• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

امریکا کے ساتھ امن کے شراکت دار تو ہوسکتے ہیں لیکن جنگ میں نہیں، وزیراعظم

شائع June 30, 2021
وزیراعظم کے مطابقامریکا نے ہماری تعریف کرنے کے بجائے ہمیں ہی برا بھلا کہا— فوٹو: بشکریہ عمران خان انسٹاگرام
وزیراعظم کے مطابقامریکا نے ہماری تعریف کرنے کے بجائے ہمیں ہی برا بھلا کہا— فوٹو: بشکریہ عمران خان انسٹاگرام

وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی میں افغان جنگ کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ امن کے شراکت دار تو بن سکتے ہیں لیکن جنگ میں کبھی نہیں۔

اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے مالی سال 22-2021 کے بجٹ کی منظوری میں کردار ادا کرنے پر اپنی پارلیمانی پارٹی کا شکریہ ادا کیا۔

اپنی تقریر کے دوران امریکا کو فوجی اڈے دینے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'لا الہ الا اللہ انسان میں غیرت دیتا ہے اور غیرت کے بغیر نہ کوئی انسان کوئی کام کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک اٹھتا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'جب میں اپوزیشن میں بیٹھتا تھا اور پیپلزپارٹی بھی ہمارے ساتھ بیٹھی تھی تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بن رہے ہیں،اپنی زندگی میں پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ ذلت اس وقت محسوس ہوئی تھی'۔

مزید پڑھیں: قومی اسمبلی کا اجلاس: شاہ محمود، بلاول بھٹو کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ

وزیراعظم نے کہا کہ 'یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم امریکا کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بن جائیں گے، اس وقت اسمبلی میں میری ایک نشست تھی مگر میں اس وقت بھی کہتا تھا کہ اس جنگ سے ہمارا کیا تعلق ہے، القاعدہ افغانستان میں ہے، مسلح طالبان افغانستان میں ہے، ہم نے کیا کیا ہے جو ہم ان کی جنگ کا حصہ بنیں'۔

عمران خان نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری قوم ہمیشہ کے لیے یہ سیکھے کہ کوئی قوم اس وقت آگے بڑھتی ہے جب وہ اپنی غلطیوں سے سیکھے، ہم نے اس وقت جو حماقت کی، میں ان میٹنگز میں شریک تھا۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'فیصلہ کیا گیا تھا کہ امریکا بڑا ناراض ہے، اس کے لیے زخمی ریچھ کا لفظ استعمال کیا گیا کہ کہیں بھی ہاتھ ماردے گا لہذا ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے لیکن ہم نے اس کے بعد جو کیا، کیا قوم کسی اور کی جنگ میں شرکت کرکے اپنے 70 ہزار لوگوں کی قربانی دیتی ہے؟'

—فوٹو:بشکریہ قومی اسمبلی ٹوئٹر
—فوٹو:بشکریہ قومی اسمبلی ٹوئٹر

عمران خان نے کہا کہ 'اس ملک سے 150 ارب ڈالر گئے ہوسکتا ہے اس سے بھی زیادہ گیا ہو کیونکہ یہاں تو کوئی کرکٹ ٹیم نہیں آتی تھی تو کوئی سرمایہ کار کیسے آتا یہاں تو انہوں نے ملک کو دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک ترین جگہ قرار دے دیا تھا جو وہ کہتے رہے ہم کرتے رہے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی جنرل نے کتاب میں لکھا کہ ہم جانتے تھے کہ مشرف کمزور تھا تو ہم اس پر دباؤ ڈالتے رہے، مشرف سے جو کہا کرنے کو تیار ہوگیا، اپنے لوگ پکڑ کر گوانتاناموبے بھجوائے، پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ انہوں نے پیسے لے کر لوگوں کو بھجوایا، مگر کس قانون کے تحت؟'

وزیراعظم نے کہا کہ اگر حکومت ہی اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کرتی تو ان کی حفاظت کون کرے گا؟

