• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کی نئی تحقیقات کا حکم

شائع May 16, 2021
یسپاک نے سال 2017 میں روڈ کو ٹی چوک روات سے مرات تک منسلک کیا تھا —فائل فوٹو: ڈان
یسپاک نے سال 2017 میں روڈ کو ٹی چوک روات سے مرات تک منسلک کیا تھا —فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ اسکینڈل کی مکمل تحقیقات کا حکم دے دیا۔

اس کے بعد حکومت پنجاب نے تفتیش کے لیے مذکورہ کیس وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو بھجوانے کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ فیصلہ وزیراعظم کے دفتر پہنچنے والی 2 حقائق تلاش کرنے والی رپورٹس پر کیا گیا جس میں ایک راولپنڈی کے کمشنر اور دوسری ڈپٹی کمشنر نے تیار کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 2 بڑے منصوبوں میں سرمایہ کاری کیلئے کنسورشیم تشکیل

دوسری رپورٹ میں اشارہ دیا گیا تھا کہ مذکورہ منصوبہ وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور ان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ کی منظوری سے ری الائن کیا گیا تھا۔

تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) نے رنگ روڈ منصوبے کی ری الائمنٹ منظور کرنے پر متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اس سے نہ تو وزیراعظم عمران اور وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور نہ ہی اس سے براہِ راست 'مستفید ہونے والے' غلام سرور خان اور زلفی بخاری کو استثنٰی دیا جاسکتا ہے۔

کمشنر کی رپورٹ میں کچھ نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیز کے نام دیے گئے تھے جو رنگ روڈ کے اصل پلان سے بہت دور تھیں لیکن ری الائنمنٹ سے انہیں فائدہ پہنچایا گیا۔

رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا کہ سابق کمشنر کیپٹن (ر) محمود اور معطل ہونے والے لینڈ ایکوزیشن کمشنر وسیم تابش نے سڑک کے لیے زمین کے حصول کی غرض سے غلط طریقہ کار سے 2 ارب 30 کروڑ کا معاوضہ ادا کیا اور اراضی حاصل کرتے ہوئے سنگ جانی کے معروف خاندان کو فائدہ پہنچایا۔

مزید پڑھیں: چیئرمین نیب نے لاہور رنگ روڈ میں مبینہ کرپشن کا نوٹس لے لیا

یہ بات سامنے آئی کہ سابق کمشنر نے مارکیٹ کی قیمت سے کم نرخ کی پیش کش کی تھی جس کی وجہ سے مالکان اپنی اراضی دینے سے گریزاں تھے۔

اس کے علاوہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ نیسپاک نے سال 2017 میں روڈ کو ٹی چوک روات سے مرات تک منسلک کیا تھا لیکن آئندہ برس ایک اور کنسلٹنٹ نے روڈ کو ٹی چوک سے اسلام آباد-لاہور موٹروے (ایم-) سے متصل کرنے کی تجویز دی جس کی 2021 میں نیسپاک نے اسے بہترین قرار دیتے ہوئے دوبارہ توثیق کی تھی۔

تاہم یہاں یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ ایک منصوبے میں صرف 2 عہدیدار کس طرح کچھ غلط کرسکتے ہیں جبکہ تمام منظوریاں اور رضامندی متعلقہ حکام کی جانب سے دی گئیں ہوں۔

اس پیش رفت پر وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا کہ اس حکومت میں کوئی بدعنوانی نہیں کرسکتا اور انہوں نے رنگ روڈ منصوبے کی انکوائری کا حکم دے کر زبردست مثال قائم کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل: پاکستان میں کرپشن 4 درجے مزید بڑھ گئی

اپوزیشن پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے دور میں جب رائیونڈ روڈ، جاتی امرا اور کیمپ آفسز پر اربوں روپے خرچ کیے گئے تو 36 کمپنیوں کا اسکینڈل سامنے آیا تھا لیکن نہ تو انکوائری کی گئی نہ وزیر کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی بلکہ ایسے منصوبے کی دستاویزات آگ لگنے کے واقعات میں ختم کردی جاتی تھیں جیسے ایل ڈی اے پلازہ میں لگنے والی آگ نے میٹرو بس کا ریکارڈ جلا دیا۔

دوسری مسلم لیگ (ن) نے رہنما عطا تارڑ نے ایک پریس کانفرنس میں الزام عائد کیا کہ وفاقی وزیر غلام سرور خان اور زلفی بخاری راولپنڈی رنگ روڈ منصوبے سے براہِ راست مستفید ہونے والوں میں سے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ غلام سرور خان اور زلفی بخاری نے منصوبے سے بھاری مالی فوائد اٹھائے کیوں کہ ان کی اراضی منصوبے کے قریب واقع تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024