یہ غیرقانونی بجٹ ہے، اسپیکر نے ایوان کا تقدس پامال کیا، بلاول
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے بجٹ کی منظوری کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے رولز کی خلاف ورزی کی اور ایوان کا تقدس پامال کرتے ہوئے میرے چیلنج کو نظرانداز کیا جو میرا حق ہے۔
نئے مالی سال کے بجٹ کی منظوری کے بعد اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ قومی اسمبلی کا فورم اس لیے ہوتا ہے کہ رکن ناصرف اپنے حلقے کی بات اور عوام کی نمائندگی کرے بلکہ حکومت کی مخالفت بھی کرے اور یہ ہمارا حق ہے کہ ہماری گنتی کی جائے۔
مزید پڑھیں: وزیر خزانہ کی برطرفی دراصل پی ڈی ایم کی کامیابی ہے، بلاول بھٹو زرداری
ان کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کا طریقہ کار یہ ہے کہ اسپیکر پہلے وائس ووٹ لیتے ہیں اور اگر کوئی بھی رکن چیلنج کرتا ہے تو اسپیکر صاحب کو قانون کے مطابق لازمی گنتی کرانی ہے، آج بجٹ کے فائنل اور سب سے اہم ووٹ کے موقع پر جب اسپیکر صاحب نے وائس ووٹ لیا تو میں نے خود کھڑے ہو کر اس وائس ووٹ کو چیلنج کیا لیکن اسپیکر صاحب نے رولز کی خلاف ورزی کی اور قومی اسمبلی کا تقدس پامال کرتے ہوئے میرے چیلنج کو نظرانداز کیا جو میرا حق ہے۔
بلاول نے کہا کہ قومی اسمبلی کے رکن اور اپنی جماعت کے پارلیمانی لیڈر کی حیثیت سے میں نے ان کے بجٹ کو چیلنج کیا، ان کو بجٹ کے حق اور مخالفت میں ووٹ دینے والے اراکین کی گنتی کرنی چاہیے تھی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اسپیکر صاحب نے یہ نہیں کیا اور ہماری نظر میں یہ ایک غیرقانونی عمل ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں نے اسی لیے اسپیکر صاحب کو ایک خط بھی لکھا ہے جس میں رول 276 کی بھی نشاندہی کی ہے جس کے تحت ووٹ چیلنج ہو تو آپ نے گنتی کرانی ہوتی ہے لیکن اسپیکر صاحب نے آج رکن اسمبلی کے ووٹ کے حق پر ڈاکا مارا ہے، میں اس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ انہیں فی الفور اس خط کا جواب دینا پڑے گا، اگر وہ اس غلطی کو درست نہیں کرتے ہیں تو یہ غیرقانونی بجٹ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ ان کا بجٹ اتنا زبردست اور معیشت اتنی ترقی کررہی ہے تو وہ کیوں چھپ رہے ہیں اور یہ میرا حق ہے کہ میں ملک اور قوم کے سامنے اپنی رائے کا اظہار کروں اور اپنا ووٹ ریکارڈ کروں۔
یہ بھی پڑھیں: عوام، حکومت کی مہنگائی کے سونامی میں ڈوب رہے ہیں، بلاول بھٹو زرداری
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ آپ نے اس اسمبلی کو دھاندلی کی بنیاد پر بنایا اور اب آپ بجٹ کو بھی دھاندلی کی بنیاد پر بنا رہے ہیں، اگر قومی اسمبلی میں اپوزیشن کو اپنی بھڑاس نکالنے کا موقع نہیں ملے گا، ووٹ کے استعمال کا موقع نہیں ملے گا تو پھر ہمارے پاس کوئی آپشن ہی نہیں رہتا ہے، ہمیں انتہائی اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں جس سے ایوان کا چلنا مشکل ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ آپ آئی ایم ایف کے پاس بیٹھ کر بجٹ بناتے ہیں اور منظور کراتے ہیں، اسلام آباد میں دنیا کے تمام سفارتخانے یہ تماشا دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان میں منتخب نمائندوں کو نہ بات کرنے دی جاتی ہے، نہ ووٹ ریکارڈ کرنے کا موقع ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے اراکین اپنی تحاریک اور ترامیم پیش کرنے کے لیے بہت محنت کرتے ہیں تاکہ وہ وزیر کو بتائیں کہ ہماری تجویز کیا ہے لیکن اسپیکر صاحب انہیں وہ بھی نہیں کرنے دیتے لیکن اس کے بعد آپ ووٹنگ کا حق بھی نہیں دے رہے جو ہمارا بنیادی حق ہے اور ہم سے چھینا گیا ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عوام مہنگائی کی سونامی میں ڈوب چکے ہیں، مہنگائی تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے لیکن یہ حکومت نہ سننے کو تیار ہے، نہ دیکھنے کو تیار ہے، یہ اپنی ضد اور انا پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ عوام کو یہ تکلیف ضرور پہنچائیں گے۔
مزید پڑھیں: حکومت گرانے کیلئے کہیں نہیں جارہے، عوام کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، بلاول بھٹو
انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس بجٹ کو کشمیر سے کراچی تک بے نقاب کرے گی، آپ نے ہمیں قومی اسمبلی میں بے نقاب نہیں کرنے دیا تو ہم عوام کے سامنے جائیں گے اور ہم عوام کو بتائیں گے یہ جھوٹے کٹھ پتلی کہہ رہے ہیں کہ آپ معاشی ترقی کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ ظالمانہ پی ٹی آئی، آئی ایم ایف بجٹ زبردستی پاس کرایا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے عوام بے روزگار ہو رہے ہیں، عام آدمی کی مہنگائی کی وجہ سے زندگی مشکل ہو گئی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی یہ بالکل برداشت نہیں کر سکتی۔
اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی کے حوالے سے سوال پر بلاول نے کہا کہ میں اپنی پارٹی اور اراکین کا جوابدہ ہوں، میرے تمام صحتیاب اراکین قومی اسمبلی پوری تعداد میں ایوان میں موجود تھے، انہوں نے اپنی تحاریک اور ترامیم کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا، یہ شکایت درست ہے کہ کچھ جماعتوں کے اراکین آج موجود نہیں تھے جس سے برا پیغام جاتا ہے لہٰذا یہ زیادہ بہتر ہوتا اگر وہ پوری تعداد میں موجود ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ غلط روایت قائم ہوئی ہے، ہم نے شہباز شریف سے کہہ دیا تھا کہ ہمارے تمام اراکین بجٹ میں موجود ہوں گے، میں اپنے وعدے پر پورا اترا، میں نہ صرف خود موجود تھا بلکہ اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ موجود تھا، ایوان کو اہمیت دینے کا یہی طریقہ ہے اور حزب اختلاف مؤثر اپوزیشن کا کردار اسی وقت ادا کر سکتی ہے جب وہ اسلام آباد اور ایوان میں موجود ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی: بلاول، شہباز کا ایک ساتھ لائحہ عمل تشکیل دینے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی تھی، جس دن قائد حزب اختلاف پر حملہ ہوا تھا، میرا ماننا ہے کہ وہ تاریخ میں ایوان کا بدترین دن تھا اور یہی بات کافی ہے کہ اپوزیشن اسپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لے کر آئے۔
اس موقع پر چیئرمین پیپلز پارٹی نے قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے اپیل کی کہ اسپیکر کے کردار کو سنجیدگی سے لیا جائے، پارلیمان میں اگر قائد حزب اختلاف پر حملہ ہو گا اور اگر ہم احتجاجاً تحریک عدم اعتماد نہیں لے کر آئیں گے تو پھر کب لے کر آئیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے قائد حزب اختلاف اس ایوان کے ایک بزرگ رکن اسمبلی ہیں جو کینسر جیسے موذی مرض سے صحتیاب ہوئے ہیں، اگر ان پر حملہ ہو گا تو میں نہیں برداشت کر سکتا، مجھے نہیں پتا کہ مسلم لیگ (ن) والے کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج مجھے میرے حق سے محروم کیا گیا، ہماری تعداد اتنی تھی کہ ہمیں شکست ہی ہوتی لیکن میرا اتنا حق تو تھا کہ تاریخ یاد رکھتی کہ بلاول بھٹو زرداری نے اس پی ٹی آئی آئی ایم ایف بجٹ کی مخالفت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال پر میں نے کہا کہ تمام اداروں اور وزارتوں کو ایوان کو اعتماد میں لینا چاہیے اور میری اس بات کو اسپیکر صاحب نے مانتے ہوئے کہا کہ ہم اس پر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی بلائیں گے جس میں پاکستان پیپلز پارٹی بھی شرکت کرے گی اور میں خود جاؤں گا کیونکہ یہ میری جانب سے معاملہ اٹھائے جانے کے بعد اجلاس بلایا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیں: سندھ میں الطاف حسین والی سیاست واپس لانے کی اجازت نہیں دیں گے، بلاول بھٹو
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں صورتحال انتہائی نازک موڑ پر ہے اور جو فیصلے آج لیے جائیں گے اس کے نتائج ہمیں اگلے 10، 20، 30 سال تک بھگتنا ہوں گے تو ہمارا موقف یہ ہے کہ اگر ہم ماضی کے تجربات سے نہیں سیکھیں گے، اگر ہم وہی غلطیاں کریں گے جو ہم نے 80 کی دہائی میں کیں، 2001 میں کی تو پھر یہ نقصان عام آدمی کو بھگتنا پڑے گا، اس لیے ہم اس فورم کو استعمال کرتے ہوئے پوری کوشش کریں گے کہ پاکستان کی ایک جامع پالیسی ہو جس میں افغانستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا سے بات چیت کی جائے اور ہم پاکستان کے مفادات کا دفاع کریں۔