انہوں نے مزید کہا کہ' بات یہاں تک نہیں رکی قبائلی علاقے میں تورا بورا کے بعد القاعدہ پہنچ گئی، قبائلی علاقے میں اوپن بارڈر تھا ہمیں انہوں نے حکم دیا کہ وہاں اپنی فوج بھیجیں اور چند سو القاعدہ کے لیے ہم نے قبائلی علاقے میں اپنی فوج بھیج دی، وہاں ہمارے اپنے لوگ بھی تھے، اُدھر سے وہ ڈرون حملہ کریں تو ہمارے شہری مرجاتے اور فوج کو پتا ہی نہیں کس کے پیچھے جارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے قبائلی علاقے کی نصف آبادی نے نقل مکانی کی اور ابھی تک یہ ریکور نہیں ہوا'۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی مخالفت کی تو مجھے طالبان خان بنادیا گیا، جب میں کہتا تھا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں تو طالبان کا حامی کہا گیا، وہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون؟

'لندن میں بیٹھے دہشتگرد پر ڈرون حملہ کرتے ہیں تو کیا اجازت ملے گی؟'

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'امریکا ہمارا دوست ہے تو کبھی سنا ہے کہ آپ کا دوست اپنے ملک میں بمباری کررہا ہو، وہ آپ کا اتحادی ہے اور ڈرون حملے کررہا ہو اور ان حملوں میں جو لوگ مرتے تھے ان کے گھروالے جاکر پاکستانی فوج اور پاکستان سے بدلہ لیتے تھے، اس طرح دونوں طرف پاکستانی مررہے تھے'۔

عمران خان نے کہا کہ 'میں جب کہتا تھا کہ کیوں اجازت دی ہے تو کہا جاتا تھا کیونکہ پاکستان ان کے پیچھے جارہا ہے لہذا ہمیں ایسا کرنا پڑتا ہے'۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے سوال کیا کہ '30 سال سے لندن میں ہمارا ایک دہشت گرد بیٹھا ہوا ہے، ہم اسے ڈرون ماریں گے تو کیا برطانیہ اجازت دے گا؟ اگر ہم لندن میں ڈرون حملہ کرتے ہیں تو اس کی اجازت دی جائے گی؟ وہ اجازت نہیں دیں گے تو ہم نے اجازت کیوں دی؟'

انہوں نے کہا کہ 'کیا ہم سب -ہیومن ہیں؟ آدھے انسان ہیں؟ ہماری جان کی اتنی قیمت نہیں؟ اجازت دی گئی اور لوگوں سے جھوٹ کہا گیا کہ ہم ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہیں، یہ ذلت تھی کہ پہلے انہیں اجازت دیتے ہیں، پھر اتنا حوصلہ نہیں کہ لوگوں کو بتاتے بلکہ مذمت کی'۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ کثرت رائے سے منظور

وزیراعظم نے امریکی سینیٹ میں ہونے والی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ'جب ایڈمرل سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان میں ڈرون حملے کیوں کررہے ہیں جب ان کی حکومت مذمت کررہی ہے تو انہوں نے کارل لیون کو جواب دیا تھا کہ ہم حکومت پاکستان کی اجازت سے کررہے ہیں اس پر انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی حکومت دوغلی کیوں ہے؟'

انہوں نے کہا کہ ' ہم نے اپنے آپ کو ذلیل کیا، امریکا کو کیوں برا بھلا کہیں جب آپ نے خود اجازت دی ہو، آپ ان کی مدد کررہے ہیں، آپ کے لوگ مررہے ہیں ان کے لیے اور وہ آپ ہی پر بمباری کررہے ہیں دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی'۔

انہوں نے کہا کہ 'جب امریکی نیوی سیلز نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا تو اوورسیز پاکستانیوں کو بہت ذلت ملی، وہ کہتے تھے کہ ہم ان کا سامنا نہیں کرسکتے تھے کہ ہمارا اتحادی ہم پر اعتماد نہیں کرسکتا تھا؟ وہ ہمارا دوست ہے یا دشمن؟ ساری عوام الجھن کا شکار تھے'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'ہماری قوم کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچی اور ہمیں اپنے آپ سے شرم آرہی تھی'۔

