشترکہ طور پر منظور کر دیا۔
چیئرمین کمیٹی نے قبرستانوں کے گرد چار دیواری اور سیکیورٹی بڑھانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے جرائم انتہائی قابل افسوس ہیں اورمجرموں کو سخت سزا دی جائے، قبرستان میں میت کے ساتھ ریپ کی سزا بھی وہی ہونی چایئے جو زندہ انسان کے ساتھ ریپ کی ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ برس ستمبر میں ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ریپ کرنے والوں کو مثالی سزا دینی چاہیے، میرے خیال میں اسے چوک پر سرعام پھانسی دینی چاہیے اور یہ سزا ریپ کرنے والوں اور بچوں کا جنسی استحصال کرنے والوں کے لیے مخصوص ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے جب ہم نے اس پر مباحثہ کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ بین الاقوامی سطح پر سرعام پھانسی کی سزا قابل قبول نہیں ہو گی اور یورپی یونین کی جانب سے دیا جانے والا جی ایس پی پلس اسٹیٹس خطرے میں پڑے جائے گا۔
انہوں نے کہا تھا کہ اس کے علاوہ ریپ کرنے والوں کو کیمیائی یا سرجیکل طریقے سے نامرد بنانے کی تجویز بھی زیر غور ہے اور ایسا کئی ملکوں میں کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: 'وزیراعظم نے ریپسٹ کو سرِعام پھانسی دینے کی مخالفت کردی'
اس سے قبل فروری 2020 میں قومی اسمبلی میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے افراد کو سرعام پھانسی دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی تھی۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں مذکورہ قرار داد وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے پیش کی تھی اور قرارداد میں بچوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے والوں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جبکہ اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے سرعام پھانسی کی مخالفت کی گئی تھی۔
راجا پرویز اشرف نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ہے اور اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق سرعام پھانسی نہیں دی جاسکتی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ایک اور کیس میں بھی سرِعام پھانسی کا فیصلہ آیا تھا اس کا کیا ہوا، سزائیں بڑھانے سے جرائم کم نہیں ہوتے لیکن پی پی پی کی مخالفت کے باوجود قومی اسمبلی میں مذکورہ قرارداد کثرتِ رائے سے منظور کرلی گئی تھی۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے بھی اس قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے اپنی جماعت کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کی سخت مذمت کی تھی۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے واضح کیا تھا کہ قرارداد حکومت کی جانب سے نہیں پیش کی گئی بلکہ یہ ایک انفرادی عمل تھا۔