• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

اقدامات نہ کیے گئے تو گردشی قرض دگنا ہوسکتا ہے، معاون خصوصی

شائع April 11, 2021
حکومت نے عالمی بینک کی معاونت سے گردشی قرض کا انتظامی منصوبہ تشکیل دیا ہے—فائل فوٹو: ڈان
حکومت نے عالمی بینک کی معاونت سے گردشی قرض کا انتظامی منصوبہ تشکیل دیا ہے—فائل فوٹو: ڈان

لاہور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی ملک میں شعبہ توانائی کا گردشی قرض آئندہ دو سالوں میں روکنے کی حکمت عملی کے بہت سے متغیرات اور متحرک حصے ہیں جس کو مجوزہ منصوبے کی کامیابی کے لیے بیک وقت نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کے قرض کی بحالی کے لیے پیشگی کارروائی کے طور پر عالمی بینک کی معاونت سے گردشی قرض کا انتظامی منصوبہ تشکیل دیا ہے۔

اس منصوبے کی کچھ تفصیلات میڈیا میں لیک ہونے کے باوجود یہ منصوبہ عوام کے ساتھ شیئر نہیں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:پاور سیکٹر کے گردشی قرضے بڑھ کر نومبر تک 23 کھرب 6 ارب روپے ہوگئے

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے توانائی اور پیٹرولیم تابش گوہر کے مطابق اگر گردشی قرض کا بہاؤ روکنے سے متعلق اقدامات نہیں کیے گئے تو قرضوں کا حجم موجودہ 23 کھرب روپے سے بڑھ کر سال 2023 میں 46 کھرب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔

گردشی قرض کا یہ حجم پہلے ہی پی ٹی آئی کے ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں 11 کھرب روپے سے دگنا ہوچکا ہے۔

ڈان کو ایک ٹیلیفونک انٹرویو دیتے ہوئے تابش گوہر نے کہا کہ 'یہ قابلِ قبول صورتحال نہیں ہے، یہ منظر نامہ نظام کی کوتاہیوں پر قابو پائے، ریکوریز بہتر بنائے اور سبسڈیز بڑھائے بغیر صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا امکان پیش کرتا ہے'۔

بجلی کی پیداواری کمپنیوں کے نرخ میں اضافے کا ذمہ دار ابتدائی طور پر حالیہ برسوں میں گردشی قرضوں میں اضافے کی رفتار کو قرار دیا گیا کیوں کہ مسلم لیگ (ن) نے اپنے 5 سالہ دورِ حکومت میں سسٹم میں تقریباً 14 ہزار میگا واٹ بجلی شامل کی۔

مزید پڑھیں: نیپرا کا وزیراعظم سے توانائی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ

پیداواری کمپنیوں کو گنجائش کی ادائیگیوں کا حجم پہلے ہی 9 ہزار ارب روپے تک بڑھ چکا ہے اور جب تک اس صورتحال کو قابو کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا تو 2023 تک یہ 6 کھرب روپے اضافے کے بعد 15 کھرب تک پہنچنے کا امکان ہے۔

47 انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ پاور پرچیزنگ ایگریمنٹس پرنظِرِ ثانی سے 2 برسوں میں گنجائش کی ادائیگیوں کے اضافے میں ڈیڑھ کھرب روپے کی کمی کرنے میں مدد ملے گی۔

تابش گوہر نے بتایا کہ سرکلر ڈیٹ منیجمنٹ پلان میں اس مسئلے پر ہر طرف سے اور بیک وقت کارروائی کرنے کی تجویز ہے۔

قرض میں کمی کی حکمت عملی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکو) فراہمی کے انفرا اسٹرکچر میں کیپٹل انویسٹمنٹ کر کے ترسیل کے نقصانات کو 17.8 فیصد سے کم کر کے 15.3 فیصد پر لانے اور بل ریکوری کو 90 فیصد سے بہتر بنا کر 95 فیصد کر کے انہیں مؤثر بنانا چاہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ای سی سی کا ایک مرتبہ پھر آئی پی پیز کو ادائیگی کی منظوری سے گریز

اس کے ساتھ حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے پر بھی نظِرِ ثانی کرلی ہے جس کے قومی احتساب بیورو (نیب) سے کلیئر ہونے کے بعد غیر ادا شدہ بلز کی ادائیگیاں کردی جائیں گی۔

اس کے علاوہ بجلی کی سرکاری پیداواری کمپنیوں کے ٹیرف پر بھی نظرِ ثانی کر کے انہیں کم کیا گیا ہے، 17 سو میگا واٹ کی پرانی غیر مؤثر پیداواری کمپنیوں کو ڈی کمیشنڈ کردیا گیا ہے جبکہ بقیہ 18 سو میگا واٹ ستمبر 2022 تک ریٹائر ہوجائیں گی۔

علاوہ ازیں حکومت نے آئندہ مالی سال سے بجلی کی سبسڈی دگنا کرنے پر اتفاق کیا ہے جبکہ کے الیکٹرک کو قومی گرڈ سے بجلی خریدنے کے لیے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کے ساتھ موجودہ انتظامات میں ردو بدل کی خواہش سے آگاہ کیا گیا ہے۔

اب کے الیکٹرک کو سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کو قابل ادا رقم حکومتی سبسڈی میں حل کرنے کے بجائے قومی گرڈ سے خریدی گئی بجلی کی ادائیگی کے لیے تمام ادائیگیاں نقد کرنی ہوں گی۔

معاون خصوصی کا کہنا تھا یہ اقدامات 2 سال کے عرصے میں قرضوں کا بہاؤ ایک تہائی یا 80 ارب روپے تک کم کردیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024