'ہم نے اپنی خودمختاری پر سمجھوتا نہیں کرنا'

انہوں نے کہا کہ میں پھر سے کہتا ہوں جو قوم اپنی عزت نہیں کرتی تو دنیا اس کی عزت نہیں کرتی، مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان، امریکا کو فضائی اڈے دے گا؟ میں ان سے یہ پوچھوں کہ جب ہم نے اتنی خدمات پیش کیں، ہمارے 70 ہزار لوگ مارے گئے، اپنے ملک کے 150 ارب ڈالر کا نقصان کردیا، کیا انہوں نے ہماری تعریف کی؟ہماری قربانیوں کو تسلیم کیا؟ بلکہ پاکستان کو برا بھلا، دوغلہ کہا اور افغانستان جنگ میں ناکامی کا ملبہ بھی ہم پر ڈالا، یعنی ہماری تعریف کرنے کے بجائے ہمیں ہی برا بھلا کہا گیا تو اس سے ہم نے ایک سبق سیکھا کہ کبھی اس قوم نے کسی کے لیے اپنی خودمختاری پر سمجھوتا نہیں کرنا'۔

—فوٹو:بشکریہ قومی اسمبلی ٹوئٹر
—فوٹو:بشکریہ قومی اسمبلی ٹوئٹر

عمران خان نے مزید کہا کہ افغانستان کے حوالے سے ہمارے لیے اب واقعی 'بڑا مشکل وقت آرہا ہے، شکر ہے کہ امریکا نے تسلیم کرلیا کہ افغانستان کے تنازع کا فوجی حل موجود نہیں اگر وہ پہلے مان لیتے تو اتنا خون نہ بہتا ۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمیں یہ بات پہلے ہی سمجھنی چاہیے تھی ہم تو جانتے ہیں افغانیوں کو وہ ہمارے بھائی ہیں ہمیں ان کی تاریخ پتا ہے، وہ باہر سے مداخلت کو قبول نہیں کرتے، اگر ہم متحرک ہوتے اور پُراعتماد حکومت کھڑی ہوتی اور کہتی کہ آپ (امریکا) غلط کررہے ہیں تو ہم ان کو (افغانیوں) بھی بچالیتے اور دوسری طرف امریکا بھی بہتر وقت پر جاسکتا تھا'۔

مزید پڑھیں: اپوزیشن کی غیر سنجیدگی، قومی اسمبلی سے 30 کھرب روپے کی گرانٹس منظور

وزیراعظم نے کہا کہ' جب امریکا نے فیصلہ کرلیا کہ افغانستان کے تنازع کا فوجی حل موجود نہیں اور انخلا کی تیاری کرلی تو امریکا پاکستان سے چاہتا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کے لیے تیار کرے، ہمارے پاس کیا لیوریج ہے؟ سوائے اس کے کہ ان کے خاندان یہاں بسے ہوئے ہیں، ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ فوجی حل کی جانب جائیں گے تو خانہ جنگی اور طویل ہوگی جس میں افغانستان میں تباہی ہوگی اور اس کے بعد پاکستان بھی متاثر ہوگا'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا مفاد یہ ہے کہ افغانستان میں امن ہو، ہم افغانستان میں کوئی تذویراتی گہرائی نہیں چاہتے، جو افغانستان کے لوگ چاہتے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں'۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'ہم امریکا کے ساتھ امن کے شراکت دار تو ہوسکتے ہیں لیکن جنگ میں کبھی نہیں ہوسکتے'۔

'پورا پاکستان کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے'

