• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اپوزیشن کی لڑائی اسلام کی نہیں بلکہ اسلام آباد کی ہے، فواد چوہدری

شائع April 20, 2021
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کررہے ہیں— فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی لڑائی اسلام کی نہیں بلکہ اسلام آباد کی ہے اور اسلام آباد کی یہ لڑائی ان سب کے چہروں سے عیاں ہے۔

وزیر اطلاعات نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اوورسیز پاکستانیوں کو آن لائن ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں، اس میں سیکیورٹی کے مسائل ہیں اور تقریباً 90 لاکھ پاکستانی بیرون ملک موجود ہیں جنہیں ہم اپنے نظام سے الگ بھی نہیں رکھ سکتے۔

مزید پڑھیں: فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کا معاملہ، قومی اسمبلی میں قرارداد پیش

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سے قبل کسی اور حکومت نے ان لوگوں کا نہیں سوچا، 28 کروڑ روپے کی لاگت سے ایک کنسلٹنٹ کو یہ بات دیکھنے کی ہدایت کی گئی ہے کہ ہم اوورسیز پاکستانیوں کے لیے کیسے محفوظ انٹرنیٹ ووٹنگ کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کالعدم تحریک لبیک سے ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اور شیخ رشید اور نور الحق قادری نے ٹی ایل پی سے مذاکرات کیے جس کے بارے میں آپ کو علم بھی ہے۔

فواد چوہدری نے کہا کہ پورے ملک کا ڈیٹا بیس بنایا جائے گا تاکہ ملک میں موجود خود خوراک اور اشیا کی تفصیل اور معلومات ہمارے پاس موجود ہو۔

انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی نے اسپیکر نیشنل اسمبلی کے بارے میں جو بات کی میں اس کی مذمت کرنا چاہتا ہوں، ہماری بدقسمتی ہے کہ شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ بھی اس ملک میں وزیر اعظم تک رہ چکے ہیں، آپ کو اسپیکر اور ایوان میں بات کرنے کی تمیز نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال ہوں یا مولانا فضل الرحمٰن، ان کی اسلام کی نہیں بلکہ اسلام آباد کی لڑائی ہے اور یہ اسلام آباد کی لڑائی ہم ان سب کے چہروں سے عیاں دیکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'ٹی ایل پی ملک بھر سے دھرنے ختم کرنے پر رضامند ہوگئی ہے'

انہوں نے کہا کہ ان لوگوں نے ہر طریقے سے حکومت گرانے کی کوشش کر لی، پاکستان ڈیمو کریٹک (پی ڈی ایم) ٹائپ مصالحہ بھی بیچنے کی کوشش کر لی، جب کوئی چورن نہیں بکا تو آپ اسمبلی میں بالکل غنڈوں والا رویہ اختیار کر کے یہ سمجھیں کہ کوئی آپ کے دباؤ میں آ جائے گا تو یہ نہیں ہوگا۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمارا ٹی ایل پی سے جو معاہدہ ہوا تھا وہ مکمل ہو گیا ہے، ہم نے کہا تھا کہ ایوان میں قرارداد آ جائے گی، اب اس پر بحث ہو گی، اپوزیشن اس میں ترمیم کرنا چاہتی ہے، یہ ایک پارلیمانی عمل ہے اور اسی کے مطابق معاملات آگے بڑھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کا مینڈیٹ آئین اور قانون کے تابع ہے، ہم کوئی بادشاہت نہیں چلا رہے، ہمارے ہاں 1973 کا آئین ہے جس پر پورے پاکستان کا اتفاق اور اجماع ہے، ہم اس سے باہر نہیں جا سکتے اور اس کے اندر رہ کر ہی تمام اقدامات کرنے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس حق نہیں کہ ہم تحریک لبیک پر لگائی ہوئی پابندی واپس لے لیں، ان کے پاس اپیل کا حق ہے، قانونی طریقہ کار موجود ہے اور وہ اس کے مطابق اس پر عمل کریں۔

مزید پڑھیں: فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا تو یورپ، پاکستان کیلئے بند ہوجائے گا، گورنر سندھ

انہوں نے کہا کہ جن لوگوں کو مینٹینس آف پبلک آرڈر کے تحت گرفتار کیا گیا ہے ان کو تو ہم چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ وہ حکومت کا اختیار ہے لیکن جن پر قتل کی ایف آئی آر ہے، ان کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ 5 پولیس اہلکاروں کی شہادت اور 800 زخمی اہلکاروں کو نہیں بھولا جا سکتا اور جنہوں نے ان پر حملہ کیا ان کو نہیں بھولا جا سکتا، جنہوں نے پولیس والوں پر گولیاں چلائی ہیں ان کو اپنی بے گناہی عدالت میں ثابت کرنی ہو گی اور حکومت کا اس سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اتوار کے دن ہونے والے احتجاج پر پاکستان میں ڈھائی لاکھ ٹوئٹس اور سوشل میڈیا شیئرز ہوئے ہیں، ان میں سے 70 فیصد شیئرنگ ایک سوفٹ ویئر کے ذریعے ہوئی جو ٹوئٹس کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور وہ ہندوستان کی حدود سے کی جا رہی تھی، یہ پوری مہم بیرونی طاقتوں کی ایما پر چلا گئی جس پر ہمیں تحفظات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور آج رات متوقع

فواد چوہدری نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو مل کر اس گرداب سے نکلنا ہے، تمام اپوزیشن کا رویہ مصالحانہ ہونا چاہیے اور آج جس طرح کی گفتگو شاہد خاقان عباسی نے کی ہے، میں چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) کے لوگ خود اس کی مذمت کریں تاکہ ہم ایسا ماحول بنا سکیں جس میں پارلیمنٹ مسائل کے حل کا فورم بنے۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024