• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لاہور ہائیکورٹ: شہباز شریف کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم

شائع April 22, 2021
3 رکنی ریفری بینچ نے شہباز شریف کی ضمانت کے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی
3 رکنی ریفری بینچ نے شہباز شریف کی ضمانت کے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور ہائیکورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرکے ان کی رہائی کا حکم دے دیا۔

جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 3 رکنی ریفری بینچ نے شہباز شریف کے ضمانت کے کیس کی سماعت کی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 14 اپریل کو ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ میں جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر نے صدر مسلم لیگ (ن) کی ضمانت منظور کی تھی جبکہ جسٹس اسجد جاوید گورال نے مسترد کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور

چنانچہ یہ معاملہ ریفری جج کی نامزدگی کے لیے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھجوایا گیا تھا۔

جس پر آج سماعت کرتے ہوئے ریفری بینچ نے شہباز شریف کی ضمانت منظور کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا اور 50، 50 لاکھ روپے کے 2 مچلکے جمع کروانے کی ہدایت کی۔

تاہم شہباز شریف کی رہائی کل متوقع ہے، ان کے وکیل اعظم تارڑ کا کہنا تھا کہ شہاز شریف کے ضمانتی مچلکے کل جمع کرائیں گے کیوں کہ آج عدالتی وقت ختم ہو چکا ہے اس لیے شہباز شریف کی جیل سے رہائی کل ہو گی۔

سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر فیصل بخاری اور عثمان جی راشد چیمہ نے دلائل دیے، ان کا کہنا تھا کہ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 27 سال میں ایسا نہیں ہوا کہ فیصلہ اعلان ہونے کے بعد تبدیل ہوا، جس پر وکیل شہباز شریف بولے کہ میں اب بھی اپنے الفاظ پر قائم ہوں۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ کی یہ بات توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے، جس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ نیب پراسیکیوٹر نے انتہائی سخت بات کی جو انہیں واپس لینی چاہیے۔

اس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میں ثابت کر سکتا ہوں کہ جملہ توہین آمیز ہے تو آپ کو اس واپس لینا چاہیے، تاہم عدالت نے انہیں اس معاملے پر مزید بحث سے روک دیا، جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ آپ صرف کیس پر بات کریں۔

نیب وکیل نے کہا کہ 6 کنال کا گھر جوڈیشل کالونی میں بنایا گیا جس کی مالیت 13 کروڑ 60 لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے، شہباز شریف کی دوسری اہلیہ تہمینہ درانی کا گھر ڈیفنس میں ہے جس کی مالیت 3 کروڑ 80 لاکھ روپے ہے، وہ کہتی ہیں ڈیفنس والا گھر شہباز شریف نے انہیں تحفے میں دیا۔

مزید پڑھیں:تحریری حکم نامہ جاری ہونے تک شہباز شریف کی رہائی میں تاخیر

نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ دو ولاز اور 391 کنال زرعی اراضی حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کے نام پر ہے، 13 انڈسٹریل یونٹس 2 ارب 70 کروڑ کی لاگت سے بنائے گئے، جو کمپنیز بنائی گئیں وہ بے نامی کمپنیز ہیں جس میں 2 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی گئی۔

جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ کیا کمپنیز کے شیئرز ہولڈرز میں شہباز شریف بھی شامل ہیں؟ جس پر وکیل نیب نے بتایا کہ شہباز شریف نہیں ان کے خاندان کے افراد شئیر ہولڈر ہیں۔

جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ کیا یہ ساری کمپنیاں 2005 میں بنی ہیں جس پر نیب وکیل نے کہا کہ 2005 اور اس کے بعد یہ کمپنیز بنائی گئی ہیں۔

اس پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ عدالت کے سامنے تو شہباز شریف کی ضمانت کا کیس ہے نیب شریک ملزمان کے اثاثے بتا رہا ہے۔

دلائل کو جاری رکھتے ہوئے نیب وکیل نے کہا کہ سب سے زیادہ 155 ٹی ٹیز سلمان شہباز کے اکاؤنٹ میں آئیں، سلمان شہباز کو بار بار نوٹس کر کے سورس پوچھا گیا لیکن انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔

بینچ نے دریافت کیا کہ جب 2005 میں سلمان شہباز کے اکاؤنٹ میں ٹی ٹیز آئیں اس وقت ان کی عمر کیا تھی؟ جس پر نیب وکیل نے بتایا کہ اس وقت سلمان شہباز 23 سال کے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ ریفرنس: شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز اشتہاری قرار

نیب وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کے خاندان کے افراد بھی منی لانڈرنگ ریفرنس میں نامزد ہیں، ان کے بیٹے سلمان شہباز، بیٹی اور بیوی احتساب عدالت سے اشتہاری ہو چکے ہیں، شہباز شریف خاندان کے افراد کو طلبی کے کئی نوٹس بھجوائے گئے لیکن انہوں نے تفتیش جوائن نہیں کی، حمزہ شہباز کے علاوہ کوئی ملزم نیب تفتیش میں شامل نہیں ہوا۔

نیب وکیل نے کہا کہ شہباز شریف 1990 میں پبلک آفس ہولڈر بنے اس وقت ان کے خاندان کے اثاثے 21 لاکھ تھے، 1998 میں شہباز شریف خاندان کے اثاثے 48 لاکھ تک پہنچے اور 2018 میں شہباز شریف خاندان کے اثاثے 7 ارب 32 کروڑ سے تجاوز کر گئے۔

نیب وکیل نے کہا کہ 96-ایچ ماڈل ٹاؤن کی 10 کنال کی رہائش گاہ نصرت شہباز کے نام پر ہے جس کی مالیت 18 کروڑ 80 لاکھ روپے سے زائد ہے، 96-ایچ ماڈل ٹاؤن کو 2010 سے 2018 تک شہباز شریف نے کیمپ آفس ڈیکلئیر کیا۔

انہوں نے کہا کہ 2005 سے شہباز شریف خاندان کو ٹی ٹیز آنا شروع ہو گئیں، شہباز شریف اور ان کے خاندان نے 2005 کے بعد پراپرٹیز بنانا شروع کیں، نشاط لاجز ڈونگا گلی میں کروڑوں روپے کے ناجائز اثاثے بنائے گئے۔

وکیل نیب عثمان جی راشد چیمہ نے کہا کہ شہباز شریف کے ارد گرد لوگ شہباز شریف کو پیسے بھیجتے تھے وہ پیسے ٹی ٹیز کے پیسے تھے، جس پر وکیل شہباز امجد پرویز نے کہا کہ کسی ارد گرد کے لوگوں نے شہباز شریف کو دس روپے بھی بھیجے ہوں تو میں عدالت سے باہر چلا جاؤں گا۔

نیب کے وکیل عثمان جی راشد نے کہا کہ شہباز شریف نے بیرون ملک سے آئی گاڑی کی ڈیوٹی، ٹی ٹیز سے ادا کی ہے۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کی درخواست پر شہباز شریف کے وکیل کے دلائل مکمل

بینچ نے استفسار کیا کہ جو ٹی ٹیز آئیں کیا نیب نے ان کی تحقیقات کیں؟ کیا نیب نے ٹی ٹیز کے سورس کا پتا لگوایا، ماڈل ٹاؤن میں جو پیسے آ رہے تھے وہ پیسا آ کہاں سے رہا تھا یہ پتا چلا؟

نیب وکیل نے کہا کہ کیش بوائز کے بیان ریکارڈ پر موجود ہیں۔

جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ اگر ماڈل ٹاؤن میں بوریوں کی بوریاں پیسے آ رہے تھے تو ان کا سورس کیا تھا وہ آ کہاں سے رہے تھے یہ تو بتائیں؟

جس پر شہباز شریف کے وکیل نے کہا کہ نیب کے پورے ریفرنس میں نہیں لکھا کہ پیسا کہاں سے آیا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ جب شہباز شریف پر اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام نہیں ہے تو پھر نیب زائد اثاثے کیسے کہہ سکتا ہے۔

نیب کے وکیل بولے کہ بے نامی داروں کا کوئی آمدن کا ذریعہ نہیں تھا اس لیے نیب نے انہیں بے نامی دار قرار دیا ہے۔

بینچ نے کہا کہ آپ کیسے ثابت کریں گے کہ شہباز شریف کے خاندان کے افراد شہباز شریف کے بے نامی دار ہیں۔