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ 5 اگست 2019 سے پہلے بھی بھارتی حکومت کشمیریوں پر ظلم کررہی تھی، پیلیٹ گنز کا استعمال کیا، بی جے پی کی حکومت نے ان پر بہت مظالم ڈھائے۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں آج اس پلیٹ فارم سے اپنی پوری قوم کی طرف سے کشمیریوں کے جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں، کوئی نہیں سمجھ رہا تھا کہ وہ کھڑے ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ سارا پاکستان ان دلیر کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے، ہم سب ان کے ساتھ کھڑے ہیں، جب تک بھارت 5 اگست کا اقدام واپس نہیں لے گا ہم ان سے سفارتی تعلقات بحال نہیں کریں گے۔

وزیراعظم کی اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر بات چیت کی دعوت

انہوں نے اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں 1970 کی دہائی کے بعد سے تمام انتخابات متنازع رہے اور ابھی بھی سینیٹ کے انتخابات اور ضمنی الیکشن میں تنازع کا شکار رہے۔

وزیراعظم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 2 برس میں ہم نے بہت کوشش کیں کہ اس ضمن میں کیا اصلاحات کی جاسکتی ہیں کہ جو بھی الیکشن ہارے اس کے نتیجے کو قبول کرے، ہم نے اس سلسلے میں تجاویز بھی دی ہیں لیکن ابھی تک ان پر اپوزیشن کی بحث نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ میں درخواست کروں گا کہ یہ حکومت و اپوزیشن کی بات نہیں ہے یہ پاکستان کی جمہوریت کا مستقبل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قومی اسمبلی میں ہنگامہ آرائی: بلاول، شہباز کا ایک ساتھ لائحہ عمل تشکیل دینے کا فیصلہ

عمران خان نے کہا کہ اپنی زندگی کے 21 سال میں بین الاقوامی کرکٹ کھیل کر گزارے تو میں اپنا تجربہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہم کرکٹ کھیلتے تھے تو ملک اپنے اپنے امپائر کھڑے کرتے تھے اور جو ہارتا تھا وہ کہتا تھا کہ امپائروں نے ہمیں ہرادیا لیکن پاکستان وہ ملک تھا جس نے کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیوٹرل امپائر کھڑے کیے تھے اور اب یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہم الیکشن لڑیں اور کسی کو یہ فکر نہ ہو کہ دھاندلی سے ہرادیا جائے گا۔

اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پہلے دن جب میں قومی اسمبلی میں تقریر کرنے کھڑا ہوا تھا تو اپوزیشن نے تقریر نہیں کرنے دی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، اگر الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تھے تو انہیں بتانا چاہیے تھا کہ کیسے ٹھیک نہیں ہوئے۔

—فوٹو:بشکریہ قومی اسمبلی ٹوئٹر
—فوٹو:بشکریہ قومی اسمبلی ٹوئٹر

وزیراعظم عمران خان نے مزید کہا کہ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تو ان کے میڈیا اور عوام نے کہا کہ اس بات کا ثبوت دیں۔

انہوں نے کہا کہ جب 2013 میں ہم نے کہا تھا کہ الیکشن درست نہیں ہوئے تو 133 میں سے 4 حلقوں کا مطالبہ کیا تھا کہ ان کا آڈٹ کیا جائے لیکن ان 4 حلقوں کو نہیں کھولا گیا تھا جس کے بعد 2 سے ڈھائی سال بعد کیس لڑکر ہم نے وہ حلقے کھلوائے اور نتائج میں دھاندلی پائی گئی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ میں اپوزیشن سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے پروٹو ٹائپ الیکٹرانک ووٹنگ مشین(ای وی ایم) کیونکہ جب ووٹنگ ختم ہوتی ہے تو بٹن دباتے ہی نتائج فوراً سامنے آجاتے ہیں، اس طرح ڈبل اسٹامپس، تھیلیاں کھلے ہونے کے مسائل ختم ہوتے ہیں اور جو بھی اعتراض کرنا چاہے وہ اٹھاسکتا ہے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اگر اپوزیشن کے پاس کوئی اور تجویز ہے تو ہم وہ سننے کے لیے تیار ہیں۔

'بجٹ 22-2021 پاکستان کے حوالے سے میرے وژن کے مطابق ہے'

