پشاور: 8 سالہ بچی کا ریپ ثابت ہونے پر مجرم کو سزائے موت سنادی گئی
پشاور: بچوں کے تحفظ کی عدالت نے 2 سال قبل 8 سال کی بچی کا جنسی استحصال کرنے کا جرم ثابت ہونے پر مجرم 'پیش امام' کو سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جج ودیہ مشتاق نے حکم سنایا کہ پشاور سے تعلق رکھنے والے قاری سعید پر ریپ کا جرم ثابت ہوگیا اور اسے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 376 (3) کے تحت سزا سنائی گئی۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ بچی کو زندگی بھر کے لیے جسمانی اور ذہنی صدمے کا سامنا رہے گا اس لیے، مجرم اسے سیونگ سرٹیفکیٹ کی صورت میں 3 لاکھ روپے جرمانہ ادا کرے جسے بچی 18 سال کی عمر ہونے کے بعد نکلواسکے گی۔
یہ بھی پڑھیں: مسجد میں ریپ کرنے والے امام کو 20 سال قید
حکم نامے میں جج کا کہنا تھا کہ '8 سالہ بچی کا ریپ کیا گیا اور مجرم ایک مسجد کا پیش امام تھا جس نے اپنے ایک کمرے میں اس جرم کا ارتکاب کیا'۔
عدالت کا کہنا تھا کہ مجرم نے اسلامیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور وہ مسجد میں نماز جمعہ کی امامت کیا کرتا تھا۔
عدالت نے مزید کہا کہ جرم انتہائی سنگین ہے کیوں کہ مجرم نے بچی کی گردن پر دانتوں سے کاٹ کر اور چوٹ پہنچا کر جنسی تشدد کا بھی ارتکاب کیا۔
عدالت نے کہا کہ 'گواہ بچے کا بیان نہ صرف سچا، پُر اعتماد اور متاثر کن پایا گیا بلکہ کسی مادی پہلو سے بھی متضاد نہیں ہے'۔
مزید پڑھیں: بدین: ریپ اور قتل کیس میں امام مسجد کو سزائے موت
عدالت کا کہنا تھا کہ 'کسی جرم کا شکار ہونے والے کی واحد گواہی اگر اعتماد سے متاثر ہو تو اس پر سزا کے لیے بھروسہ کیا جاسکتا ہے اور خاص کر جب کہ طبی شواہد سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہو اور کوئی بھی ایسی چیز نہ ہو کہ جس سے یہ قیاس ہو کہ پولیس کی جانب سے ملزم پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے'۔
پولیس نے اس جنسی استحصال کا مقدمہ بچی کے والد کی مدعیت میں 14 مارچ 2019 کو درج کیا تھا۔
شکایت گزار کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے اہلِ خانہ اپنے گھر میں موجود تھے جب بچی روتے ہوئے گھر آئی اور اس نے بتایا کہ قاری سعید نے اسے تعویذ دینے کے بہانے مسجد بلایا لیکن اس کے بجائے وہاں ایک کمرے میں اس کا جنسی استحصال کیا۔
مجرم نے اپنے جرم سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اسے احمدی برادری کے ایما پر اس کیس میں پھنسایا گیا ہے تاہم وہ اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے میں ناکام رہا جبکہ وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ بچی کو جنسی استحصال کا نشانہ نہیں بنایا گیا اور بچی کو حادثاتی طور پر زخم آئے۔
یہ بھی پڑھیں: ہری پور میں 10 سالہ بچی کا ریپ
تاہم سرکاری وکیل نے کہا کہ ملزم پر کسی شک و شبے کے بغیر ریپ کے ارتکاب کا الزام عائد ہوتا ہے کیوں کہ بچی اس قاری کو جانتی تھی۔
سرکاری وکیل نے یہ بھی کہا کہ طبی شواہد بھی شکایت گزار کے دعوے کے حق میں ہیں، عدالت میں متاثرہ بچی کو بھی پیش کیا گیا جس نے مجرم کے خلاف گواہی دی۔
بچی نے بتایا کہ اس کے والد نے اسے 10 روپے دے کر ٹافیاں لانے باہر بھیجا تھا، جب وہ واپس گھر آنے لگی تو مجرم نے اسے ایک واقف کار کے لیے تعویز دینے کے بہانے مسجد ساتھ چلنے کو کہا اور مجرم نے اسے مسجد کے ایک کمرے میں لے جا کر جنسی استحصال کا نشانہ بنایا۔