حکومت کا ڈسکہ میں دوبارہ انتخاب کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان
اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ حکومت، الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کا این اے-75 ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کروانے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں ہوئے کابینہ اجلاس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے پر تفصیلی بات چیت کی گئی اور اس پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
وزیراعظم کے کامیاب نوجوان پروگرام کے چیئرمین اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عثمان ڈار نے کہا کہ 'ہم نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے'۔
یہ بھی پڑھیں:الیکشن کمیشن کا این اے-75 ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کروانے کا حکم
عثمان ڈار کا مزید کہنا تھا کہ 'ہم اپنے قانونی حقوق کے لیے لڑیں گے کیوں کہ وہاں کے عوام نے ہمارے لیے ووٹ دیے اور ہم ان کے حقوق کے لیے لڑیں گے'۔
ان کا کہنا تھا کہ ریٹرننگ افسران نے اپنی رپورٹ میں کہیں یہ ذکر نہیں کیا کہ حلقہ این اے-75 میں بے ضابطگیاں ہوئی ہیں لیکن صرف 20 سے 23 پولنگ اسٹیشنز کا ذکر کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ اگر 20 متنازع پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا گیا تو حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے سے قبل ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے عثمان ڈار نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن جو بھی فیصلہ سنائے گا حکومت اسے قبول کرے گی۔
مزید پڑھیں: ضمنی انتخاب: الیکشن کمیشن نے این اے 75 کا نتیجہ روک دیا
تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کے فیصلے کے بعد انہوں نے کہا کہ حکومت الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی، ان کا کہنا تھا کہ اگر این اے-75 کے تمام 320 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ انتخاب ہوا تو یہ ڈسکہ کے عوام کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
دوسری جانب ایک اور دلچسپ بات یہ تھی کہ رائج طریقہ کار کے برعکس حکومت کی جانب سے وفاقی کابینہ کے فیصلوں سے متعلق کوئی پریس ریلیز جاری کی گئی اور نہ ہی وزیر اطلاعات نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی۔
البتہ وزیراطلاعات شبلی فراز نے کابینہ اجلاس کے بعد ایک ٹوئٹ میں صرف اتنا کہا کہ 'کابینہ کے اجلاس میں سینیٹ الیکشن بھی بات چیت ہوئی'۔
قبل ازیں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی امور شہباز گل نے ایک پریس کانفرنس کے بعد ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں ادارے آزادانہ کام کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کا تحریک انصاف پر ووٹ چوری کرنے کا الزام
ان سے جب سوال کیا گیا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اپوزیشن کے دھاندلی کے الزام کو تسلیم کرنے کے بعد کیا پی ٹی آئی کا آزادانہ اور شفاف انتخابات کروانے کا پورا بیانیہ ڈھے نہیں گیا؟ جس کے لیے پارٹی نے 2014 میں اسلام آباد میں 124 دن کا دھرنا دیا تھا۔
اس کے جواب میں شہباز گل نے کہا کہ گاؤں اور ٹاؤن تحصیل کی سطح پر کچھ بے ضابطگیاں ہوسکتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پی ٹی آئی غلط کاموں میں شامل تھی۔
ڈسکہ ضمنی انتخاب
قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-75 پر 20 فروری کو ضمنی انتخاب ہوا تھا اور اس موقع پر سخت کشیدگی اور فائرنگ کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے اور ایک واقعے میں 2 نوجوان بھی جاں بحق ہوگئے تھے۔
بعدازاں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے مذکورہ ضمنی انتخاب کا نتیجہ روک دیا تھا اور اس سلسلے میں جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ این اے 75 سیالکوٹ کے نتائج غیر ضروری تاخیر سے موصول ہوئے اور اس دوران متعدد مرتبہ پریزائڈنگ افسران سے رابطے کی کوشش بھی کی گئی مگر رابطہ نہ ہوسکا۔
اعلامیے کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسر حلقہ این اے 75 نے آگاہ کیا ہے کہ 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں رد و بدل کا شبہ ہے، لہٰذا مکمل انکوائری کے بغیر حلقے کا غیرحتمی نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں۔
مزید پڑھیں:مریم نواز نے ڈسکہ انتخاب میں مبینہ دھاندلی کا الزام 'ایجنسیز' پر عائد کردیا
مسلم لیگ (ن) نے دھاندلی کے الزامات عائد کر کے دوبارہ پولنگ کا مطالبہ کیا تھا جب کہ پی ٹی آئی صرف متنازع ٹھہرائے جانے والے 20 سے 23 پولنگ اسٹیشنز پر دوبارہ پولنگ کی خواہشمند تھی۔
تاہم گزشتہ روز 25 فروری کو فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن نے این اے-75 ڈسکہ میں 20 فروری کو ہونے والا ضمنی انتخاب کالعدم قرار دیتے ہوئے پورے حلقے میں دوبارہ الیکشن کروانے کا حکم دیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے کہا کہ شفافیت اور غیر جانبداری کو یقینی بناتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 218(3) اور الیکشن ایکٹ 9(1) میں دیے گئے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے این اے 75 کا ضمنی الیکشن کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔
ساتھ ہی الیکشن کمیشن نے این اے 75 میں 18 مارچ کو دوبارہ ضمنی انتخاب کروانے کا بھی حکم دیا تھا۔