لائٹ ہاؤس کی روشنی، ارجن اور مشرف عالم ذوقی
وبا کی تباہ کاریوں کے دوران اس کی موت کی خبر مجھ تک پہنچی۔ میرے ذہن میں ایک لائٹ ہاؤس جھلملایا اور میں نے اس گمشدہ سہ پہر کو یاد کیا، جب اس سے ہونے والے ایک طویل واٹس ایپ مکالمے کے بعد، میں کاغذ قلم سنبھالے، لکھنے کی میز پر بیٹھا اسے یاد کر رہا تھا۔ میری آنکھوں کے سامنے ایک لائٹ ہاؤس تھا۔
یہ گزشتہ برس کی بات ہے، جب کراچی اور ممبئی پر ایک ساتھ قہر اترا تھا۔ جل نے اجل کی شکل اختیار کی۔ پانی پوری قوت سے آتا تھا اور ان 2 شہروں کے نشیبی علاقوں میں خوف پھنکارتا تھا۔ (کورونا تب بھی تھا اور تب بھی ہم اس کی ہولناکی سے غافل تھے)
تو ایک طوفان زدہ شام، جب بادلوں کی گھن گرج دلوں کو چیر کر ریڑھ کی ہڈی میں اتر جاتی تھی، میں نے مشرف عالم ذوقی سے ہونے والے ایک طویل مکالمے کے بعد اس کے فن کے بارے میں شدت سے سوچا۔
مشرف عالم ذوقی جو ٹیکنالوجی کے گنجلک عہد میں حقیقت کے ملبے پر جنم لینے والی ورچؤل دنیا میں عہدِ حاضر کی پیچیدگی کو منظر کرنے میں ایسی مہارت کا حامل تھا جس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔
ایک زندہ شخص کی موت
مشرف عالم ذوقی کی بے وقت موت اس لیے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے کہ وہ اس سمے اپنے تخلیقی سفر کے اوج پر تھے، مسلسل لکھ رہے تھے۔ خیال کی روشنائی، قلم کی روانی کی صورت اوراق پر کہانی نقش کر رہی تھی۔
اور پھر اب تو ان کے کام کی رسائی مزید بڑھ گئی تھی کہ ادھر پاکستان میں بھی ان کی کتابیں تواتر سے شائع ہورہی تھیں، 'مرگ انبوہ' اور 'مردہ خانے میں عورت' اشاعت کے بعد زیرِ بحث تھیں۔
ذوقی کا ادبی پروفائل بھاری بھرکم ہے۔ 24 مارچ 1963ء کو ہندوستانی ریاست بہار میں پیدا ہونے والے اس قلم کار نے تاریخ کے مضمون میں ایم اے کیا۔ قلم مزدور تھے، صحافت اور اسکرپٹ رائٹنگ یافت کا بنیادی ذریعہ رہیں۔ کئی روزناموں سے وابستہ رہے، سیریلز اور ڈاکومینٹریز لکھیں۔
انہوں نے 16 ناول تخلیق کیے۔ 'عقاب کی آنکھیں' پہلا ناول تھا، جس کے بعد ’نیلام گھر‘ کی اشاعت ہوئی۔ 'پوکے مان کی دنیا' ان کا 7واں ناول تھا، جو پاکستان میں بھی چھپ چکا ہے۔ اپنی کتاب ’پروفیسر ایس کی عجیب داستان‘ کو اپنی اہم ترین فکشنی تخلیق قرار دیتے تھے۔ ’لے سانس بھی آہستہ‘ میں انہوں نے حساس موضوع پر بولڈ انداز میں قلم اٹھایا۔ 'آتش رفتہ کا سراغ'، 'نالۂ شب گیر'، 'مرگ انبوہ'، 'مردہ خانہ میں عورت' اور 'ہائی وے پر کھڑا آدمی' آخر کے برسوں میں شائع ہوئے۔
'بھوکا ایتھوپیا' سے افسانوی مجموعوں کا سفر شروع ہوتا ہے، جس کے بعد منڈی اور غلام بخش شائع ہوئے۔ 8 مجموعے منظرِ عام پر آئے۔ ان کے افسانوں کے ایک سے زائد انتخاب بھی مرتب کیے گئے۔ ان کی متعدد تخلیقات کو ہندی روپ دیا گیا۔ ان کے فن و شخصیت تحقیقی مقالات کا موضوع بھی بنی۔