نیب کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کے وکیل یہ بتا دیں کہ ماڈل ٹاؤن والا گھر کیسے بنا؟ شہباز شریف کے وکیل بولے کہ شہباز شریف آج تک اسی گھر میں رہ رہے ہیں۔

اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ وہ تو شاید جیل میں نہیں ہیں؟ ان کی اس بات پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔

یہ بھی پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: شہباز شریف کا ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع

نیب کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف کے اثاثے ان کی آمدن سے 26 کروڑ روپے زائد ہیں، شہباز شریف کیا کاروبار کرتے تھے ان کے وکیل صرف یہی بتا دیں، شہباز شریف نے 2014 سے 2018 تک 12 کروڑ روپے منافع کمایا لیکن آج تک نہیں بتایا کہ تین کروڑ روپے سالانہ کس کاروبار سے کمایا۔

نیب کے وکیل فیصل بخاری نے کہا کہ ابھی منی لانڈرنگ کیس کو شروع ہوئے 7 ماہ ہوئے ہیں کوئی لمبا عرصہ نہیں گزرا۔

جسٹس علی باقر نجفی نے دریافت کیا کہ کیا ٹرائل کورٹ میں شہباز شریف کے وکلا نے کیس ملتوی کرنے کی کبھی استدعا کی، جس پر نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ شہباز شریف کے وکلا نے بہت دفعہ کیس ملتوی کرنے کی استدعا کی ہے۔

وکیل شہباز شریف نے کہا کہ شہباز شریف کی والدہ کی میت گھر میں رکھی ہوئی تھی ہم نے پھر بھی کیس میں شہادت ریکارڈ کروائی۔

بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثوں اور منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی ضمانت منظور کر کے رہائی کا حکم دے دیا اور 50، 50 لاکھ روپے کے 2 مچلکے بھی جمع کروانے کی ہدایت کی۔

کیس کا پس منظر

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ شہباز شریف نے 26 مارچ کو منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کے لیے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔

یاد رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں لاہور ہائی کورٹ نے آمدن سے زائد اثاثہ جات اور منی لانڈرنگ کیس میں شہباز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد کی تھی جس کے بعد قومی احتساب بیورو (نیب) نے انہیں احاطہ عدالت سے ہی گرفتار کرلیا تھا۔

قبل ازیں 17 اگست کو نیب نے احتساب عدالت میں شہباز شریف، ان کے دو بیٹوں اور کنبے کے دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کا 8 ارب روپے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔

بعد ازاں 20 اگست کو لاہور کی احتساب عدالت نے شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ کے خلاف منی لانڈرنگ ریفرنس سماعت کے لیے منظور کیا تھا۔

ریفرنس میں بنیادی طور پر شہباز شریف پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے خاندان کے اراکین اور بے نامی دار کے نام پر رکھے ہوئے اثاثوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جن کے پاس اس طرح کے اثاثوں کے حصول کے لیے کوئی وسائل نہیں تھے۔

مزید پڑھیں:منی لانڈرنگ کیس: ضمانت مسترد، شہباز شریف احاطہ عدالت سے گرفتار

اس میں کہا گیا کہ شہباز خاندان کے کنبے کے افراد اور بے نامی داروں کو اربوں کی جعلی غیر ملکی ترسیلات ان کے ذاتی بینک کھاتوں میں ملی ہیں، ان ترسیلات زر کے علاوہ بیورو نے کہا کہ اربوں روپے غیر ملکی تنخواہ کے آرڈر کے ذریعے لوٹائے گئے جو حمزہ اور سلیمان کے ذاتی بینک کھاتوں میں جمع تھے۔

ریفرنس میں مزید کہا گیا کہ شہباز شریف کا کنبہ اثاثوں کے حصول کے لیے استعمال ہونے والے فنڈز کے ذرائع کا جواز پیش کرنے میں ناکام رہا۔

اس میں کہا گیا کہ ملزمان نے بدعنوانی اور کرپٹ سرگرمیوں کے جرائم کا ارتکاب کیا جیسا کہ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کی دفعات اور منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں درج کیا گیا تھا اور عدالت سے درخواست کی گئی کہ انہیں قانون کے تحت سزا دے۔

مذکورہ ریفرنس میں شہباز شریف ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز شریف سمیت 10 ملزمان پر 11 نومبر کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024