انہوں نے مزید کہا کہ اگر اصلاحات نہیں کی جائیں گی تو یہ مسئلہ ہر الیکشن میں آئے گا جیسا کہ سینیٹ اور ضمنی انتخابات میں ہوا۔

بجٹ 22-2021 سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ میں شوکت ترین اور ان کی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان کے حوالے سے میرے وژن کے مطابق بجٹ تیار کیا۔

انہوں نے کہا کہ 25 برس قبل جب ہم نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھی جس کے محرکات میں صرف نظریہ پاکستان شامل تھا، جو قراردادِ مقاصد میں بھی واضح ہے کہ اسلامی، فلاحی ریاست ہے۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ اسلامی، فلاحی ریاست کا نظریہ مدینہ کی ریاست سے لیا گیا تھا، جو پہلی فلاحی ریاست تھی، یہ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان اسی نظریے پر عمل کرے کیونکہ ہم اس سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں تو ہم پاکستان کے نظریے سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

مزید پڑھیں:قومی اسمبلی میں شہباز شریف کی تقریر کے دوران شدید ہنگامہ آرائی، شور شرابا

انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو ہمیں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا مسئلہ درپیش تھا، جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ تھا اور اس کی وجہ سے ہماری کرنسی خطرے میں تھی، ڈالرز کی کمی تھی جس کی وجہ سے ڈالر نے اوپر جانا ہی تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ اتنے بڑے بحران میں ہماری ٹیم نئی تھی، تجربہ نہیں تھا لیکن ہم نے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے بہت مشکل اور تکلیف دہ قدم اٹھائے تھے۔

انہوں نے ملک کو درپیش مالی مسائل کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح ایک گھر مقروض ہوجاتا ہے، آمدنی اور خرچ میں بڑا خسارہ ہوجاتا ہے، لوگ پیسے مانگنے کے لیے آرہے ہیں کیونکہ قرضے لیے ہوئے ہیں، وہ صرف 2 چیزیں کرسکتا ہے اپنے خرچے کم کرتا ہے اور آمدنی بڑھانے کی کوشش کرتا ہے، جب خرچ کم کرتے ہین تو تکلیف ہوتی ہے۔

'مالی بحران سے نکلے نہیں تھے کہ کورونا آگیا'

وزیراعظم نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اسی طرح ہمیں بھی مشکل فیصلے کرنے پڑے، عوام کو تکلیف ہوئی اور کئی ابھی بھی تکلیف سے گزر رہے ہیں لیکن جب ایک ملک مقروض ہوجائے اور مشکل میں پڑجائے تو اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'اس دوران ہماری معاشی ٹیم نے جو فیصلے کیے اس پر مجھے خوشی ہے، دنیا میں باہر گئے مالی مدد طلب کی، میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمیں ڈیفالٹ سے بچایا'۔

عمران خان نے کہا کہ شروع میں جب بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے مذاکرات ہوئے تھے تو ہماری کوشش تھی کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں، ہم نے کوشش کی کہ کوئی اور طریقہ نکل آئے کیونکہ ان کی شرائط بہت مشکل تھیں لیکن بالآخر ہمیں جانا پڑا اور شرائط مشکل ہونے کی وجہ سے عوام کو تکلیف ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم ابھی اس مشکل سے نکل ہی رہے تھے کہ کورونا وائرس آگیا، کورونا نے پوری دنیا کی معیشت پر اثرات مرتب کیے تو ایک ایسی معیشت جو پہلے ہی مشکل کا شکار تھی، اس میں ہماری ٹیم، ڈاکٹر فیصل نے بہترین کارکردگی دکھائی اور پاک فوج، انٹیلی جنس نے ہماری مدد کی۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 22-2021 کا بجٹ پیش، کم از کم تنخواہ 20 ہزار روپے مقرر

وزیراعظم نے کہا کہ ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ ہمارے افغانستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا جیسے حالات نہیں، اللہ کا خاص کرم ہے کہ اس نے ہمیں بچالیا اور ہم اس لیے بھی بچ گئے کہ ہم نے مکمل لاک ڈاؤن نہ لگانے کا فیصلہ کیا، مگر لاک ڈاؤن نہ لگانے پر اپوزیشن نے 2 ماہ تک ہم پر تنقید کی۔