مشرف عالم ذوقی کے اپنے الفاط میں: میں وہ شخص ہوں، جس نے اپنی زندگی کا ہر دن ادب کی آغوش میں گزارا ہے۔
وہ چلا گیا، مگر کہانی چھوڑ گیا
وہ 2020ء کا ماہِ اگست تھا۔ پانی سب تہہ و بالا کرنے کا ارادہ باندھے بیٹھا تھا۔ خدشات سر اٹھاتے تھے، جنہیں نظر انداز کرنے کے لیے شہریوں نے شتر مرغ کے مانند، سر جھکا کر خود کو فیس بُک، یوٹیوب اور انسٹاگرام کی مصنوعی دنیا کے حوالے کردیا۔ ایپس، جو انہیں قید کرلیتی ہیں، گو انہیں سلاخوں کی موجودگی کا ادراک نہیں ہوتا۔
البتہ مشرف عالم ذوقی کو ان سلاخوں کی موجودگی کا بخوبی ادراک تھا۔
میلان کنڈیرا نے کہا تھا کہ، 'ناول، جو زندگی کا کوئی نیا گوشہ دریافت نہیں کرتا، وہ کچھ بھی دریافت نہ کرکے دریافتوں کے سلسلے میں شریک ہونے سے قاصر رہتا ہے!'
تو ٹیکنالوجی کے اس تیزی سے بدلتے عہد کا، جہاں زندگی از خود اپنے تاریک گوشے آشکار کر رہی ہے، ذوقی کو بخوبی ادراک تھا۔ وہ ایک عظیم تبدیلی کا شاہد بنا مگر اس نے اپنے علم کو اپنی کہانیوں میں یوں نہیں برتا کہ وہ معلومات کا قبرستان معلوم ہوں بلکہ یوں استعمال کیا کہ ماجرہ انگڑائی لے، ڈراما جست لگائے اور کہانی سبک روی سے بہنے لگے۔
صاحبو، ذوقی کا فکشن آج کا فکشن تھا۔ اپنے تواتر سے شائع ہونے والے ناولوں میں وہ لمحہ حال کا المیہ لکھ رہا تھا۔ البتہ وہ ماضی سے بیگانہ نہ تھا۔ ایک پختہ کہانی کار کی طرح، جو وہ تھا، جو بیت چکا اس پر اس کی گہری نظر تھی۔
اور اس خطے پر، پاک و ہند پر تو جانے کیا کچھ بیت چکا ہے۔ غلامی، بٹوارہ، جنگیں، وبائیں اور اب قوم پرستی...
یہ سارے واقعات، مشاہدات، تجربات بیجوں کی طرح اس کے سینے کی زمین پر گرتے رہے۔ چند نے جڑیں پائیں، اس کے دل کو چھوا اور تب اس کا ہاتھ حرکت میں آتا ہے اور اس کے قلم سے متاثر کن کہانی جنم لیتی ہے۔
اپنوں کو سامنے دیکھ کر کُرک شیتر میں ارجن نے کمان پھینک دی تھی۔ یہ حالات کا جبر تھا کہ میدانِ جنگ میں اس کا پرقوت ہتھیار اپنوں ہی کے خلاف استعمال ہونا تھا۔ ایسا ہی جبر ہر عہد کے قلم کار کو درپیش ہوتا ہے۔ قلم نشتر کا کام کرتا ہے اور نشتر درد دیتا ہے۔ چنانچہ کبھی کبھی قلم کار ارجن کی طرح اپنی کمان پھینک دیتا ہے، ہمت ہار بیٹھتا ہے۔ مگر ذوقی نے اپنے قلم کی چبھن سے سماج کی رفوگری جاری رکھی، اس کے باوجود کہ جبر گزرتے لمحات کے ساتھ بڑھتا گیا۔
وہ ایک ایسے سماج کی تلخ کہانی لکھ رہا تھا جو میرے سماج کی طرح سطحیت کی سمت میں روشنی کی رفتار سے سفر کررہا ہے، جہاں انسانی جان بے وقعت ہوئی اور شدت پسند افکار معتبر ٹھہرے۔
ذوقی کے ناول اور افسانے دونوں ہی پڑھے۔ افسانے بھی متاثر کن مگر ناول میں ذوقی کا قلم رواں۔ کہانی سماج سے جنم لیتی ہے۔ Major theme کے ساتھ مختلف Minor themes بھی ہمارے سامنے آتی ہیں۔ چند حیران کن اور چند پریشان کن۔ ورجینا وولف نے درست ہی کہا تھا کہ، 'ناول میں دنیا کا ہر موضوع سما سکتا ہے!'