وزیراعظم نے کہا کہ 'کورونا وائرس کی صورتحال بہتر ہونے کے بعد حکومت نے تعمیراتی شعبہ کھولنے کا فیصلہ کیا اور اس کے ساتھ زرعی اور برآمدات کے شعبے بھی کھولے گئے'۔

عمران خان نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے صنعتوں کو مراعات دیں اور ان کی مدد کی، ہم نے چھوٹی اور درمیانی درجے کی صنعتوں کی مدد کی،احساس پروگرام کے ذریعے 2 کروڑ سے زائد گھرانوں کی مالی مددکی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اللہ کے کرم سے ہم نے معیشت کو بچالیا کیونکہ ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کیے اور ایک سمت پر توجہ مرکوز کرکے ہم نے لوگوں کو بچالیا۔

معاشی ترقی

انہوں نے حکومت کی جانب سے زراعت کے 'تحفظ' کے ساتھ ساتھ مالی سال 2021 میں 3.9 فیصد معاشی نمو میں فصل کی ریکارڈ پیداوار کا بھی حوالہ دیا۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ فصلوں کی ریکارڈ پیداوار کی ایک بڑی وجہ حکومت کا فیصلہ تھا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کاشتکاروں کو وقت پر مکمل معاون قیمت ادا کی جائے۔

حکومت کے مزید اقدامات کے حوالے سے وزیراعظم نے کہا کہ ہم برآمدی صنعت کی حوصلہ افزائی کی اور اس میں ایک سال 17 فیصد اضافہ ہوا، جون میں ہماری برآمدات 2.7 ارب ڈالر تھیں جو پاکستان میں اس مہینے کا ایک اب تک کی ریکارڈ برآمدات ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'ہم نے تعمیراتی صنعت کے ساتھ مذاکرات کیے اور انہیں مراعات دینے کی کوشش کی کیونکہ جب [وہ صنعت] چلنا شروع ہوجائے گی تب اس سے وابستہ 30 صنعتیں بھی شروع ہوجائیں گی'۔

مزید پڑھیں: شہباز شریف کی تقریر کے دوران ہنگامہ آرائی، قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی

وزیراعظم نے کہا کہ حکومت، مستقبل میں پاکستان کی سمت کے بارے میں بہت واضح ہے، وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ملک کی معاشی نمو برآمدات کے ذریعے ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ درآمدات میں اضافے کی ایک وجہ مشینری کی درآمد ہے، وقت کے ساتھ ہم ریکارڈ برآمدات تک پہنچیں گے، ہم چھوٹے اور درمیانی درجے کی صنعتوں (ایس ایم ای) پر بھی توجہ دے رہے ہیں، وزیر خزانہ ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں اور اس حوالے سے پالیسی مرتب کررہے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ زراعت میں ہم بہت چیزیں کر رہے ہیں، پنجاب میں کسان کارڈ متعارف کروارہے ہیں جس میں کسانوں کا ڈیٹا بیس موجود ہوگا جبکہ چھوٹے کاشتکار کھاد اور کیڑے مار ادویات پر براہ راست سبسڈی وصول کریں گے۔

وزیراعظم کے خطاب کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی سے وزیراعظم کے خطاب سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے درمیان گرما گرمی دیکھنے میں آئی تھی اور ایک دوسرے کے بیان پر جواب دیتے ہوئے سخت جملے بھی استعمال کیے گئے تھے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز قومی اسمبلی نے نئے مالی سال کے لیے کثرت رائے سے بجٹ منظور کرلیا تھا، اس دوران وزیراعظم صرف 50 منٹ اجلاس میں موجود رہے تھے اور حکومتی اراکین کی تعداد کافی ہونے کے باعث حتمی ووٹ سے قبل ہی ہال سے واپس چلے گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024