Setting کو کسی بھی اچھی فلم کی طرح ذوقی کے فکشن میں کلیدی حیثیت حاصل ہے، اور یہ ضروری بھی ہے۔ ہندوستانی کلچر کے تنوع کے پیشِ نظر یہ لازم ہے کہ قاری پر واضح ہوجائے کہ مصنف اسے زمان و مکان کے کس درے میں دھکیلنے کے درپے ہے۔
کردار کہانی کا دل ہوتے ہیں اور ذوقی کے ہاں انہیں تسلسل کے ساتھ متعارف کروایا جاتا ہے۔ کہانی میں flat character بھی آتے ہیں، مگر وہ کلیدی کردار یعنی protagonist میں آنے والی تبدیلیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اول الذکر کی تشکیل اور بنت میں پھرتی پر اعتراض آج کے دور میں زیادہ وزنی نہیں۔
صاحب، اب یہ وہ زمانہ تو نہیں جب مطالعہ ہی اکلوتی تفریح تھا۔ نہ تو ریڈیو تھا، نہ ہی سنیما تھا۔ ٹالسٹائی اور دوستوسکی کے ناول قسط وار اخبارات و جرائد میں شائع ہوتے اور کئی کئی برس میں مکمل ہوتے۔ یہ تو آج کا عہد ہے، چند لفظوں پر مشتمل ٹوئیٹ کا عہد، فیس بک پوسٹ کا، لائیک، شیئر اور کومنٹ کا عہد۔ لاحاصل برق رفتاری کا، شکست و ریخت کا عہد۔ ورچوئل ورلڈ میں جنم لینے والے بگاڑ کا عہد، اور مسلسل برسنے والی بارش کا عہد۔
اپنے بیانیے کی Exposition میں ذوقی فوری نہیں کھلتے۔ ٹکڑوں میں معلومات ہم تک پہنچتی ہے۔ تجسس کا ٹول برتا جاتا ہے۔ ہمارے کردار اوائل ہی سے داخلی اور خارجی Conflict کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی تشکیل میں وقت صرف کرنے کا کلیہ پر۱نا ہوا۔ (وقت، جو چوتھی جہت ہے) کردار مختلف محاذوں پر اوروں سے اور خود اپنے آپ سے جوجھ رہا ہوتا ہے۔ اچھا، Rising Action سے Climax تک کا سفر جلدی طے نہیں ہوتا۔ یہ قاری کو اکساتے ہوئے، چونکاتے ہوئے، دھیرے دھیرے دبے پاؤں آتا ہے اور پھر برق رفتاری سے ظاہر ہو کر کہانی Resolution کی سمت جاتی ہے۔
اب یہ کہانی ویسی نہیں رہی صاحب، جیسے اپنے آغاز میں تھی۔ یہ بدل چکی ہے۔ مگر قاری کو ہر سوال کا جواب نہیں ملتا۔ یوں کہہ لیں کہ ہر سوال کا جواب مہیا نہیں کیا جاتا۔ قاری اب بھی الجھن کا شکار ہے۔ وہ کچھ سوچ رہا ہے اور مصنف اس پر مسرور ہے۔ یہی اس کی کامیابی ہے۔
گو اردو فکشن میں ایسے فسوں گروں کی کمی نہیں جو linear narratives میں بھی نئی روح پھونک دیتے ہیں، مگر فائرنگ اسکوارڈ کے سامنے کھڑے کرنل ارلیانو بوئندے کے عاشق کی حیثیت سے یہ nonlinear narratives ہی ہے، جس نے مجھے ہمیشہ اپنی طرف کھینچا، پاس بلایا، گرویدہ بنایا۔ ذوقی کے ہاں دونوں طرز کا بیانیہ موجود ہے مگر زیادہ زور nonlinear narrative پر رکھا گیا ہے جو زیادہ قابلِ فہم ہے کہ زمانے کے انداز بدلے گئے!
مشرف عالم ذوقی کے ہاں first person narrative اور 3rd person narrative دونوں ہی میں، دلیرانہ ڈھب پر لکھی کہانیاں ملتی ہیں۔ جنس ایک کردار کے طور پر ابھرتی ہے۔ مرد اور عورت کا تعلق ان کے ہاں بار بار آتا ہے اور اوراق کا حصہ بن جاتا ہے۔
تو اب جب اجل نے مشرف عالم ذوقی کو اچک لیا (اور اس کے اگلے ہی روز ذوقی کی زوجہ، معروف شاعرہ اور قلم کار، تبسم فاطمہ بھی جہانِ فانی سے کوچ کرگئیں) میں نے اداسی کی دبیز دھند خود سے سوال کیا:
وہ کون سی چیزیں ہیں جو ذوقی کے فکشن میں یوں چلتی پھرتی ہیں جیسے ہم اپنے اُن گھروں میں چلتے پھرتے ہیں، جہاں ہم پیدا ہوتے ہیں، اور بعد ازاں بوڑھے ہو کر مرجاتے ہیں؟
تو وہ کون سے عناصر ہیں؟
کیا وہ جرأت مندی ہے؟ یا پھر عہدِ حاضر کی پرپیچ کہانی کہنے کی للک؟ یا پھر جنس کو بیان کرنے کی مہارت؟ یا ٹیکنالوجی کے اثرات پر گہری نظر؟
وہ عناصر، وہ پہلو، چاہے انہیں شناخت کیا جاسکے، یا ہم انہیں شناخت کرنے سے قاصر رہیں، ذوقی کے فکشن کو وہ پر عطا کرتے ہیں، جن کے رنگوں سے ہمیں اختلاف ہوسکتا ہے، مگر ہم زیادہ دیر انہیں نظر انداز نہیں کرسکتے۔
سچ تو یہ ہے کہ جن ادیبوں کی تخلیقیت اور عصری شعور نے مجھے متاثر کیا، مشرف عالم ذوقی ان میں نمایاں رہے۔ ایک ایسا کہانی کار جو 'آج' کا 'اب' کا قصہ گو تھا اور اپنی ذرخیزی کے باعث لگ بھگ ناقابلِ تقلید تھا۔ جس نے اردو ناولوں کو وہ درکار جست عطا کی جس کے ہم منتظر تھے۔
میرا مطالعہ محدود، میرا تجزیہ نیم پختہ، مگر جو تھوڑا بہت فہم ہے اس کے مطابق مشرف عالم ذوقی کی موت اردو فکشن کے لیے ایک ناقابلِ تلافی نقصان ہے۔ دعویٰ یہ نہیں کہ وہ اپنے ہم عصروں سے بہتر تھا بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنے عصر سے زیادہ جڑا ہوا تھا۔ توانا، لکھنے کے لیے تیار، دلیری اور سپردگی کے ساتھ۔ اپنی ہی قوت سے ہمکتے ہوئے۔ ہاں، شاید اس کے ہم عصروں میں سے چند اس سے بہتر ہوں، مگر اس جیسی روانی اور قوت کی مثال شاید ہی اب ہمیں میسر آئے۔ وہ حال کی کھڑکی سے مستقبل میں جھانکنے والا چلا گیا۔
ذوقی کا فکشن سرنگ کے دہانے کی سمت سفر کر رہا ہے۔
کیا وہاں روشنی ہے؟ مجھے خبر نہیں۔ مگر میں اس کے فکشن کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا ہوں۔
ناول نگار چلا گیا، مگر لائٹ ہاؤس اب بھی روشن ہے۔
ملاح ساحلوں کی سمت گامزن ہیں۔